نہیں!یہ مسئلہ کرپشن کا نہیں! طرز حکومت کا ہے! ایسا طرزِ حکومت جو میرٹ پر نہیں‘ دوست نوازی پر مشتمل ہے! نواز شریف کا طرزِ حکومت جمہوری نہیں‘ قبائلی تھا۔ چلیے ‘ قبائلی کی اصطلاح کُھردری ہے تو شخصی کہہ لیجیے! افسوس! یہی راستہ عمران خان بھی چُن چکے ہیں ایک راستے پر چلنے والے دو مختلف افراد کا انجام ایک دوسرے سے مختلف کیسے ہو سکتاہے؟ چند سال پہلے ایک دلچسپ خبر پڑھی۔ ترکی میںایک چرواہا بھیڑیں چرا رہا تھا۔ایک بھیڑ‘ اونچی چٹان سے‘نیچے گہری کھائی میں جاگری۔ درجنوں بھیڑوں نے اس کی پیروی کی! نواز شریف نے اپنے پسندیدہ افراد کو مناصب عطا کئے۔ ادارے زوال کی کھائی میں گر گئے‘ افسوس !افسوس! ہیہات !ہیہات! عمران خان بھی یہی کچھ کر رہے ہیں! انسان کے اعضا و جوارح اس کے خلاف قیامت کے دن گواہی دیں گے مگر ایک نظر نہ آنے والا حشر‘ قیامت سے پہلے دنیا میں بھی برپا ہوتا ہے۔ نواز شریف کے اپنے مداح‘ جو انہیں مزاحمت کی علامت قرار دیتے ہیں‘ جو انہیں بطلِ جلیل ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں‘ وہ خود(غالباً نادانستہ) گواہی دے رہے ہیں کہ نواز شریف نے میرٹ کو قتل کیا۔ ایک معروف کالم نگار دُہائی دیتے ہیں۔ ’’شکایت تو نون لیگ سے ہے کہ سینیٹرز کی وہ فوج ظفر موج کہاں ہے جو بے نامی سے نکلے اور نواز شریف کی ایک جنبش ابرو سے قانون ساز ادارے تک جا پہنچے‘‘ جنبش ابرو کی ترکیب پر غور کیجیے۔ ایک حکومت کو شخصی قرار دینا ہو اور یہ کہنا ہو کہ سب کچھ فرد واحد کی مرضی و منشا سے ہوتا ہے تو جنبش ابرو سے بہتر پیرایہ اظہار کیا ہو گا! پھر آگے چل کر کالم نگار اس پر مزید ماتم کرتے ہیں۔ ’’انہوں نے سینیٹ کے ٹکٹ بھی کسی میرٹ پر نہیں دیے اس کا انہیں نقصان ہوا آج ان سینیٹرز میں دو تین کے سوا کوئی ان کے بیانیے کے ساتھ نہیں کھڑا ہوا‘‘ ذاتی وفاداری کا تقاضا یہی ہے کہ صرف اس نقصان کا ذکر کیا جائے جو نواز شریف کو اس میرٹ کشی سے ہوا ۔ مگر ذرا وسیع تناظر میں دیکھیے تو اندازہ لگانا مشکل نہ ہو گاکہ قوم کو کتنا نقصان ہوا! اداروں کو کتنا نقصان ہوا اور ملک کا جمہوری سفر کتنے فرسنگ‘ کتنے کوس ‘واپس جا پہنچا۔ نواز شریف نے قوم کے بلند ترین مقدس اداروں کے منہ کس طرح اپنے دوستوں کے لئے کھول دیے۔ اس کی ایک گواہی آپ نے دیکھ لی۔ اب ایک اور گواہی ملاحظہ کیجیے یہ ایک اور معروف کالم نگار ہیں جو تسلسل سے شریف حکومت کے حق میں لکھتے آئے ہیں۔ عمران خان کے خلاف انہوں نے تسلسل سے جم کر لکھا ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ مخالفت میں لکھے گئے کچھ کالم درست تجزیے پر مشتمل ہیں۔ یہ لکھتے ہیں۔ ’’کیپٹن شاہین بٹ لاہوریے تھے یہ میاں برادران بالخصوص میاں شہباز شریف کے دوست تھے۔2002ء میں کیپٹن شاہین بٹ نے میاں شہباز شریف اور بریگیڈیئر نیاز کا آپس میں رابطہ کرایا۔ شہباز شریف کینسر کے مریض بن چکے تھے۔ …یہ نیو یارک میں شاہین بٹ کے مہمان رہے۔ میاں نواز شریف نے مارچ 2018ء میں شاہین بٹ کو سینیٹر بنا دیا یہ اس وقت سینٹ آف پاکستان کے ممبر ہیں۔‘‘ اس سے بڑھ کر اور کیا گواہی درکار ہو گی؟ہم جیسے طالب علم میاں صاحب کے عہد ہمایونی میں یہی تو چیختے رہے۔ پکارتے رہے کہ برادری اور دوستی کے حوالے سے مناصب نہ بانٹیے۔ کسی نے کسی سے ملوایا تو منصب دے دیا۔ کسی نے چند دن کے لئے میزبانی کی تو اسے سینٹ کارکن بنا دیا۔پولیس افسر نے وفاداری نبھائی تو اسے سینیٹر بنا دیا۔ ضلعی انتظامیہ کے افسر کو نوازنا ہوا تو بین الاقوامی تجارتی ادارے میں سفیر لگا دیا۔ میاں صاحب مذہبی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں کئی تصویریں وائرل ہو رہی ہیں جن میں وہ حرم پاک میں بیٹھے تلاوت کر رہے ہیں۔ سنا ہے ان کے صاحبزداگان بھی دلکش لحن میں تلاوت کرتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں جس کلام پاک کا یہ خاندان فین ہے اس میں میرٹ کے بارے میں کیا حکم ہے۔ سورہ نسا کی آیت 58میں ارشاد ہے۔ ’’اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو پہنچائو۔‘‘ اس آیت کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع‘ اپنی تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں ’’حکومت کے عہدے اور منصب جتنے ہیں وہ سب اللہ کی امانتیں ہیں‘‘ آگے چل کر لکھتے ہیں ’’ایک حدیث میں رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپرد کی گئی پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی و تعلق کی مد میں بغیر اہلیت معلوم کئے ہوئے دے دیا اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ نہ اس کا فرض مقبول ہے نہ نفل۔ یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہو جائے(جمع الفوائد 325)اس لئے آنحضرتؐ نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا’’جب دیکھو کہ کاموں کی ذمہ داری ایسے لوگوں کے سپرد کر دی گئی جو اس کام کے اہل اور قابل نہیں تو قیامت کا انتظار کرو۔ یہ ہدایت صحیح بخاری کتاب العلم میں ہے(معارف القرآن جلد دوم اشاعت اکتوبر 1983ء صفحہ 447۔ حکومتی مناصب میں خیانت کے اثرات اس قدر دوررس ہوتے ہیں کہ ان کا شمار ان کااحاطہ‘ ان کا تعین‘ شاید کوئی خدائی کمپیوٹر حشر کے دن ہی کر سکے۔ کیا عجب ذوالفقار علی بھٹو پر جو افتاد پڑی وہ اس خیانت کے سبب ہو جو انہوں نے میرٹ کو نظر انداز کر کے ضیاء الحق کو آرمی چیف بنا کر کی۔ یہی خیانت نواز شریف نے جنرل مشرف کو چیف بنا کر کی۔ یہ کہنا کہ یہ صوابدیدی اختیار تھا۔ فریبِ نفس کے سوا کچھ نہیں! صوابدیدی اختیار میں بھی فائل پر یہ لکھنا ہوتا ہے کہ سینئر کو کن وجوہ کی بنا پر محروم کیا جا رہا ہے۔ پھر یہی کچھ جنرل مشرف کرتے رہے۔ ایک جاننے والے بریگیڈیئر کو وفاقی شعبہ تعلیم کا سربراہ بنا دیا۔ تو سیع پر توسیع ملی جو مستحق تھے وہ عدالتوں میں جوتے چٹخاتے ریٹائر ہوتے گئے۔ اب خاک وطن جنرل صاحب کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں! عمران خان بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ غیر منتخب افراد کو آگے لے آئے ہیں جو ان کی حکومت کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں مگر جیسا کہ اوپر عرض کیا۔ ایک حشر دنیا میں بھی برپا ہوتا ہے۔ کل کو مولانا فضل الرحمن کی حکومت آئی تو یہی ڈاکٹر عشرت حسین ان کی ریفارم کمیٹی کے بھی سربراہ ہوں گے۔ یہی فردوس عاشق اعوان ان کی بھی ترجمان ہوں گی۔ یہی یوسف بیگ مرزا، مولانا حسین احمد مدنی کی زندگی پر ڈاکو منٹریاں بنا رہے ہوں گے۔ نواز شریف اور عمران خان ایک ہی راستے کے دو مسافر ہیں۔ دو مسافر ہیں ایک رستہ ہے۔