ہر آن کہ تْخم ِبدی کِشت و چشم ِنیکی داشت دماغ ِبیہدہ پْخت و خیال ِباطل بَست بْرے کام سے اچھے نتیجے کی توقع، خام خیالی ہے۔ لیکن بھلے بْرے کی پروا ہے کِس کو؟ بھلائی اور بْرائی کے بجاے، دنیا فائدے اور نقصان کو دیکھتی ہے۔ محبت کے مقابلے میں نفرت اور خوف، بڑے نفع بخش کاروبار ہیں! جسے یقین نہ آئے، وہ ایک نظر، صدر ِامریکا پر ڈال لے۔ تازہ تحقیق کے مطابق، وہ اوسطا ہر روز دس، یعنی سات سو دنوں میں، سات ہزار کے قریب جھوٹ بول چکے ہیں۔ ان دروغ گوئیوں کا بڑا شکار، تارکین ِوطن ہوتے ہیں مگر پہلا نمبر مسلمانوں کا ہے۔ نفرت کی یہ فصل، جارج بْش جونیئر نے بوئی تھی۔ ٹرمپ کے دور میں البتہ، یہ پَک کر تیار ہوتی نظر آ رہی ہے۔ نیوزی لینڈ کا واقعہ، معمولی واقعہ نہیں ہے۔ انسان اور حیوان میں، بڑا فرق یہ ہے کہ حیوانوں کے افعال، بے شعوری کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ انسان سے حیوانی افعال، شعوری حالت میں سرزد ہوتے ہیں! چند سال قبل ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پٹرول کی قیمتوں میں، زیادہ نہیں صرف دو ڈھائی گْنا اضافہ ہو جائے تو امریکا میں بھی دنگے فساد شروع ہو جائیں گے۔ گویا ترقی اور تہذیب کا ظاہری سفر بھی، ذرا سی دیر میں ناقص ثابت ہو جائے گا! گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کی دہشت گردی نے، خوف کی جو فضا پیدا کی تھی، جارج ڈبلیو بْش نے اسے کَیش کرا لیا تھا۔ بْش کی نفرت انگیز پالیسیوں کے جواب میں اوباما فتح یاب ہوئے۔ اوباما کے رد ِعمل میں ٹرمپ کا انتخاب، آنے والے زمانے کا بھی پتا دیتا ہے۔ خدا نہ کرے، مگر صاف نظر آ رہا ہے کہ چَین دنیا کو اب نہ ہو گا نصیب اس سے بدتر زمانہ بھی ہے قریب وجہ اس کی وہی ہے، جس کا ذکر ان سطور میں پہلے بھی کئی بار ہو چکا ہے۔ مغربی ممالک کے رہنما، "عوامی رائے" کو مقدم رکھتے ہیں۔ حالانکہ ان کی اصل ذمہ داری، عوام کا بھی قبلہ درست کرنے کی ہے! آسٹریلوی دہشت گرد، امریکن صدر کا مداح ہے۔ کوئی بھی مہذب اور معقول انسان ایسے مداح سے، فوراً تبری اور بیزاری کا اظہار کر دیتا۔ ایسی مداحی کو، بلاشبہ کلنک کا ٹیکا کہنا چاہیے۔ مگر ٹرمپ؟ ایک حرف ان کی زبان سے اس بدبخت کی براہ ِراست مذمت کا نہیں نکلا۔ وجہ یہ ہے کہ جس اقلیتی انتہا پسند گروہ سے اس دہشتگرد کا تعلق ہے، امریکا میں ان کے ووٹ ٹرمپ کو درکار ہیں۔ یہ ہے وہ تہذیب اور ترقی، جس کی ستائش میں مشرقیوں کی زبانیں سْوکھی جاتی ہیں؟ مسلمانوں پر دْہرا ظلم ہو رہا ہے۔ وہ گمراہ، جو اسلام کے نام پر بے گناہوں کو قتل کرتے ہیں، ان کے بھی نوے فیصد سے زیادہ شکار، مسلمان ہوئے ہیں۔ مغربی انتہا پسندوں کا بھی نشانہ، عام مسلمان بن رہے ہیں۔ حکمرانوں کی بدولت، مسلمانوں کا معاملہ "صفر جمع صفر" سے بڑھ کر، اب "منفی جمع منفی" تک آ پہنچا ہے! تصویر ِیاس ہیں ہم، پوچھو نہ حال ِدنیا پہلے خبر تھی سب کی، اب سب سے بے خبر ہیں ٭٭٭٭٭ اْردو کی فریاد ! اْردو کی حالت یوں بھی پتلی ہے۔ اب اس کی جان پر مزید ظلم توڑنے کے لیے، ڈان کیہوٹے کے مانند اور ضمیر جعفری مرحوم کے فلمی ہیرو کی طرح، جو ع اکیلے ہاتھ سے دس بیس تلواریں چلاتا تھا اب ڈاکٹر عشرت حسین صاحب وارد ہوئے ہیں۔ دو اہم علمی اداروں اْردو لغت بورڈ اور اْردو سائنس بورڈ کی شہ رگیں، موصوف نے تقریبا کاٹنے کا بندوبست کرنا چاہا ہے۔ ان کی سفارش پر اگر عمل ہو گیا تو یہ دونوں علمی ادارے، ایک تیسرے ادارے، فروغ ِقومی زبان کے ماتحت کر دیے جائیں گے۔ موصوف ان دنوں ٹاسک فورس برائے سادگی اور ادارہ جاتی اصلاح کے سربراہ ہیں۔ احتساب اور حساب کتاب کی میزان، اگر ایسے "علم دوستوں" کے ہاتھ میں ہو تو پھر یہ شکایت عبث ہے کہ سائنس کے میدان میں ہم پَچھڑے ہوئے کیوں ہیں؟ اردو مْلک کی سرکاری زبان کیوں نہیں بنتی؟ جس اجلاس میں یہ اعلان کیا گیا، اس میں سائنس بورڈ کے ساتھ یہ خسروانہ مہربانی ضرور کی گئی کہ اس کے سربراہ کو بْلا کر، موقف سْن لیا گیا۔ لیکن اردو لغت بورڈ کے سربراہ عقیل عباس جعفری صاحب کو، اطلاع تک نہ دی گئی! جعفری صاحب کے کام اور ان کے وزن سے کون واقف نہیں؟ میری ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ فون پر گفتگو البتہ تین چار مرتبہ ہوئی ہے۔ لیکن اپنا شعار وہی ہے کہ بہ آن گروہ کہ از ساغر ِوفا مَستند سلام ِما برسانید، ہر کْجا ہَستند لغت بورڈ کی کارکردگی کو، جعفری صاحب کے دور میں گویا پَر لگ گئے ہیں۔ برسوں پرانے اور سست رفتاری کا شکار منصوبے بھی، تیزی سے مکمل ہو گئے اور ہو رہے ہیں۔ بائیس ضخیم جلدوں کی آن لائن منتقلی، ہر لفظ کے تلفظ کو آواز کی شکل میں پیش کرنا، میڈیا ہائوسز کے لیے "درست املا، صحیح تلفظ" کے عنوان سے ایک کتابچہ، کلام شعراء کی فرہنگیں وغیرہ، یہ سب کام صرف سال ڈیڑھ سال میں مکمل کیے گئے ہیں۔ اس سے پہلے، تن ِتنہا، انہوں نے پاکستان کی مکمل تاریخ کا، جو کرانیکل مرتب کیا تھا، وہ اتنا وزنی اور پائے دار کام ہے کہ ڈاکٹر عشرت حسین کے اسے دیکھ کر ہی ہوش اْڑ جائیں! لیکن ع بھینس کے آگے، بِین ہے کیا چیز؟ اور ع اے روشنی ِطبع، تو بر من بلا شدی اْردو کا نام سْنتے ہی، ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں میں خون اْتر آتا ہے۔ اجلاس میں فروغ ِقومی زبان کے سربراہ اور میرے بزرگ، افتخار عارف صاحب بھی موجود تھے۔ ہر چند کہ، خوش قسمتی یا بد قسمتی سے، افتخار عارف صاحب ان لوگوں میں ہرگز نہیں ہیں، جو "حرف ِحق بلند کر کے" دار پر چڑھ جاتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ اجلاس میں انہوں نے بھی، سائنس بورڈ کے سربراہ کی تائید میں، اس فیصلے کی مخالفت کی۔ خدا کرے کہ ڈاکٹر عشرت حسین کی تلوار کا رْخ اْردو کی طرف سے پھِر جائے اور اْن سفید ہاتھیوں کی طرف ہو جائے، جو خزانے پر واقعی بوجھ ہیں! سربراہ ِ ادارہ جاتی اصلاح کی اب تک کی کارکردگی دیکھ کر، لگتا ہے کہ ایک ادارہ، اب اس ادارے کی اصلاح کے لیے بھی بنانا پڑے گا!