ملک میں سیاسی اتحادقائم ہوا تو لوگوں کو نوابزادہ نصراللہ خان کی یاددوبارہ آنے لگی جنہوں نے ملٹی پارٹی اتحادسے بڑھ کرتمام پارٹیوں کا اتحاد قائم کرنے کاتاریخی ریکارڈقائم کیا۔1998ء میں پاکستان عوامی اتحاد اورپھرGDAبنایاتواس میں موجودہ وزیراعظم عمران خان سمیت اکبربگٹی ، اسفند یار ولی اورایم کیوایم کوشامل کرلیا۔ 2000ء میںARDبنائی تودوانتہائی متحارب پارٹیوں یعنی پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ کواکٹھا کر دیا۔ نوابزادہ نصراللہ خان کاہمیشہ ایک ہی مقصد ہوتا تھااوروہ اس پریقین بھی رکھتے تھے کہ پاکستان صرف اورصرف جمہوریت کومضبوط کرکے ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔20ستمبر2020ء کو اسلام آباد میںپاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(PDM) کے نام سے اتحادبناتواس میں گیارہ سیاسی پارٹیاں شامل ہوئیں۔نوابزادہ زندہ ہوتے توتمام پارٹیاں ایک طرف جبکہ حکومت دوسری طرف تنہائی کاشکارہوتی۔بدقسمتی سے اتحادبننے کی خبریں چل ہی رہی تھیں کہ ملاقاتیں لیک ہوناشروع ہو گئیں۔ یہ ملاقاتیں ہوناچاہئے تھیں یانہیں یہ ایک بحث ہے لیکن مذاکرات کادروازہ کبھی بند نہیںہوناچاہئے یہی جمہوریت کاحسن ہے۔ آج 26ستمبرکوہم نوابزادہ نصراللہ خان کی برسی منارہے ہیںتوملک کی سیاسی پارٹیاں حکومت سے جنگ کررہی ہیں۔ حکومت کاتمام زوراحتساب پرہے وزیراعظم عمران خان نےUNOکے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ انکی حکومت کوکرپشن کے خاتمے کامینڈیٹ ملاہے ۔نوابزادہ ایک ایسی شخصیت تھے جن پرکوئی کرپشن کاالزام نہیں لگا سکتا تھا انہوں نے سیاست اپنی جائیدادفروخت کرکے کی۔ نواب زادہ صاحب نصراللہ خاں 1918ء میںخان گڑھ میںپیدا ہوئے ۔ ایچی سن کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی ۔ وہ 1933ء تک ایک طالب علم رہنما کے طور پر معروف ہو چکے تھے ۔ انہوں نے مجلس احرار کے پلیٹ فارم سے بر صغیر کی آزادی کیلئے جدوجہدو کی ۔ وہ اس عظیم الشان اور تاریخی اجتماع میں موجود تھے جنہوں نے23مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور پاس کی ۔ آزادی کے بعد وہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے 1952ء میں صوبائی اور 1962ء میںقومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ۔ پھر انہوں نے جناح عوامی لیگ میں شمولیت اختیار کی جو بعد میں عوامی لیگ کہلائی جب حسین شہید سہروردی اس کے صدر تھے تو وہ اس کے نائب صدر رہے ۔ انہوں نے 1964ء میں صدارتی انتخابات میںایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی بھر پور حمایت کی ۔ انہوں نے ایوبی آمریت کے خلاف اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو متحد کرنے کا بیڑہ اٹھایا ۔ اس طرح ڈیمو کریٹک ایکشن کمیٹی وجود میں آئی جس نے ایوب خاں کی حکومت کے خلاف عوامی جدوجہد کی راہ ہموار کی ۔ اس اتحاد کی کامیابی مستقبل کی ہر جمہوری جدوجہد کیلئے مشعل راہ بنی ۔ انہوں نے 1969ء میںپاکستان جمہوری پارٹی کے نام سے اپنی الگ سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ نواب زادہ صاحب 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کے اہم ترین رہنمائوں میں سے ایک تھے ۔ 