دو تین دن پہلے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا بیان اور ٹی وی چینل پر گفتگو نظر سے گزری۔ یہ بات وہ پہلے بھی کئی بار کہہ چکے ہیں یعنی لب شاہد پہ مکرر در مکرر صدا والی بات ہے۔ بار بار کہی گئی اس بات کو اس کہانی کا عنوان کہا جا سکتا ہے جو ستر سال سے اس ملک میں ڈرامے کی صورت چل رہی ہے۔ عباسی صاحب نے فرمایا‘بار بار چیلنج کر چکا ہوں‘ہماری پانچ سالہ حکومت کے دور کا ایک بھی سکینڈل سامنے لائیں اور ثابت کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت کا تو ہر روز ایک سکینڈل باہر آ رہا ہے۔ وزیر اعظم جب کہتے ہیں کہ وہ کسی مافیا کو برداشت نہیں کریں گے تو دراصل ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ کرپٹ عناصر کے گٹھ جوڑ کو برداشت نہیں کریں گے۔ ٭٭٭٭٭ شاہد خاقان عباسی نے اپنے دور حکومت (پانچ سالہ لیگی دور حکومت) میں کرپشن کا کوئی بھی سکینڈل نہ ہونے کا جو چیلنج دیا ہے‘ وہ اس لحاظ سے بے معنی ہے کہ کرپشن کا تو کوئی جھگڑا کبھی تھا نہ ہے نہ ہو گا۔ نواز شریف اگر کرپٹ ہوتے تو آج بھی وزیر اعظم ہوتے یعنی چوتھی بار حکمرانی کر رہے ہوتے۔ ماضی کے کسی بھی دور بلکہ سارے ادوار کے کل حاصل جمع سے کئی گنا زیادہ کرپشن ان کے دور میں ہونے کے شواہد سامنے آ چکے ہیں۔ ہر روز ایک میگا سکینڈل سامنے آ رہا ہے اور ’’منظوری‘‘ کا سرا رائے ونڈ محل کی جانب گیا ہے۔ جی حضور ثابت ہو چکا کہ کرپشن تو ایک ہزار ہزار فیصد منظور خاطر ہے۔ نواز شریف کے زیر عتاب آنے کی وجہ کچھ اور بھی تھی۔ ایک نہیں۔ کئی وجوہات۔ نواز شریف خود بھی ارب پتی بنے اور ان کے والد مرحوم بھی۔ ماجرا یہ ہوا کہ مستقل حکمران اشرافیہ نے انہیں تولا اور وہ وزن میں کم نکلے۔تو بھائی اصل کہانی یہ ہے۔ ٭٭٭٭٭ شیر چیتے مجبور ہیں کہ ہرن پر ترس نہ کھائیں‘ اسے دبوچ لیں اور گردن توڑ کر کھا جائیں۔ اگر وہ رحم دل ہو جائیں گے تو بھوکوں مر جائیں گے۔اشرافیہ کا برا ہونا اس کی مجبوری ہے۔ کوئی اشرافیہ اگر ظالم نہ ہو‘ تو اس کی برہمنیت باقی ہی کہاں رہے گی‘ وہ تو ’’عام آدمی‘‘ بن جائے گی۔ اس کی دولت سکڑ جائے گی‘ اس کا رعب اور دہشت ختم ہو جائے گی۔ یہ دنیا بھر کی اشرافیہ کی کہانی ہے‘پاکستانی اشرافیہ باقی دنیا سے سوا دو سوا ہے۔ وہ کچھ اور ہی اصولوں کی قائل ہے۔ یہ کہ دولت اور فیصلہ سازی پر عوام کا کوئی حق نہیں وہ سپارٹا کے غلام‘ امریکہ اور برازیل کے نیگرو ہیں‘ ان کا کام‘ محض کام کرنا ہے۔ وہ شَکر ہیں اور اشرافیہ شَکر خور۔ ٭٭٭٭٭ اشرافیہ کے اصول سب سے پہلے ایوب خاں نے واضح کئے تمام دولت محدود تعداد کے گھرانوں کے لئے مختص کر دی اور عوام کو ان کی جمع پونجی سے محروم کرنے کے لئے طرح طرح کے مافیا ملک پر مسلط کر دیے۔ ایوب خاں نے دوسرا اصول یہ واضح کیا کہ عوام اس قابل نہیں کہ انہیں ووٹ کا حق دیا جائے چنانچہ بنیادی جمہوریت نافذ کی۔ ایک لاکھ سے کچھ اوپر بی ڈی ممبر صدر کا انتخاب کرتے تھے اور حکومت صدر سے شروع ہو کر صدر پر ہی ختم ہو جاتی تھی۔ یحییٰ خاں اسی دور ایوبی کا ضمیمہ تھا۔ ان کے بعد ضیاء الحق آئے۔ وہ خود مبینہ طور پر ایماندار تھے لیکن ایوبی اصول انہوں نے خوب آگے بڑھائے۔ان کے ساتھی جنہیں وہ رفقائے کار کہا کرتے تھے‘ لمبی کمائیاں کرنے میں آزاد تھے۔ افغان جنگ میں رفقائے کار نے لوٹ مار اور چوری کی نئی داستانیں رقم کیں۔ مہنگا ترین امریکی اسلحہ چوری کر کے غیر ممالک کو بیچ ڈالا اور راتوں رات کھرب پتی بن گئے۔ جنرل ضیاء ریلوے کی تباہی کے بانی تھے۔مقصد یہ تھا کہ عوام سستی ٹرانسپورٹ سے محروم ہو کر مہنگی ٹرانسپورٹ مافیا کے محتاج ہو جائیں۔ سٹیل ملز کی تباہی کے لئے ماسٹر پلان بھی انہی کے دور میں بنا جسے مشرف نے مکمل کیا۔مشرف کے دور میں غریب کو اور غریب کرو کا منصوبہ سبک رفتاری سے آگے بڑھا۔ مڈل کلاس تقریباً ختم ہو گئی۔ زرداری آئے تو زراعت میں جان پڑی‘ ان کے بعد نواز شریف نے مڈل کلاس کو بحال کیا اور ترقیاتی منصوبوں سے غربت کی شرح کم کی۔یعنی ایوب ضیا اور مشرف کی محنت رول بیک ہونے لگی یعنی انہیں تولا گیا‘ وہ کم نکلے اور آخر راندہ درگاہ بنا دیئے گئے۔ آرتھرکوئسلر نے لکھا تھا‘ سلسلہ اتفاقات عقل کو چکرا کر رکھ دیتا ہے۔ چنانچہ سلسلہ اتفاقات شروع ہوا اور قوم کا سر گھما کر رکھ دیا۔ اتفاق سے پانامہ سکینڈل دریافت ہوا‘ اتفاق سے اس میں کچھ بھی نہیں تھا لیکن پھر اتفاق سے اقامہ نکل آیا‘اتفاق سے لیگی امیدوار دھڑا دھڑجماعت سے الگ ہو گئے۔ کئی لیگی امیدوار دستبردار ہونے لگے۔ نواز شریف کے خلاف احتساب کیسوں کے اندر سے بہت کچھ نکلا اور ثابت ہوا لیکن اتفاق سے انہیں دو کیسوں میں سزا سنا دی گئی‘ مریم نواز کسی سرکاری منصب پر تھیں نہ رکن اسمبلی لیکن اتفاق سے وہ بھی سرکاری اجلاسوں میں شرکت کرتی تھیں۔ 25جولائی کی شب جس کا بنیادی مقصد عوام کو ہر محرومیوں اور کرپٹ عناصر سے بچانا تھا۔ اب اتفاق سے ایوب، یحییٰ، ضیائ، مشرف کا شاندار مشن نہ صرف بحال ہو گیا ہے بلکہ برق رفتاری سے (سپیڈ کی روشنی کی رفتار سے) منزلیں مار رہا ہے۔ منزل سے مراد منزل ہی ہے‘ عوام نہیں۔ ہر طرح کی ’’ایمانداری‘‘ کے ڈنکے بج رہے ہیں۔