مولا وزیر اعظم کو خوش رکھے، انہوں نے دکھی غریبوں کی فریاد سن لی اور اپنی معاشی ٹیم کو یہ حکم دیا کہ مہنگائی فوراً کم کر دی اور یہ اعلان کر کے تو انہوں نے عوام کے دل ہی جیت لیے کہ وہ مہنگائی کم کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے۔ اس سے پہلے وہ ایسا ہی اعلان کشمیر کے بارے میں کر کے کشمیریوں کے دل بھی جیت چکے ہیں۔ انہوں نے فرمایا تھا کشمیر آزاد کرانے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جائیں گے اور وہ گئے۔ بس کوالالمپور جاتے جاتے البتہ رہ گئے۔ بہر حال، وزیر اعظم کے اس حالیہ اعلان پر دکھی عوام کو مطمئن ہو جانا چاہئے اور اس اندیشے میں نہیں آنا چاہیے کہ اس اعلان کا انجام بھی دوائوں والے معاملے جیسا نہ ہو۔ دوائوں کی قیمتیں دگنی تگنی ہو گئیں۔ وزیر اعظم نے نوٹس لیا، قیمت گھٹانے کا حکم دیا اور قیمتیں چار گنا بڑھ گئیں ،لیکن کیا ضروری ہے کہ اب بھی وہی ہو۔ ویسے بھی حالیہ آٹے چین کی مہنگائی سے جن کا جتنا بھلا ہونا تھا، ہو گیا بلکہ کچھ بڑھ چڑھ کے ہو گیا۔ اپوزیشن کے مطابق 180ارب روپے کا ’’بھلا‘‘ہوا۔ خیر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ بھلے کو جس نام سے بھی پکارو، وہ رہے گا تو بھلے کا بھلا۔ کر بھلا، ہو بھلا۔ ٭٭٭٭٭ امید ہے کہ اب جب کہ 180ارب روپے کا بھلا حاصل ہو ہی چکا ہے تو قیمتیں مزید نہیں بڑھیں گی۔ کچھ کم ہی ہوں گی۔ شاید چینی دو روپے اور آٹا تین روپے کلو سستا ہو جائے۔ عوام کے ریلیف کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ وہ بھول جائیں گے کہ پچاس روپے کلو والی چینی 88روپے کی ہو گئی۔ اس کے بجائے وہ یہ یاد رکھیں گے کہ 88روپے والی چینی 86روپے کی ہو گئی۔ یہی بات آٹے اور دال کی بابت بھی ہو گی۔ ڈالر کا تجربہ یاد ہو گا۔ سو روپے کا ڈالر 160روپے کا ہو گیا۔ عوام کو یہ کہاں یاد رہا، عوام کو یہ یاد رہا کہ پھر160روپے والا ڈالر پورے چار روپے کم ہو کر 156کا ہو گیا یا پھر شاید 155کا۔ تب بھی کچھ لوگوں کا قابل قدر بھلا ہوا تھا، کر بھلا ہو بھلا۔ ٭٭٭٭٭ ریلیف کسی بھی شکل میں مل، خوشی ہوتی ہے۔ وہ کمہار یاد ہو گا جسے ریلیف ملا تھا اور اسے لگا تھا کہ دنیا جہاں کی خوشیاں مل گئیں۔ نہیں یاد؟ اچھا تو سنئے۔ اس نے دکھوں اور محرومیوں میں آنکھ کھولی اور ان دکھوں اور محرومیوں نے تمام عمر اس کا ساتھ نبھایا۔ اس کا واحد ’’ذریعہ کاروبار‘‘ اس کا گدھا تھا۔ سارا دن سامان ڈھونا، پھر کہیں شام کو جا کر روکھی سوکھی ملتی۔ ایک دن یہ گدھا کھو گیا۔ بہت ڈھونڈا، نہیں ملا۔ کمہار تو جیسے جیتے جی مر گیا۔ فاقے ہونے لگے۔ دنیا اندھیر ہو گئی۔ دو دن اسی طرح گزرے، تیسرے دن قدرت کو رحم آیا اور گدھا خود ہی واپس آ گیا۔ کمہار کو تو جیسے دنیا جہان کی خوشیاں مل گئیں۔ اسے کہتے ہیں ریلیف ملنا۔ بہرحال ہم کمہار جتنے خوش قسمت نہیں، اس لیے کہ ہمارا گدھا ثابت واپس نہیں آیا۔ 88روپے کی چینی واپس 50کی ہو جاتی تو تب کہتے گدھا واپس مل گیا۔ ہماری خوش قسمتی بس اتنی ہے کہ 88 کی چینی 85، 86کی ہو جائے گی۔ رہی بجلی تو اس کا آٹھ روپے والا یونٹ اب بائیس روپے ہی میں ملے گا، واپس آٹھ کا ہونا ممکن نہیں۔ ہاں بائیس کا چوبیس ہونے کا دھڑکا لگا ہے۔ یہاں ہماری خوش قسمتی اتنی ہی کافی رہے گی کہ یہ بائیس روپے ہی کا رہے، اس سے آگے نہ بڑھے اور ایسا ہی ماجرا گیس کا ہے اور دیگر چیزوں کا ہے۔ فی الحال تو آٹے دال کے بھائو میں دو تین روپے ریلیف کی توقع ہے، دیکھیے پوری ہوتی ہے یا دوائوں والا ایکشن ری پلے ہوتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ ریلیف دینے کا جو سنہری طریقہ پی ٹی آئی نے دریافت کیا ہے، اس کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔ ہر چیز کی قیمت بڑھا دو، کسی کی تیس روپے، کسی کی پچاس روپے، پھر ایک دو روپے کم کر کے دہائی مچا دو کہ دیکھا، ہم کتنے خدا ترس ہیں، کتنے رحم دل ہیں، پورے دو روپے کا ریلیف دے ڈالا۔ ٭٭٭٭٭ چند دن پہلے ایک بیان ایک بڑے سیاستدان نے بڑا ہی ناعاقبت اندیشانہ دیا، حکومت نے بجلی کے پنکھوں کو ’’لگژری آئٹم‘‘ قرار دے دیا یعنی اسے سامان تعیش میں شامل کر کے اس پر بھی ٹیکس بڑھا دیا۔ انہوں نے بیان دیا کہ لگے ہاتھوں حکومت دستی پنکھوں پر بھی ٹیکس لگا دے۔ دستی پنکھے یعنی وہ تنکوں کے بنے ہوئے پنکھ جو ہاتھ سے ہلا کر ہوا لی جاتی ہے۔ سیاستدان نے تو یہ بیان ازراہ طنز دیا لیکن انہیں خیال نہیں رہا کہ عمران خان کی نظر اس بیان پر پڑ جاتی تو وہ اسے مفید مطلب تجویز سمجھ کر عمل ہی کر ڈالتے یعنی اس پر بھی ٹیکس لگا دیتے۔ شکر ہے، ابھی تک یہ بیان ان کی نظر سے نہیں گزرا۔ ایسا ہی ناعاقبت اندیشانہ بیان سراج الحق نے بھی دیا، فرمایا، حکومت کہیں سانس لینے پر بھی ٹیکس نہ لگا دے۔ شکر ہے، عمران خان نے ابھی تک یہ بیان بھی نہیں پڑھا۔ ورنہ کچھ بعید نہیں کہ سانس کو بھی ’’لگژری آئٹم‘‘ قرار دے کر ٹیکس لگا دیں اور اوسطاً ایک آدمی ایک مہینے میں کتنی بار سانس لیتا ہے، اسی حساب سے بجلی کے بل میں آکسیجن پرائس ایڈجسٹمنٹ ٹیکس شامل کر دیں۔ ٭٭٭٭٭