1977ء کے الیکشن میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے لیکن پارٹی پالیسی کے مطابق حلف لینے سے انکار کر دیا وہ قومی اتحاد کی طرف سے لئے الیکشن کیلئے پیپلز پارٹی کے ساتھ مذاکرات کرنے والی ٹیم کے رکن تھے۔ لیکن جب مذاکرات کا میاب ہو گئے تو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا جس کی انہوں نے بھر پور مخالفت کی ۔ 1988ء کے صدارتی انتخاب میں انہوں نے غلام اسحاق خان کا مقابلہ کیا ۔ 1993ء کے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت میں انہیں کشمیر کمیٹی کا چیرٔمین بنا یا گیا اور ان کے بیٹے کو صوبہ پنجاب میں وزیر بنایا گیا ۔ مسٔلہ کشمیر کواجاگر کرنے کیلئے انہوں نے بہت سے ملکوں کے دورے کئے اور ان کی کوشش کے نتیجے میں اسلامی ملکوں کی تنظیم کے سربراہی اجلا س منعقد کاسا بلانکا میں ایک متفقہ قرارداد میں کشمیر کے مسٔلے کو اقوام متحدہ کی قرار دووں کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ انکی کوششوں کی بدولت برطانیہ کی لیبر پارٹی نے مسٔلہ کشمیر کے حل کو اپنے منشور کا حصہ بنا لیا ۔ نواب زادہ صاحب نے ستر سالوں پر پھیلی سیاسی زندگی میں آمریت کے خلاف کئی اتحاد بنائے۔ و ہ کہا کرتے تھے کہ کسی ایک پارٹی کیلئے ممکن نہیں کہ فوجی آمریت کا مقابلہ کر سکے ۔ اس مقصد کے لئے نہ صرف تمام سیاسی جماعتوں بلکہ تمام دیگر جمہوری قوتوں اور مختلف طبقات فکر کے لوگوں کو اکھٹا ہو کر مقابلہ کرنا ہو گا ۔جب ان سے کہا جاتا کہ اتنے بلند اور اعلیٰ مقاصد کیلئے وہ تانگہ پارٹیوں کو غیر ضروری اہمیت دیتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ جمہوری جدوجہد کی مثال ایسے ہی ہے جیسے اگر آپ ایک مکان بنانا چاہتے ہیں تو اس کیلئے اینٹ ، گارا ، سیمنٹ ،لوہا ، روڑا اور بجری کی بھی ضرورت ہو تی ہے ۔نواب زادہ صاحب نہ ایک بڑے سیاستدان تھے بلکہ ایک بڑے انسان بھی تھے وہ اپنی سادگی ،حلیمی اور خلوص سے سب کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے آج بھی نکلسن روڈ کے اس چھوٹے اور سادہ سے مکان کا بڑا کمرہ جس میں ان کی زندگی کے شب و روز گزارتے تھے بہت سے لوگوں کو یاد آ رہا ہوگا۔ گو نواب زادہ صاحب ایک نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن انھوں نے ہمیشہ انقلابی سیاست کی وہ جمہوریت کے ساتھ ساتھ عوام کی بات کرتے تھے انہو ں نے ضیائی امریت قید کے دوران اپنے انقلابی ہونے کا اس طرح اظہار کیا ۔ کتنے بیدرد ہیں صر صر کو صبا کہتے ہیں کیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیاء کہتے ہیں آج جب ہم ایک انقلابی اور جمہوری سیاستدان کی برسی منا رہے ہیں تو ہمیں عہد کرنا چاہئے کہ ملک میں صحیح معنوںمیںجمہوریت ہونی چاہئے ۔پارلیمنٹ کوتمام فیصلے کرنے چاہئیں۔ عدلیہ ہرقسم کے دبائوسے آزادہو۔میڈیاپرکوئی پابندی نہ ہواورتمام ادارے اپنی اپنی حدودمیں رہ کر اپنے آئینی فرائض انجام دے رہے ہوں۔ نوابزادہ نصراللہ خان کاایک اورسبق بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مذاکرات کے دروازے کبھی بندنہیں کرنے چاہئیں۔ وزیراعظم عمران خان سمیت تمام قائدین کویہ سبق نہیں بھولناچاہئے۔مذاکرات دشمن ملکوں کے ساتھ ہوسکتے ہیںتوپھراپنے لوگوں کے ساتھ کیوں نہیں؟مرحوام نوابزادہ نے ایوب خان، بھٹو، جنرل ضیائ، جنرل پرویزمشرف سمیت سب سے مذاکرات کئے تاکہ جمہوریت بحال ہو۔آج کایہ سبق ہے۔