وزیر اطلاعات شبلی فراز کے بقول ملک کے کلی معاملات قرضے پر چل رہے ہیں۔ عوام کا بازو مروڑ کر اکٹھے کیے گئے وسائل ان قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی میں لٹ جاتے ہیں۔ مطلب، حکومتی اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی قرض لینا پڑتا ہے۔ حکومت ہر سال اس کرب سے گزرتی ہے۔ زراعت، جو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، بمشکل عوام کا پیٹ پال پاتی ہے، اس صوبائی شعبے کو بھی وفاق سے سبسڈی کی ضرورت رہتی ہے۔قرضوں کا بوجھ مجموعی قومی آمدنی کے اٹھانوے فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ بیرونی قرضہ ایک مرض تو ہے ہی، قومی المیہ بھی بن چکا ہے کہ ملکی خود مختاری اور وقار داؤ پر لگا ہوا ہے ۔ٹیکس بڑھانے اور سبسڈی کم کرنے کا آئی ایم ایف کا مطالبہ تو رہتا ہی ہے، اب دوست ممالک ہماری خارجہ پالیسی کو بھی اپنی مرضی کی سمت میں لے جانا چاہتے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں جن کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور ہے، بیرونی قرضوں کے معاملے پر مگر خاموش ہیں۔ جمہوریت کے لیے قربانیوں کی بات ہورہی ہے اور اقتدار پر دعوے داغے جارہے ہیں لیکن معیشت کے سدھارکی حکمت عملی کہیں نظر نہیں آرہی۔ سمجھ نہیں آتی کہ جمہوریت کو معاشی کم مائیگی سے بڑا خطرہ کیا ہوسکتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں انفرادی طور پر کوئی منصوبہ بندی نہیں کرسکتیں، پارلیمان تو موجود ہے ، مل بیٹھ کر بات تو ہوسکتی ہے۔ انا پرستی اور ضد سے تو ملک کے معاملات نہیں چلتے۔ اقتدار کی ہوس میں سیاسی پارٹیاں ہر حد پار کرنے کو تیار ہیں لیکن اس اقتدار کو جن بیساکھیوں پر کھڑا ہونا ہے، اس حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ یوں دیکھا جائے تو ساری سیاسی جد وجہد کا ایک ہی نتیجہ نظر آتا ہے کہ پارٹی اقتدار میں آکر قرضوں کے معاہدوں اور ان سے منسلک شرائط پر دستخط کرسکے۔ ممبران پارلیمنٹ کی تنخواہوں، کمیشن اور مراعات کے علاوہ طبقاتی مفادات کا دفاع وہ چند فوائد ہیں جنکے لیے یہ سارا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ عوام کی تفریح کے لیے جگت بازی کا عنصر موجود ہوتا ہے۔ ظلم کی داستانیں رقم کی جاتی ہیں تاکہ قربانی کا بیانیہ دلپذیر بنایا جاسکے۔ صدیوں سے قائم معاشرتی اونچ نیچ کی موجودگی اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی موجودگی میں پارٹیاں بنانا ، انتخابی مہم چلانا ، ووٹ خریدنا یا لوگوں کو پولنگ بوتھ تک ہانک کر ووٹ لینا بڑی بات نہیں ہے۔ یوں عوام اقدار کے اس کھیل کا سرے سے حصہ ہی نہیں۔ سیلاب، زلزلے اور وباؤں کی صورت میں بیرونی امداد مل گئی تو ٹھیک ورنہ عوام بھگتیں، کیا ہو سکتا ہے۔ یوں جمہوریت ایک سراب ہے جسکے پیچھے عوام بھاگ رہی ہے اور تھک جاتی ہے تو آمریت گھیر لیتی ہے۔ وقفہ ختم ہوتا ہے تو خوابوں کے سوداگر پہنچ جاتے ہیں۔ بالادست طبقات اور انکی بندی افسر شاہی کے اس کھیل کی حیثیت اب جوئے سے زیادہ نہیں رہی۔ قرضے پر قرضے کا معاملہ اب زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ امریکہ، جس نے یہ کھیل رچایا تھا، وہ پیچھے ہٹ گیا ہے۔ دیار عرب سے اب دعائیں ہی مل جائیں تو غنیمت ہے۔ اقتدار ایسی کانٹوں کی سیج بن گیا ہے جس پر کوئی چڑھنے کو تیار نہیں۔ روایتی سیاسی مہرے پٹ چکے ہیں۔ پچھلی تین دہائیوں میں وقت تھا کہ پیش بندی کر لی جاتی۔ جمہوریت احتساب، کفایت شعاری، دولت اور اختیارات کی عدم ارتکاز سے مضبوط کی جاسکتی تھی۔ وہ موقع مگر گنوا دیا گیا ہے۔ اب اشرافیہ جو سیاست کر رہی وہ صرف اور صرف اپنے مفادات کو بچانے کی خاطر کر رہی ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ رسی جل گئی پر بل نہ گیا، نئے عمرانی معاہدے کی بجائے نئے میثاق جمہوریت کی تیاری پکڑ رہی ہے۔ اصلاحات کی بجائے اپنی طبقہ جاتی کامیابیوں کو محفوظ کر نیکی کوشش کی جارہی ہے۔ یعنی جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ اس نظام کے فوائد ا شرافیہ تک ہی محدود رہیں، اختیارات اور وسائل لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور سے نکل کر نیچے شہروں اور قصبوں تک منتقل نہ ہوپائیں، چار قومیتوں کے وفاق میں نئی اکائیوں کا اضافہ نہ ہو، انتخابی اصلا حات نہ ہوں تاکہ عوام فیصلہ سازی میں شامل نہ ہوسکیں۔ افسر شاہی، وسائل اور اختیار اشرافیہ کی مٹھی میں ہو، لیکن احتساب کا دروازہ بند کردیا جائے۔ مان لیا کہ پیدائشی حکمران اپنا حق کسی کو نہیں دینا چاہتے تو پھر یہ بھی ذرا بتا دیں کہ اس سول آمریت کو آپ چلائیں گے کیسے ؟ محصولات کا نظام کیا ہوگا؟ انسانی وقار کا تحفظ کیسے ہوگا؟عدل کے معاملا ت کیسے انجام پائیں گے؟ بھوک اور بیماری کے خلاف دیوار کیسے کھڑی ہوگی؟ بھوک ، بیماری اور لاقانونیت کے شکار ملک میں کوئی سرمایہ کاری کیوں کرے گا؟ سبز انقلاب کا بھانڈا کب کا پھوٹ چکا، دریا ؤں کے پچانوے فیصد پانی اور سندھ طاس کے بہترین میدانوں کو زرعی استعمال میں لا کر بھی ملک کی غذائی ضروریات پوری نہیں ہوسکتیں تو لوگوں کی قوت خرید کیسے بڑھے گی اور قرضے کیسے ادا ہونگے؟ کھیل بگڑ گیا ہے تو نجات کی صورت ڈھونڈھنا ہوگی۔ معافی سے بھی کام نہیں چلنے والا ، توبہ کرنا پڑے گی۔ ہوس، لالچ اور جبر جیسی خصلتوں کو ترک کرنا ہوگا۔ جمہوریت کی بقا کے لیے ایک نئے سماجی معاہدے کا اعلان کرنا ہوگا، وباؤں اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے عوام کو منظم کرنا ہوگا۔ لوگوں کی فطری آزادیوں کو بحال کرکے انہیں اقتدار میں شرکت کی دعوت دینا ہوگی۔ نیا عمرانی معاہدہ لازمی طور پر شہریوں کے حقوق کی بلا تفریق رنگ، نسل، زبان، حفاظت کی ضمانت دے گا، وسائل کی تمام خطوں اور علاقوں میں منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے گا۔ مساوات اور برابری قومیت کے تصور کو اجاگر کرے گی۔ اس تاثر سے نکلنا ہوگا کہ عام انتخابات ملکی یا عوامی مسائل کا حل ہیں۔ آئینی تقاضوں کے مطابق تشکیل دی گئی مقامی حکومتیں اور صوبائی فنانس کمیشنز کی تشکیل کے حوالے سے فوری اقدامات البتہ نجات کا راستہ ضرور ہیں۔