10 ستمبر کو جب 92 نیوز کے پروگرام’’ نائٹ ایڈیشن ‘‘کی ریکارڈنگ کے لیے دفتر آ رہی تھی تو گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے میرے ذہن میں ایک ہی خیال بار بار آ رہا تھا کہ ابھی ابھی جو نیوز بلیٹن سنا اور تمام ٹی وی چینلز پر گزشتہ رات لاہور موٹر وے پہ رونما ہونے والے سانحے پر اپنے پروگرام میں کیا بات کروں اور پروگرام کا آغاز کن الفاظ میں کروں؟ کیونکہ بطور خاتون شاید میرے اندر فیمینیزم کی تحریک بھی ابھر رہی تھی۔میرے ذہن میں ایک ہی جملہ بار بار دستک دے رہا تھا کہ بنت ِ حواآج بھی غیر محفوظ کیوں ہے؟میرے ذہن میں سانحہ لاہور موٹر وے کے ساتھ کراچی کی مروہ کا واقعہ، قصور کی زینب کا واقعہ اور اسلام آباد کی فرشتہ کا واقعہ بھی تازہ ہو چکا تھا۔ ایسے واقعات بلاشبہ کسی بھی با شعور انسان کو نفسیاتی طور پر جنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ کہنے کو یوں تو عورت کی عزت اور آزادی کا دعوے دار ہے ، مگر سانحہ موٹر وے دنیا بھر میں مشہورریپسٹ کیپٹل دہلی میں ہوا کوئی واقعہ نہیں تھا۔ افسوس تو یہی ہے کہ یہ واقعہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا دل کہلانے والے شہرلاہور میں ہوا ۔ یہ افسوسناک خبر بریکنگ نیوز کے طور پر چل رہی تھی کہ لاہور کے علاقے گجر پورہ میں دو ڈاکوئوں نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریب کانشانہ بنایا جب اس کی گاڑی پٹرول ختم ہوجانے کے باعث رات گئے سٹرک پر بند ہو گئی تھی۔ ڈاکو ئوں نے خاتون پر تشدد کیا، جنسی زیادتی کانشانہ بنایا اور نقدی و زیوارت بھی لوٹ لیے تھے۔خاتون نے موٹروے ہیلپ لائن سے مدد کی درخواست کی تو جواب دیا گیا کہ گجر پورہ کی بیٹ ابھی کسی کو آلاٹ نہیں ہوئی ۔ سچ تو یہ ہے کہ موٹر وے گینگ ریپ کے واقعے نے پورے ملک کوہلا کر رکھ دیا اور دو ہفتے گزرنے کے باوجود تادم تحریر مرکزی ملزم عابد گرفتار نہیں ہو سکا۔واقعہ کیخلاف ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاج جاری ہے اور سول سوسائٹی کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ موٹر وے پر خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے ملزموں کو سر عام پھانسی دی جائے کیونکہ ماضی میں بھی اس طرح کے کئی واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جن میں خواتین بلکہ معصوم بچوں اور بچیوںکو درندہ صفت افراداپنی ہوس کا نشانہ بناچکے ہیں۔ ایک بیٹی کی ماں ہونے کے ناتے سانحہ لاہور موٹر وے کے ساتھ میرے ذہن میں 13 ستمبر کو جہلم میں رونما ہونے والا واقعہ بھی نقش ہو چکا،جس میں ایک علیحدہ کمرے میں بچوں کو قرآن پڑھانے والے مولوی صاحب نے دو بچوں کو جلدی چھٹی دے دی اور خود موصوف اپنی 6 سالہ کم سن طالبہ کے ساتھ نازیبا حرکات کر رہے تھے کہ گھر والوں نے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اور مولوی صاحب کی خوب درگت بنائی۔سوال یہ ہے کہ کیا اب اپنے بچوں کو قرآن پڑھانے والے با ریش مولانا صاحب سے بھی غیر محفوظ سمجھیں؟ایسے واقعات کا تسلسل اس کا بات کاثبوت ہے کہ خواتین اور معصوم بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کاناسور ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب حکومتی ایوانوں میں ایسی قبیح حرکات کے مرتکب ملزموں کو عبرت ناک سزائیں دینے پر بحث شروع ہو چکی ہے۔ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں موٹروے زیادتی کیس پر بحث کے دوران اپوزیشن اورحکومتی ارکان کے مابین خاصی گرما گرمی دیکھنے میں آئی۔