سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کراچی کے دو تین روزہ طوفانی دورے پر گئے۔ وہ اپنی خطابت کا جادو جگانے‘ اپنی گلو کاری سے اہل کراچی کے دل موہ لینے‘ اپنی جادوگری کا سکہ جمانے شہر قائد کے بے حال باسیوں کو سبز باغ دکھانے اور ان کی آنکھوں میں رنگا رنگ خواب آویزاں کرنے گئے تھے۔ یہاں پنجاب و اسلام آباد میں تو بالعموم بڑی بے ضرر قسم کی طے شدہ فرینڈلی ’’پریس کانفرنسیں‘‘ ہوتی ہیں جن میں میاں نواز شریف تو محض اپنا بیان یکطرفہ پڑھنے پر اکتفا کرتے ہیں اور کسی سوال کا کوئی جواب نہیں دیتے جبکہ میاں شہباز شریف سے ایسی پریس کانفرنس میں دو چار فرینڈلی سے سوالات پوچھنے کی رسم پوری کی جاتی ہے۔ مگر کراچی کے اخبار نویسوں کو ایم کیو ایم کے غضبناک جبر سے نئی نئی آزادی ملی ہے جس کا وہ خوب خوب استعمال کر رہے ہیں انہوں نے پانی‘ ٹرانسپورٹ اور کچرے کی صفائی وغیرہ پر میاں شہباز شریف سے تابڑ توڑ سوالات پوچھے جن کا میاں صاحب کے پاس کوئی کافی و شافی جواب نہ تھا۔ اردو ادب کے ایک ممتاز نقاد نے مزاح کے بارے میں بڑی پتے کی بات کہی تھی کہ اچھا مزاح لکھنا یا بولنا استعمال کرنا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہوتا ہے۔ جہاں ذرا سی کوتاہی آپ کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ شہباز شریف نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم ’’پان کھانے والے بہن بھائیوں کے کرانچی‘‘ کو ایک ماڈرن کراچی بنا دیں گے‘‘ اہل کراچی نے اس طنزیہ جملے کو بہت محسوس کیا اور ان کے تبصرے کے چند ہی منٹوں کے بعد پی ٹی آئی کراچی کے رہنما علی زیدی ایک پان شاپ پر گئے اور وہاں انہوں نے ایک پان لگوایا اور میڈیا کے سامنے گلوری کو اپنے منہ میں رکھا اور کراچی کی تہذیب پر فخریہ جملے کہے اور میاں شہباز شریف کے طنز کانشانہ تنقید بنایا۔ میاں شہباز شریف نے کراچی کے تین اہم ترین مسائل حل کرنے کے لیے اسی طرح تاریخیں دے دیں جیسے انہوں نے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی تاریخیں دی تھیں۔ میاں صاحب نے پانی کے مسئلے کو دو سال میں‘ بجلی کے مسئلے کو برسر اقتدار آتے ہی اورکچرے کے مسئلے کو چھ ماہ میں حل کرنے کی نوید سنائی۔ اہل کراچی کو ان سے پوچھنا چاہیے کہ حضور والا! پنجاب کے لوگوں کو صاف پانی فراہم کرنے کے لیے آپ نے جو کمپنیاں بنائی تھیں وہ تو آپ کی قیادت میں اس وقت نیب میں پیشیاں بھگت رہی ہیں آپ لاہور اور پنجاب کے باقی علاقوں کو تو اپنے دعوئوں اور زر کثیر صرف کرنے کے باوجود صاف پانی کی ایک بوند تک فراہم نہیں کر سکے۔ ہمیں آپ صاف پانی کیسے مہیا کریں گے؟ میاں شہباز شریف کے لیے نیب نے صاف پانی سکینڈل میں گھپلوں کے بارے میں 25سوالات تیار کر رکھے ہیں۔ صاف پانی کمپنی سکینڈل میں سابق سی ای او وسیم اجمل اور چودھری نثار کے مدمقابل آنے والے( ن) لیگ کے امیدوار قمر الاسلام کا چودہ روزہ ریمانڈ احتساب عدالت کے جج نے مزید تحقیق و تفتیش کے لیے دے دیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ نے کہا ہے کہ میاں شہباز شریف اندرون سندھ کا دورہ کریں تو انہیں معلوم ہو گا کہ وہاں کے دیہی علاقوں میںانیس انیس اور بیس بیس گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی میاں شہباز شریف پر شدید تنقید کی۔ کراچی کی بدلی ہوئی صورت حال سے قومی سطح کے تین رہنمائوں عمران خان‘ بلاول بھٹو اور شہباز شریف کا کراچی سے الیکشن میں حصہ لینا ایک خوش آئند اقدام ہے۔ کراچی ہو یا لاہور پنجاب کے اضلاع ہوں یا اندرون سندھ‘ ہمارے مسائل تقریباً یکساں ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ ہمارے سیاست دان جب حکمران بنتے ہیں تو ان کی سب سے پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ کس طرح سے مال بنانا ہے‘ کس طرح سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔ کچھ نہیں کرنا مگر میڈیا کے ذریعے اپنے رائی برابر کام کو کوہ ہمالیہ بن کر دکھانا ہے اسی دوران اگر کہیں کوئی امانت دار‘ دیانت دار‘ نیک نیت‘ فرض شناس اور معاملہ فہم حکمران یا منتظم آ جاتا ہے تو بگڑے ہوئے معاملات بڑی حد تک سنور جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان نے کراچی کو بہت اچھے میئر دیے جنہوں نے کراچی کو ایک عالمی سطح کا کاسمو پولٹن بنا دیا تھا۔ جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی پہلے 1979ء میں اور پھر 1983ء میں میئر کراچی منتخب ہوئے انہوں نے کراچی کارپوریشن کو کرپشن سے پاک کیا اور خدمت عوام کو اپنا شیوہ بنا لیا۔ اسی طرح جب 2001ء میں نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ ناظم کراچی منتخب ہوئے تو ان کے بارے میں کچھ کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں نے ابتدا میں یہ تنقید کی کہ اتنے بڑے شہر کی ڈویلپمنٹ جوانوں کا کام ہے بوڑھوں کا نہیں۔ مگر جب نعمت اللہ خان نے رات دن محنت شاقہ سے کام لے کر جوانوں کو پیچھے چھوڑ دیا تو ہر کوئی خان صاحب کی شاندار کارکردگی اور کراچی کے کئی دیرینہ مسائل کے حل کے لیے شاندار منصوبوں کی تکمیل دیکھ کر عش عش کر اٹھا۔ اسی زمانے میں ایک عالمی ادارے نے دنیا کے بہترین میئرز کی ایک فہرست مرتب کی جس میں نعمت اللہ خان کا نام پہلے دو چار میئرز میں شامل تھا۔ اگرچہ ان کے بعد آنے والے میئر مصطفی کمال نے بھی کراچی کے لیے کچھ کام تو کروائے مگر ان کے نام لگنے یا اپنے نام لگا لینے والے ان کے اکثر منصوبوں کا اصل سہرا نعمت اللہ خان کے سر بندھتا ہے کیونکہ جب 2005ء میں خان صاحب دوبارہ میئر کراچی منتخب نہیں ہوئے اس وقت تک فلائی اوورز صاف پانی اور دوسرے کئی منصوبے تکمیل کے آخری مراحل تک پہنچ چکے تھے۔ جب مصطفی کمال 2005ء میں میئر منتخب ہو گئے تو انہیں بنے بنائے منصوبے مل گئے جنہیں انہوں نے اور ان کی پارٹی ایم کیو ایم نے اپنے نام لگا لیا حالانکہ یہ کھلی کھلی بددیانتی تھی۔ پنجاب کی ترقی کا جو چرچا ہے وہ زیادہ تر میڈیا پر اشتہار بازی کا کرشمہ اور خادم اعلیٰ کے اپنے منہ میاں مٹھو بننے کا ’’کارنامہ‘‘ ہے۔ وگرنہ لاہور کے علاوہ پنجاب کے اضلاع‘ پنجاب کی تحصیلوں اور پنجاب کے قصبوں اور دیہاتوں کا حال اندرون سندھ سے زیادہ مختلف نہیں۔ ہم نے بچشم خود سرگودھا شہر میں ’’کچرا کنڈی‘‘ کے وہی مناظر دیکھے ہیں جو کراچی میں نظر آتے ہیں۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے سرگودھا شہر سے ملحق دیہاتوں میں بے درو دیوار سکولوں کو دیکھا ہے ۔جہاں بچے گرمیوں میں درختوں کی چھائوں اور سردیوں کی دھوپ میں کھلے آسمان تلے بیٹھنے پر مجبور ہیں ‘جہاں بجلی اور ٹائلٹس وغیرہ کی کوئی سہولت نہیں ہوتی۔ خورشید شاہ صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ پنجاب کے اکثر شہروں میں آٹھ آٹھ گھنٹے جبکہ دیہاتوں میں بارہ سے چودہ گھنٹے تک لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ لاہور کی بھی زیادہ تر ترقی کاسمیٹک نوعیت کی ہے وگرنہ برسات کی پہلی بارش کے ساتھ ہی بجلی کے فیڈر ٹرپ کر جاتے ہیں اور گھنٹوں بجلی کی سپلائی معطل رہتی ہے اور بہت سی سڑکیں پانی سے بھر جاتی ہیں۔ اسی لاہور کے ہسپتالوں کی حالت زار کا اندازہ لگائیے کہ ایک ایک بیڈ پر دو دو تین تین مریض لٹائے جاتے ہیں جبکہ ہسپتال میں داخلہ نہ ملنے والے مریض باہر فٹ پاتھوں پر پڑے ہوتے ہیں۔ 2018ء کے انتخابات کے موقع پر ایک بہت اچھی بات دیکھنے میں آ رہی ہے کہ بڑے بڑے نامور امیدوار جب ووٹ مانگنے اپنے حلقوں میں جاتے ہیں تو ووٹر ان کی گاڑیوں کو گھیر لیتے ہیں اور ان سے پوچھتے ہیں کہ گزشتہ پانچ برس آپ کہاں تھے۔ اس بار آپ کو نہیں نئے نیک نام نمائندوں کو ووٹ دیں گے۔ بہرحال میاں شہباز شریف کی کراچی سے انتخابی مہم کا آغاز اچھا نہیں ہوا۔ وہ نمازیں بخشوانے اور ووٹ مانگنے گئے تھے مگر الٹا روزے اور تنقید کے نشتر ان کے گلے پڑ گئے اور اہل کراچی پر ان کا کوئی جادو نہیں چلا اور وہاں کے لوگ شہباز شریف کے طنز کو نشانہ تنقید بنا رہے ہیں اور ان سے معافی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