جرمن ماہر نفسیات الزبتھ کوبلر راس نے کہا تھا کہ ہر انسان غم کے دوران پانچ مراحل انکار‘ غصہ‘ سودے بازی‘ افسردگی اور قبولیت سے گزرتا ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ پر غور کریں تو اس پر الزبتھ کی تھیوری صادق نظر آتی ہے۔قیام پاکستان سے پہلے سیاست اور اقتدار کی باگ ڈور سیاستدانوں کے ہاتھ میں تھی۔ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد نومولود ریاست پاکستان میں اقتدار کی رسہ کشی نے سیاستدانوں کو بیوروکریسی کو اقتدار میں سانجھے دار بنانے پر مجبور کیا۔پاکستان کا المیہ تو یہ بھی رہا کہ اقتدار کے اس کھیل میں سیاستدان ہی خود کو مہرے کے طور پر پیش کرتے آئے ہیں ۔1958ء میں ذوالفقار علی بھٹو سکندر مرزا سے جنرل ایوب خان کے لاڈلے ہوئے اور وزارت خوراک و زراعت، تجارت سے وزارت خارجہ کا سفر طے کرتے ہوئے شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ اقتدار کی بھول بھلیوں میں جب ذوالفقار علی بھٹو کو راستے سمجھ آنے شروع ہوئے تو انہوں نے اعلان تاشقند کے بعد کلمہ’’ حق بلند‘‘ کر دیا اس طرح سکندر مرزا اور ایوب کا سدھایا ہوا گھوڑا منہ زور ہوگیا۔پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے ملکی معاملات میں سیاسی بالادستی کی کوشش شروع کی تو تاریخ نے 1977ء میں خود کو ایک بار پھر دہرایا اور اقتدار کی رسہ کشی میں پاکستان کی سیاسی اشرافیہ نے اپنا کندھا پیش کر دیا ۔بھٹو الزبتھ کے مطابق انکار اور غصہ کے مراحل سے گزرتے ہوئے سودے بازی کے مرحلے پر مزاحم ہوئے اور تخت کے بجائے تختہ پر جھول گئے۔ اقتدار کی اس جنگ میں بھٹو تو قربان ہو گئے مگر کندھا دینے والے ہاتھ ملتے رہ گئے۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنی اننگز پاکستان کی سیاسی صف میں دوسری رو میں کھڑے سیاستدانوں کے ساتھ شروع کرنے کے ساتھ اپنی نرسری میں نئی سیاسی پود تیار کرنے کا فیصلہ کیاتو ان کی نظر انتخاب بھٹو کے اقتدار میں صنعتوں کو نیشنلائزز کئے جانے کے بعد بھٹو سے بغض رکھنے والی پر شریف فیملی پر پڑی۔ غلام جیلانی نے نواز شریف کو جب پنجاب کا وزیر خزانہ بنایا تو بقول نصرت جاوید کے’’ انہوں نے اپنے ایک خدمتگار بریگیڈیئر قیوم کو ہدایت کی کہ وہ نواز شریف کی اپنی نگرانی میں سیاسی تربیت کریں‘‘۔ یہ سیاسی تربیت کا ہی اثر تھا کہ جب محمد خان جونیجو نے اقتدار کے ساتھ اختیار کا مطالبہ کیا تو نواز شریف نے اپنا وزن ضیاء الحق کے پلڑے میں ڈال دیا۔ بدلے میںنواز شریف ضیاء الحق کے ساتھ اقتدار کے شراکت دار بنے اور بھٹو کو پھانسی کے پھندہ تک دھکیلنے والی تمام جماعتیں بھٹو کی پارٹی کے ساتھ مل کر جمہوریت کی بحالی کی جنگ لڑنے لگیں۔قیام پاکستان کے بعد کی سیاسی قیادت میں شاید بے نظیر بھٹو واحد سیاستدان تھیں جن کی سیاسی تربیت سیاسی ماحول میں ان کے والد نے کی تھی۔ بے نظیر 1986ء میں جب پہلی بار لاہور ایئر پورٹ اتریں تو ان کا تاریخی استقبال ہوا۔ جنرل الیکشن میں بے نظیر کامیاب تو ہوئیں مگر ان کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان کو بھی اقتدار کے حصول کے لئے وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ پر سمجھوتہ کرنا پڑا تھا۔ بینظیر بھی سیاسی سودے بازی کے باوجود اپنی مدت پوری نہ کر سکیں تو افسردگی کا مرحلہ آیا پھر قبولیت کا۔ اس مرحلہ وار ارتقا میں نواز شریف اور بے نظیر ایک دوسرے کو گھر بجھوانے کے لئے دست تعاون پیش کرتے رہے اور صورتحال مومن خان مومن کے اس شعر سے مختلف نہ تھی: اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا سودے بازی کے اس کھیل میں سر کے بل جانا بھی کام نہ آیا اور جنرل مشرف نے ایک بار پھر اقتدار کے انتظار میں کھڑے دوسری اور تیسری قطار کے سیاستدانوں کے ذریعے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا پتہ ہی صاف کر دیا ۔اس بار بینظیر نے میاں نواز شریف کے راستے کے کانٹے چننے اور 2008ء کے بعد باریوں کے لئے میثاق پر عملدرآمد شروع ہوا۔ اس ملی بھگت کے توڑ کے لئے عمران خان کی صورت میں اقتدار کا تیسرا دعویدار پیدا کیا گیا اور 2018 ء میںاقتدار کا ہما عمران خان کے سر پر جا بیٹھا۔ تحریک انصاف تین سال تک ایک پیج کی سیاست کرتی رہی یہ ایک پیج بھی شاید چوروں لٹیروں کا کڑا احتساب ہی تھا۔ عمران خان کے ا عصاب پر چور لٹیرے اس قدر چھائے رہے کہ پیج وا لے روس اور چین کے بجائے کتاب کے امریکہ والے صفحہ پر پہنچ گئے تو عمران خان کے ساتھ بھی انہونی ہوگئی ۔ انہونی اس لئے کہ اس بارعمران خان کے خلاف کندھا مہیا کرنے والی سیاسی قیادت دوسری اور تیسری سیاسی صف سے نہیں بلکہ پہلی قطار میں سیاسی مصالحت کی امامت کرنے والے آصف زرداری تھے۔ عمران خان کے خلاف ایسی مصلحت ہوئی کہ شاعر بھی چیخ اٹھا: مصلحت کی بنا پر لوگ سلیم چاٹ لیتے ہیں تھوک جیسی چیز مسلم لیگ ن نے عمران خان کو کرسی سے اتار پھینکنے کے لئے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ چاٹ لیا ۔عمران خان چوروں لٹیروں کو این آر او دینے سے انکار اور اقتدار سے محرومی کے بعد اسلام آباد دھرنے کی کوشش میں کوبلر کے مطابق غصے کے دوسرے مرحلے سے گزرے ۔ آج کل سودے بازی کی منازل طے کر رہے ہیں۔ سودے بازی کا تو اصول ہی ایک ہے جو زیادہ دام لگائے مال اس کا ہوتا ہے۔ اس سودے بازی میں کرسی کی قیمت جو بھی ادا کرے ایک بات تو طے ہے کہ عمران خان بھی بہت جلد کوبلر راس کی قبولیت کی آخری منزل پر پڑائوکرنے والے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب اقتدار کی کتاب میں سیاست دان بھلے ہی ایک پیج پر نہ ہوں لیکن تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تونواز ،زرداری اور خاں ایک ہی پیج آچکے اور اگر عالمی حالات کا تقاضا ہوا تو ممکن ہے نواز شریف، آصف علی زرداری اور فضل الرحمن کے ہاتھوں میں عمران خان کا بھی ہاتھ ہو اور سب مل کر بحالی جمہوریت کی تحریک میں ایک ہی ٹرک پر کھڑے دکھائی دیں۔