ارکان ِ اسمبلی کی اکثریت نے موٹروے زیادتی کے مجرموں کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا جبکہ وزیر اعظم عمران خان کے ایک بیان ، جس میں انہوں نے جنسی زیادتی کرنے والے مجرموں کو سر عام پھانسی دینے اور کیمیکل کیسٹریشن کی سزا دینے کی بات کی تو ایک الگ بحث چل نکلی۔ اس بحث سے قطع نظر اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے تیزی سے بڑھتے ہوئے جنسی زیادتی کے واقعات کے بعد ایسے مجرموں کو عبرت ناک سزائیں دینے کے حوالے سے قانون سازی کا فیصلہ کر لیا ہے، اگرکیمیکل کیسٹریشن کی سزا دینے کا قانون بن جاتا ہے تو پاکستان ایسی سزا دینے والا چوتھا ملک ہو گاکیونکہ انڈونیشیا، یوکرائن اور چیک جمہوریہ پہلے ہی ایسے تین ممالک ہیں جہاں یہ سزا رائج ہے۔ دراصل بات سانحے کی نوعیت اور اس میں ملوث سفاک مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کی ہے۔ ملک بھر میں عوام ابھی تک شدید غم و غصہ میں ہیں۔ اچھا ہوا کہ سی سی پی او نے عدالتی اور سماجی دباؤ کے تحت غلطی کی معافی مانگ لی ،ورنہ شاید بات دْور تک جا نکلتی، تاہم ان کے بیان سے ایک تاثریہ بھی ابھرا کہ سیاسی جماعتیں پولیس اصلاحات کی بجائے آئی جیز کو تبدیل کر نے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ پولیس کی وردی تبدیل کرکے قوم کو پولیس کے رویے میں تبدیلی کی نوید سنائی جاتی ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ صرف چہرے تبدیل ہوتے نظر آتے ہیں، نظام تبدیل نہیں ہوتا۔ کہا جا رہا ہے کہ سانحہ لاہور کے مرکزی ملزم کی گرفتاری کے لئے پولیس سمیت تمام حکومتی مشینری اور حساس ادارے متحرک ہیں۔ بلاشبہ سانحہ لاہور موٹر وے، حکومت کے لیے ایک ٹیسٹ کیس بن چکا۔ ماضی قریب میں زینب کیس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا؛ اگر چہ ’’سپیڈی ٹرائل‘‘ کے ذریعے مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے مجرم کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ،تاہم ایسی سزا سرعام دی جائے اور مجرموں کو نشان عبرت بنا دیا جائے تو شاید جنسی جرائم کے مرتکب مجرموں پر کوئی خوف طاری ہواور وہ عبرت پکڑ سکیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حالیہ جنسی زیادتی کے کیسز کے سفاک مجرموں کو نشان عبرت بنا یا جائے تا کہ آئندہ کسی کو ایسی گھنائونی حرکت کی جرات نہ ہو ! اس کے باوجودیہ سوا ل اپنی جگہ نہایت اہم ہے کہ کیا ایسی سزاؤں سے جنسی جرائم ختم ہوجائیں گے ؟ اگر اس سز ا کا تعین ہو بھی گیا تو اخلاقی طورپر زوال پذیر معاشرے کا کیا ، کیا جائے گا ؟ کیونکہ سانحہ موٹر وے صرف ڈکیتی کی واردات کا نہیں بلکہ اس واردات کے دوران کم سن اور معصوم بچوں کے سامنے ماں سے زیادتی ہوئی ہے۔ اس واقعے سے ہمارے معاشرے کی ذہنی پسماندگی اور اخلاقی گراوٹ بھی نمایاں ہوئی ہے۔ اس دوران بنیادی سوال اپنی جگہ جوں کا توںموجود ہے کہ آخر یہ واقعہ پیش کیوں آیا ؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہمارا معاشرہ نفسیاتی طور پر اپاہج ہو چکا ہے؟ جواب ہے؛ جی ہاں، بالکل! کیونکہ اگر یہاں سزا کا خوف ہوتا یا زینب کیس کے مجرم کو سر عام پھانسی دینے کے بعد ایسے جرائم رک جاتے تو کہا جا سکتا تھا کہ معاشرے میں ابھی کچھ شعور باقی ہے، مگر ایسانہیں ہوا۔اس پر خودسوچئے کہ نفسیاتی طور پر یہ اپاہج معاشرہ اب کیسے ٹھیک ہو گا؟