جمہوریت کا کمال یہ ہے کہ یہ انسانوں کے اندر چھپے ہوئے تعصب‘ نفرت‘ غصہ‘ انتقام اور حیوانگی کو اجتماعی شکل دیتی ہے اور ان منفی جذبوں کو اظہار کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔ نفسیات دان جب انسانی معاشروں کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ ایک تصور کو ضرور زیر بحث لاتے ہیں جسے وہ اجتماعی نفسیات Collective Psycheکہتے ہیں۔ جدید نفسیاتی علم کی تاریخ میں کارل گستاف ینگ Carl Gustav jungایک اہم نفسیات دان تھا وہ تحلیل نفسی (Psychoanalysis) کے بانیوں میں شمار ہوتاہے۔ سگمنڈفرائڈ کادوست اور ساتھی۔ اس نے اس اجتماعی نفسیات کی جڑیں انسان کے لاشعور میں بھی تلاش کی ہیں۔ وہ اپنے اس نظریے کو اجتماعی لاشعور (Collective unconscious) کا نام دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ نسل انسانی کے آبائو اجداد نے جو حالات دیکھے تجربات کے لئے دکھ جھیلے ۔‘ خوشی و مسرت کے لمحے گزارے وہ سب کے سب نسل در نسل انسانوں کے اجتماعی لاشعور کا حصہ بننے جاتے ہیں۔ پھر جب کبھی انسان کسی ایسی صورت سے دوچار ہوتا ہے جیسی اس کے آبائواجداد پر گزری تھی تو اسے مختلف انداز سے رہنمائی ملتی ہے۔ لاتعداد مثالوں میں سے ایک مثال اس نے ایک ریڈ انڈین قبیلے کی دی ہے جو صحر ا میں راستہ بھٹک جاتا ہے اور مایوسی کے عالم میں سردار اپنے خواب میں ایک راستے کو دیکھتا ہے جس پر چل کر وہ صحرا سے باہر نکل جاتا ہے۔ مایوسی کے عالم میں وہ ویسا ہی کرتا ہے اور خواب درست ثابت ہوتا ہے۔ ینگ نے جب اس قبیلے کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ صدیوں پہلے ان کے آبائواجداد اسی طرح صحرا میں راستہ بھول گئے تھے اور وہ انتہائی جانفشائی اور کوشش کے بعد راستہ تلاش کرتے ہیں اس دوران ان کے کئی ساتھی جان سے جاتے ہیں مگر بالآخر راستہ مل جاتا ہے۔ یہ تجربہ ایک ہدایت نامے کی طرح لوگوں کے اجتماعی لاشعور میں پیوست ہو جاتا ہے۔ صدیوں کے انہی تجربوں سے قوموں کے مزاج اور اجتماعی نفسیات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی بھی انسان کو اجتماعی یا انفرادی طورو پر قوت و طاقت کے اظہار کا موقع ملتا ہے تو اس کے اجتماعی لاشعور میں موجودمحبتیں اور نفرتیں ‘ غصہ اور پیار‘ رحم دلی اور سفاکیت سب کے سب کھل کر سامنے آ جاتے ہیں۔ جس نسل‘ قوم یا قبیلے کا جو سربراہ ہوتا ہے‘ اس کا طرز عمل اور رویہ اپنے اس اجتماعی لاشعور اور نسلی پس منظر سے مختلف نہیں ہوتا۔ چنگیز خان کی نسل دنیا کے بے شمار خطوں پر حکمرانی کرتی رہی ہے ان تمام تاتاریوں میں وہ تمام خصوصیات ڈھونڈی جا سکتی ہیں جو منگولیا کے باسیوں میں پائی جاتی تھیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ظہیر الدین بابر جیسا انتہائی شاندار اور صاحب دیوان شاعر بھی حکمرانی کرتے وقت نرم خوئی اور رحم سے بالکل عاری نظر آتا ہے۔ ایک مقام پر تو ایسا منظر دیکھنے کو ملتا ہے کہ اس کا تخت تین دفعہ مختلف مقام پر منتقل کرنا پڑتا ہے کیونکہ سامنے لاشوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ بادشاہ تو ایک فرد ہوتا ہے لیکن اگر یہی فرد عوام کی اکثریت کا نمائندہ بن کر حکمران ہو‘ اسے لوگوں کی ایک واضح اکثریت حاصل ہو۔ اس کے ہر قتل‘ ظلم‘ زیادتی‘ سفاکیت اور تشدد پر لوگ نعرے بلند کریں۔ اس کی حمایت میں بازاروں میں نکل آئیں اور ہر ظلم کو جائز قرار دیں‘ تو پھراس سے خوفناک صورت حال نہیں ہو سکتی اور یہ خوفناک صورت حال صرف اور صرف جمہوریت اور جمہوری نظام میں ہی پیدا ہو سکتی ہے۔ آج 2019ء کے جمہوری معاشرے اپنے سفاک ‘ ظالم اور متعصب جذبات کے ترجمان لیڈروں کو منتخب کرنے میں مصروف ہیں۔ ایسے تمام رہنما اور ایسی تمام سیاسی پارٹیاں جو تمام انسانوں کا بحیثیت انسان احترام کرتی ہیں۔ جن کے ہاں انسانی اقدار کا احترام‘ انصاف ‘ مساوات اور رنگ نسل و زبان اور علاقے کی بنیاد پر تعصب سے بیزاری ہے وہ آج سب کی سب منظر سے غائب ہوتی جا رہی ہیں۔ مقبولیت اور جمہوری اکثریت کے تخت پر ڈونلڈ ٹرمپ‘ بورس جانسن ‘ بنجمن نیتن یاہو اور نریندر مودی کے چہرے اپنے خونی پنجوں اور سرخ خوفناک آنکھوں کے ساتھ براجمان ہو چکے ہیں۔ آج سے چھیاسی سال قبل جب ہٹلر جرمن قوم کے ووٹوں سے جیت کر چانسلر کی کرسی پر براجمان ہواتو کسی کو اندازہ تک نہ تھا کہ نفرت‘ تعصب اور انتقام کو جب جمہوری پذیرائی میسر آتی ہے تو پھر پورا معاشرہ ایک ’’مجسم ظالم‘‘ کی شکل میں ڈھل جاتا ہے۔ اپنے منتخب حاکم کے ہر ظلم پر تالیاں بجاتا ہے۔ اس کی تعریف کرتا ہے اور اس کے ظلم کے جواز تلاش کر کے لوگوں کے سامنے پیش بھی کرتا ہے اور خود کو تسلی بھی دیتا ہے۔ جمہوریت چونکہ انسانی معاشرے کو بدترین صورت میں تقسیم کرنے کی قائل ہے اس لئے ایسے معاشرے صلح جوئی کی جانب بہت کم مائل ہوتے ہیں۔ اپوزیشن کا گروہ وہ ہے جو حکومت کے ہر اچھے برے کام کی مخالفت کرتا نظر آئے‘ ورنہ اسے فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ ملے گا اور حکمرانوں کے دفاع کے لئے تو اس کی پارٹی ‘ ووٹرز اور سپورٹرز کا ایک وسیع حلقہ موجود ہوتا ہے۔ اکثریت کی آمریت ہوتی ہے جس کا بنیادی کام ہر سطح پر مخالف آواز کو دبانا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورے جرمنی میں ہٹلر نے جب یہودیوں کی نسل کشی کا آغاز کیا تواس جمہوری معاشرے میں ہٹلر کی نازی پارٹی کے ووٹرز ‘ سپورٹرز اس ظلم پر خوش ہوتے تھے۔ کوئی ایک آواز پورے جرمنی میں ایسی بلند ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی جس نے یہودیوں پر ہونے والے بدترین ظلم پر صرف افسوس کا اظہار ہی کیا ہو۔ تنہا صرف یہودی تھے جو خود ہی ظلم سہتے اور خود ہی احتجاج کرتے۔ یہی منظر آپ کو دنیا کے جدید جمہوری معاشروں میں نظر آ رہا ہے۔ برطانیہ جسے جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے وہاں لیبر پارٹی جو تمام گوروں اور دیگر نسلوں کو ساتھ لے کر چلنے کا نعرہ بلند کرتی ہے۔ تاریخ کی بدترین شکست سے دوچار ہوتی ہے۔ جمہوری ووٹ ان لوگوں کی تائید کے لئے پڑتا ہے جو ان بچوں کو انگلستان چھوڑنے کا کہتے ہیں جن کی تین نسلوں کی قبریں برمنگھم اور بریڈ فورڈ کے قبرستانوں میں ہیں۔ نریندر مودی کے ہندوستان میں صرف وہ مسلمان اقلیت میدان میں آتی ہے جس پر ظلم روا رکھا جاتا ہے۔ جمہوری معاشرے کی اس سے زیادہ غلیظ اور بھیانک تصویر کیا ہو سکتی ہے کہ کشمیر میں ایک گیارہ سالہ بچی جنسی استحصال کا شکار ہو کر مر جاتی ہے اور دلی میں جنسی تشدد کرنے والوں کے حق میں جلوس نکلتے ہیں اور ان جلوسوں میں عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ اجتماعی نفسیات میں جو سفاکیت‘ ظلم‘ بربریت اور تعصب جمہوری سیاست گوندھ گوندھ کر بھر دیتی ہے ایسا تاریخ کے کسی دور میں بھی نہیں نظر آتا۔ جمہوریت ظلم اور تعصب پر اکثرت کے ووٹ سے تصدیق کی مہر کا دوسرا نام ہے۔ اقبال نے کہا تھا: تونے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر