جس طرح ہر حکمران کا ایک عہد حکومت ہے‘ اسی طرح ہر اپوزیشن لیڈر کا عہد مخالفت بھی ہونا چاہیے۔ لیکن ایسا نہیں ہے شاید اس لئے کہ ہر اپوزیشن لیڈر صرف عہد حکومت کا متمنی ہوتا ہے۔ جو وقت وہ اپوزیشن میں گزارتا ہے اس کے نزدیک وہ عہد فرقت ہوتا ہے جو لیلائے اقتدار کی یاد میں آہیں بھرنے میں گزرتا ہے۔ وہ اس ظرف، وژن اور خلوص سے عاری ہوتا ہے جو ایک اچھے اپوزیشن لیڈر کے لئے ضروری ہے۔ ہمارے ہاں اپوزیشن کا مطلب ہے موجودہ حکومت کو ختم کر کے خود اقتدار میں آنا۔ چنانچہ اپوزیشن لیڈروں کے اس نوع کے بیانات اکثر نظر سے گزرتے ہیں۔حکومت کا جانا ٹھہر گیا۔ صبح گئی کہ شام گئی‘گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو‘ حکومت آکسیجن ٹینٹ میں زندگی کی آخری سانسیں لے رہی ہے(ہم کوشش کر رہے ہیں کہ آکسیجن کے بجائے امونیا گیس کا سلنڈر رکھوا دیا جائے) حکومت کو نہلانے دھلانے اور کفن پہنانے والے لوگ پہنچنے ہی والے ہیں۔ وغیرہ۔ نواب زادہ نصراللہ خان وہ واحد اپوزیشن لیڈر تھے جنہوں نے اپوزیشن کو ایک مشن اور انسٹی ٹیوشن بنا دیا۔ ان کا یہ کارنامہ ہماری تاریخ کا سنہری باب ہے اور شاید یہی ایک باب ہے جو سنہری کہلانے کا مستحق ہے۔ نواب زادہ صاحب کا تعلق مظفر گڑھ سے تھا۔ آج کل کے لیڈروں کے برعکس وہ مطالعے کے بے حد شوقین تھے اور اعلیٰ ادبی ذوق رکھتے تھے۔ بڑے عمدہ شاعر تھے۔ غزل کی روایتی زبان میں عصر حاضر کا شعور شامل کر کے بڑے مؤثر شعر کہتے تھے۔ ان کی کاوشوں کے نتیجے میں جوں جوں حکومت کے گرنے کے دن قریب آتے تھے۔ ان کا قلم تقویت پکڑتا جاتا تھا۔ یہ اشعار جلتی پر تیل کا کام کرتے اور اپوزیشن کی گاڑی رفتارپکڑتی جاتی۔حبیب جالب کی شاعری ایک باغی کی شاعری تھی۔ جو وقتی طور پردلوں کو گرما دیتی تھی اور شاعر کو جیل میں پہنچا دیتی تھی۔نواب زدہ گو کہ جزوقتی شاعر تھے لیکن ان کی شاعری ایک مدبر اور عملی جدوجہد کرنے والے رہنما کی شاعری تھی۔ نواب زادہ صاحب ایک مختصر سی سیاسی پارٹی پاکستان جمہوری پارٹی کے صدر تھے یا غالباً چیئرمین۔ انہوں نے خود کبھی نہیں بتایا تھا کہ وہ صدر ہیں یا چیئرمین۔ اس پارٹی کو تانگہ پارٹی کہا جاتا تھا۔ بعض حضرات کے خیال میں ان کی پارٹی کو تانگہ پارٹی کہنا درست نہیں تھا اس لئے کہ تانگے میں ان کی ساری پارٹی آ جانے کے بعد بھی جگہ بچ رہتی تھی۔ زیادہ مناسب ہوتا اگر اسے سائیکل پارٹی کہا جاتا اور سائیکل بھی وہ جس کا کیرئر نہیں ہوتا۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہ پڑتا کیونکہ خود نواب زادہ صاحب کا کیرئر اتنا شاندار تھا کہ اس پر ہزاروں سائیکلوں کے کیرئر قربان کئے جا سکتے تھے۔ ویسے بھی کسی ایک پارٹی کا لیڈر ہونا ان کے شایان شان نہیں تھا۔ ان کے چاہنے والے لاکھوں تھے اور ہر پارٹی میں تھے۔ انہوں نے اپنے چاہنے والوں کو تمام سیاسی پارٹیوں میں بانٹ رکھا تھا۔ وہ پوری قوم کے لیڈر تھے یوں کہیے کہ وہ لیڈروں کے لیڈر تھے۔ ان کی ظاہری پہچان تھی پھندنے والی ترکی ٹوپی اور حقہ۔ بعض لوگ انہیں پیار سے نوابزادہ حقہ بھی کہا کرتے تھے۔ نوابزادہ اور حقے کا چولی دامن کا ساتھ تھا۔ چولی دامن سے الگ ہوسکتی ہے مگر نوابزادہ اور حقہ لازم و ملزوم تھے۔ تانگہ ہو یا کار بس ہو یا ٹرین نوابزادہ صاحب سے پہلے ان کا حقہ اندر داخل ہوتا تھا۔ایک بار پی آئی اے والوں نے یہ کہہ کر ان کے حقے کی میزبانی سے انکار کر دیا کہ حقے کی چلم میں پائی جانے والی آگ سے پورے جہاز کو آگ لگ سکتی ہے۔ ویسے بھی ہینڈ کیری میں اس قسم کی چیزوں کی اجازت نہیں ہے۔ نوابزادہ صاحب نے یہ سنا تو اپنا ٹکٹ ایک مستحق ضرورت مند کے ہاتھ بیچ کر واپس چلے آئے۔ان کے ذاتی ملازم نے ایک بار بتایا کہ نارمل حالات میں وہ اپنے حقے میں ایک معتدل اور شریفانہ قسم کا تمباکو استعمال کرتے تھے۔ لیکن جب حکومت وقت کے خلاف تحریک شروع کرنے کا موڈ طاری ہوتا تو پلنگ کے نیچے سے ایک پوٹلی نکالتے۔ اس پر جمی گرد کو جھاڑ کر پوٹلی ملازم کے حوالے کر کے فرماتے:جب تک موجودہ حکومت کا خاتمہ نہیں ہو جاتا ‘ چلم میں یہ تمباکو استعمال کیا جائے۔ ملازم کا کہنا تھا کہ اس تمباکو کو پینے سے نواب صاحب کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک آ جاتی تھی اور پھر کبھی تو وہ کاپی پر تیز تیز لکھنے لگتے اور کبھی فون پر فون کرنے لگتے۔ حکومت وقت کو گرانا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو گرانا ایک دو سیاسی پارٹیوں کے بس کی بات نہیں۔ چنانچہ وہ باقاعدہ تحریک شروع کرنے سے پہلے بہت سی سیاسی پارٹیوں کا اتحاد بناتے تھے۔ ان میں مختلف پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دینے کی خداداد صلاحیت تھی۔پارٹی بائیں بازو کی ہو یا دائیں بازو کی۔ پرو پاکستان ہو یا اینٹی پاکستان‘ تانگہ پارٹی ہو یا ٹرین پارٹی مذہبی پارٹی ہو یا لا مذہبی، ڈھاکے کی ہو یا بنگالے کی۔ قوم پرست ہو یا عیش پرست خدا پرست، ہو یا بت پرست۔ بس پارٹی ہونا شرط تھا۔ وہ پارٹی کے صف اول کے رہنمائوں سے ملتے اور انہیں اتحاد میں شامل ہونے پر رضا مند کر لیتے۔ سمجھدار رہنمائوں کو قائل کرنا ان کیلئے چنداں مشکل نہ ہوتا۔ لیکن ان کا کمال یہ تھا کہ خالی از عقل رہنمائوں کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیتے تھے حالانکہ بے وقوفوں کو قائل کرنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے نکلسن روڈ پران کی کرائے کی کوٹھی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن جاتی۔ ایک آ رہا ہے دوسرا جا رہا ہے۔ ان کا ملازم صبح ہی صبح چائے کا ڈرم تیار کر لیتا اور پھر رات گئے تک چائے کا دور چلتا۔ اس سارے عمل میں ان کا حقہ بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا۔ جب نوابزادہ صاحب کو کوئی مشکل پیش آتی تو وہ حقے کا لمبا کش لیتے۔ حقہ اپنی گڑ گڑ کی زبان میں ان کی مشکل حل کر دیتا۔ حاضرین حقے کی دانش پر حیران رہ جاتے اور پھر ایک سہانی صبح تحریک بحالی جمہوریت لانچ کر دی جاتی۔ نوابزادہ صاحب اس تحریک کے سرخیل ہوتے۔جلسے ہوتے، جلوس نکلتے، آنسو گیس چھوڑی جاتی‘ دفعہ 144لگتی جسے 145بار توڑا جاتا۔ لاٹھی چارج ہوتا گرفتاریاں ہوتیں اور جیلیں بھری جانے لگتیں ‘ تقریروں اور تحریروں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا۔ اگر کبھی تحریک اور حکومت میں مذاکرات کا مرحلہ آ جاتا تو تھوڑی دیر کے لئے طوفان تھم جاتا۔ مذاکرات کی ناکامی پر تحریک کاکارواں، پھر جادہ پیما ہو جاتا اور پھر ایک روز حکومت بدل جاتی۔ نوابزادہ صاحب نکلسن روڈ والی کوٹھی میں سکون سے بیٹھ کر مطالعہ اور رومانوی شاعری شروع کر دیتے۔ اکا دکا آنے جانے والوں سے مل لیتے اور پھر ایک دن ان کا دماغ گھوم جاتا۔ وہ یہ سوچنے لگتے کہ نئی حکومت کو جو انہی کی کوششوں سے بنی تھی۔ کیسے گرایا جائے۔ اگر کوئی ان سے ہمت کر کے پوچھ ہی لیتا کہ صاحب یہ کیا حرکت ہے؟ تو جواب ملتا بھائی میں اپوزیشن لیڈر ہوں۔ میرے منصب کا تقاضا ہے کہ حکومت جیسی بھی ہو اس کی بھر پور مخالفت کی جائے۔ ان کے اس رویے کو دیکھ کر ہمیں خیال آتا تھا کہ اگر کسی روز خدانخواستہ نواب صاحب کی اپنی حکومت بن گئی یعنی وہ خود وزیر اعظم بن گئے تو چند دنوں بعد اپنے خلاف ہی بیانات جاری فرمانا شروع کر دیں گے جو کچھ اس قسم کے ہوں گے‘ عوام ہر نئی حکومت سے قسم قسم کی امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں اور بعد میں مایوس ہوتے ہیں۔ اگر وہ مایوسی سے بچنا چاہتے ہیں تو میری حکومت سے کسی خیر کی توقع نہ رکھیں۔ ہم نے اقتدار یہ سوچ کر سنبھالا تھا کہ عوام کی خدمت کریں گے لیکن اقتدار میں آ کر پتا چلا کہ موجودہ نظام میں صرف ایک ہی کام ممکن ہے اور وہ ہے لوٹ مار۔چنانچہ میں نے اپنے آدھے لوگ نئے نظام کی تشکیل پر اور آدھے لوگ لوٹ مار پر لگا دیے ہیں۔ میں حکومت چھوڑنا چاہتا ہوں لیکن میرے ساتھی مجھے ایسا کرنے نہیں دے رہے۔ لہٰذا عوام ہمارے خلاف فیصلہ کن جدوجہد لئے تیار ہو جائیں۔