مستقبل کا حال تو علیم و خبیر اللہ ہی جانتا ہے‘ فی الوقت کورونا کی وبا نے عمران خان کے راستے کے کانٹے چن دیے ہیں‘ اپوزیشن قرنطینہ میں ہے‘ پہلے وہ نیب سے خوفزدہ تھی اب کورونا کا ڈر ہے‘ حالت اس کی اونٹ کی سواری کے ڈرپوک شوقین کی ہے ؎ کہا‘ ہم اونٹ پر بیٹھیں‘ کہاں تم اونٹ پر بیٹھو کہا کوہان کا ڈر ہے‘ کہا کوہان تو ہو گا کہا‘ کابل کو جاناہے‘ کہا‘ کابل چلے جائو کہا افغان کا ڈر ہے‘ کہا افغان تو ہو گا کہا ہم پیار ہی کر لیں‘ کہاتم پیار بھی کر لو کہا‘ نقصان کا ڈر ہے‘ کہا نقصان تو ہو گا اقتدار کا شوق ہے مگر نیب سے خائف‘ حکومت گرانے کی خواہش مگر کورونا کا ڈر‘میاں شہباز شریف بقول شیخ رشید احمد حکومت اور مقتدر اداروں کے مابین اختلافات کی خلیج حائل ہو جانے اور قومی حکومت کے لئے سازگار حالات کی ناقابل اعتباراطلاعات پر وطن واپس آئے‘ مولانا فضل الرحمن کی اسلام آباد سے بے نیل و مرام واپسی کے بعد بعض سیاسی نجومیوں اور صحافتی جوتشیوں نے مسلسل یہ پروپیگنڈا کیا کہ مارچ نہیں تو اپریل میں عمران خان کی چھٹی یقینی ہے اور اقتدار پکے ہوئے پھل کی طرح اپوزیشن کی جھوسی میں گرنے والا ہے۔ غالباً میاں شہباز شریف بھی اسی غلطی فہمی کا شکار ہوئے اورنیب کو اپنے پیچھے لگا بیٹھے۔ یہی حال دوسری سیاسی جماعتوں اور شخصیات کا ہے۔ جائے ماندن نہ پائے رفتن کورونا اور نیب سے صرف مخالف سیاستدان ہی نہیں مختلف مافیاز بھی خوفزدہ ہیں‘ گزشتہ ڈیڑھ دو سال کے دوران ان مافیاز نے معیشت کا پہیہ جام کر کے عمران خان اور نیب کو بلیک میل کیا‘ کبھی آٹے کی قیمت بڑھا دی‘ کبھی چینی کا بحران پیدا کر دیا اور کبھی ڈالر کو پر لگا دیے۔ بلیک میل ہوتے ہوتے حکومت نیب قوانین کو بدلنے پر مجبور ہوئی‘کورونا نے مگر ان مافیاز کے کس بل بھی نکال دیے ہیں‘ چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے کے فارمولے پر عمل پیرا یہ مافیاز اب حکومت سے لاک ڈائون نرم کرنے کی اپیلیں کر رہے ہیں کہ دمڑی کما سکیں‘ عالمی تیل مارکیٹ دھڑام سے نیچے آ گری‘ خوشحال ممالک میں بے روزگاری کا عفریت معیشت کو نگلنے کے لئے بے تاب ہے اور گلوبل ورلڈ سکڑ کر چھوٹے چھوٹے جزیروں میں بدل گیا ہے انسان کو پہلی بار علم ہو رہا ہے کہ دس لاکھ کی گاڑی اور 1990ء ماڈل کی بس بھی اسی منزل پر پہنچاتی ہے جہاں دس کروڑ کی پرتعش کار‘تین چار سو روپے کی گھڑی بھی وہی وقت بتاتی ہے جو ہیروں اور شہاب ثاقب کے ٹکڑوں سے مزین پچاس کروڑ مالیت کی رسٹ واچ اور پیٹ کسی ڈھابے سے خریدی ہوئی پچاس ساٹھ روپے کی دال روٹی سے بھر جاتا ہے اس کے لئے فائیو سٹار ہوٹل میں پانچ ہزار روپے خرچ کرنا عیاشی و فضول خرچی کے سوا کچھ نہیں۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ حکومت نیب ایف آئی اے‘ اینٹی کرپشن اور دیگر اداروں کو مخالفین کی سرکوبی کے لئے استعمال کرتی ہے‘ یہ الزام اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ اگر حکومت اور اس کے ماتحت ریاستی ادارے چاہیں تو طاقتور اور بارسوخ شریف خاندان اور زرداری خاندان کے کس بل نکالنا مشکل نہیں‘ انہی اداروں کو اب ان مافیاز کے خلاف کامیابی سے استعمال کیا جا سکتا ہے جو گزشتہ پچاس ساٹھ سال سے قومی وسائل کی لوٹ مار میں مشغول ہیں اور کسی حکومت کو کام کرنے نہیں دیتے‘ ایک سابق سیکرٹری خوراک نے مجھے بتایا کہ پاکستان میں فلور ملز مافیا اتنا طاقتور ہے کہ کوئی وزیر‘ وزیر اعلیٰ اور سیکرٹری خوراک ان کی مرضی کے بغیر تین ماہ اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتا‘ ذخیرہ اندوزی‘ گراں فروشی اور سمگلنگ اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے‘ حکومت نے خصوصی آرڈی ننس کے ذریعے اس مافیا کی گردن مروڑنے کا بندوبست کیا ہے‘ خصوصی اختیارات حاصل کر لئے ہیں اپوزیشن کی طرف سے اس آرڈی ننس کے خلاف مخالفانہ صدا بلند نہیں ہوئی‘ اگلے چند روز میں قوم کے پیٹ اور مستقبل سے کھیلنے والے مافیا کے خلاف کارروائی کر کے حکومت دوسرے طاقتور گروہوں کو باور کرا سکتی ہے کہ وہ بھی باز نہ آئے تو ان کا انجام بُرا ہو گا۔ مہنگی بجلی نے ہماری صنعت و زراعت کا بیڑا غرق کیا‘ برآمدات کم ہوئیں اور صنعتی ادارے بند‘ صنعتی کارکن بے روزگار ہوتے چلے گئے‘ پاور سیکٹر کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ حکومت کو موصول ہو چکی‘ فرانزک کے لئے کمشن کی تشکیل کا فیصلہ ہوا مگر اسلام آباد میں یہ اطلاعات گشت کر رہی ہیں کہ بااثر بیورو کریٹس اور عمران خان کی کابینہ کے طاقتور وزیر اس کمشن کوگمراہ کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں اور جنہیں قومی خزانہ سنگدلی کے ساتھ لوٹنے کے جرم میں سزا ملنی چاہئیں ‘ان کے ساتھ دوستانہ مذاکرات کئے جا رہے ہیں حکومت چاہے تو موجودہ قومی اور بین الاقوامی صورت حال کا فائدہ اٹھا کر آئی پی پی مافیا کو بھی بجلی کے نئے نرخ مقرر کرنے اور صنعت و زراعت کے علاوہ گھریلو صارفین کو غیر معمولی مراعات دینے پر مجبور کر سکتی ہے کہ پاور سکینڈل منظر عام آنے کے بعد یہ مافیا بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں ہے نہ بین الاقوامی عدالت انصاف میں جانے کے قابل‘ چوری پکڑی گئی ہے ہزاروں ارب روپے کی چوری کے ثبوت لے کر حکومت عالمی عدالت انصاف میں گئی اور مقدمہ ٹھیک طرح سے لڑا تو یہ کمپنیاں کسی کو منہ دکھانے کے قابل رہیں گی نہ کاروبار کرنے کے‘ کورونا وبا نے پاکستان کے حکمرانوں کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کی پروا کئے بغیر اپنے عوام اور صنعتی شعبے کو آٹھ ارب ڈالر کا ریلیف دیں‘ قرضے کی ایک سال کی قسطیں موخر کرائیں اور عالمی مالیاتی اداروں سے مزید رقم لیں‘ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی امداد ہے جس سے فائدہ اٹھا کر عمران خان اگر چاہیں تو نیا پاکستان تشکیل دے سکتے ہیں‘ مزید تاخیر کئے بغیر سیاست‘ کاروبار اور بیورو کریسی میں موجود حرام خور طبقے کا سخت احتساب‘ نظام انصاف میں مثالی اصلاحات اور اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کی تطہیر‘25اپریل کے بعد آٹا اور چینی کا بحران پیدا کرنے والے طاقتور گروہوں کی سرکوبی ہوئی اور بے پناہ اعتماد کو نقصان پہنچانے والے ساتھیوں کو عبرت کا نشان بنا دیا تو بجلی پیدا کرنے والے اداروں سے سودی بازی آسان ہو گی اور عوام کے علاوہ تحریک انصاف کے کارکنوں کو حوصلہ ملے گا کہ کپتان نے اپنے ایجنڈے پر سمجھوتہ کیا نہ اقتدار کی پروا کی‘ میں نہیں سمجھتا کہ موجودہ بحران میں تحریک انصاف کے حلیف یا اقتدار کے کھیل میں اہم کردار ادا کرنے والے ادارے کسی عوام دشمن مافیا کی حمائت میں حکومت کی پشت پناہی سے دستکش ہو کر اپنا چہرہ داغ دار کر سکتے ہیں ‘عمران خان نے موجودہ بحران میں یہ ثابت کیا ہے کہ وہ معاشی مشکلات کی پروا کیے بغیر اس ملک کے بھوکے ننگے ‘ بے روزگار‘ ستم رسیدہ عوام کے مصائب کم کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ بارہ ہزار روپے فی خاندان امداد اور کاروباری سرگرمیوں میں نرمی سے یہ تاثر گہرا ہوا اور آٹا‘ چینی‘ بجلی کی چوری اور مہنگائی سے ملک و قوم کو کنگال و بدحال کرنے والے مافیا کے خلاف کارروائی سے اس کی عوام دوستی کے علاوہ جرأت مندی و دلیری کا نقش ثبت ہو گا ‘ایسے حکمران کے خلاف سازش صرف وہی کر سکتا ہے جسے عوامی مزاج کا اندازہ ہے نہ قومی مفاد سے سروکار‘ عمران خان کے حلیفوں اور ریاستی مفادات کے نگہبان اداروںمیں سے کون یہ الزام اپنے سر لے سکتا ہے۔ قدرت نے عمران خان کو ایک بال سے کئی وکٹیں گرانے کا سنہری موقع فراہم کر دیا‘ فائدہ اٹھانا نہ اٹھانا‘ اس کی مرضی‘ عقل و دانش‘ قوت فیصلہ اور سیاسی بصیرت کی آزمائش‘ مستقبل کا حال اللہ تعالیٰ جانتا ہے‘ کورونا کی وبا عمران خان کی حکمرانی اور سیاست کو سازگار ہے۔