ایک منظر فرض کیجیے۔ میاں نواز شریف جیل میں ہیں۔ ان کی صحت بہت خراب ہوجاتی ہے۔ انہیں سرکاری ہسپتال منتقل کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ان کا بہترین علاج معالجہ کررہے ہیں لیکن وہ شفایاب نہیں ہوتے۔ انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں ملتی۔ ان کی حالت زیادہ خراب ہوجاتی ہے۔ اللہ نہ کرے ‘ وہ زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔پنجاب میں ان کے حامی پُر تشدداحتجاج شروع کردیتے ہیں۔ ہنگامے شروع ہوجاتے ہیں۔ جلائو گھیرائو ہونے لگتا ہے۔ حکومت اور ریاست پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ذمّہ دار ہیں۔کہا جاتا ہے کہ نواز شریف کو زہر دیا گیا۔ اسے چھُپانے کو انہیں ملک سے باہر نہیں جانے دیا گیا۔ کاروبارِ زندگی معطل ہوجاتا ہے۔پورا ملک اُلٹ پلٹ جاتا ہے۔ وہ صورتحال پیدا ہوجاتی ہے جو بے نظیر بھٹو کے قتل پر ہوئی تھی۔ کیا ان حالات میں کوئی حکومت کی جاسکتی ہے؟ کیا یہ عدم استحکام ملک کے مفاد میں ہوتا؟جو لوگ نواز شریف کے ملک سے باہر بھیجے جانے پر واویلا کررہے ہیں‘ شور مچا رہے ہیں‘ عدالتی فیصلہ میں مین میخ نکال رہے ہیں اُنہیں سوچنا چاہیے کہ نواز شریف ایک عام آدمی نہیں بلکہ پنجاب کے بہت مقبول لیڈر ہیں۔ اُن سے وابستہ ہر بات سیاسی اہمیت رکھتی ہے۔فی الحال پی ٹی آئی کے پُرجوش حامی نواز شریف کے معاملہ کو وسیع تناظر میں نہیں دیکھ رہے۔ اب ذرا حقائق پر نظر ڈالیے۔ستّرسالہ نواز شریف کو چھ بیماریاں لاحق ہیں۔ سپریم کورٹ میں ان امراض کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ ان کے گُردے خراب ہیں۔ ان کو شوگراور ہائی بلڈ پریشر ہے۔ دل کی شریانوں کو سٹنٹ ڈال کر کھولا گیا ہے۔ دل سے دماغ کو جانے والی خون کی شریان جزوی طور پر بند ہے۔ واقفان ِحال کا کہنا ہے کہ دو مقدموں میں سزا‘قید اور ان کی اہلیہ کی وفات کے بعد انہیںگہرا ڈپریشن ہوگیا جس سے ان کا مدافعتی نظام متاثر ہوا۔اچانک ان کے خون کے مخصوص ذرّات پلیٹ لیٹس بھی خطرناک حد تک کم ہونے لگے۔ پیچیدگی یہ تھی کہ ڈاکٹر دل کے علاج کے دوا دیتے تو اس سے پلیٹ لیٹس مزید کم ہوجاتے تھے۔ اگر دوا نہیں دیتے تھے تو دل کا مرض خطرناک صورت اختیار کرسکتا تھا۔ نواز شریف کے ان امراض کا مکمل علاج تو ممکن نہیں۔ انہیں صرف مسلسل علاج سے مینج کیا جاسکتا ہے۔ اس میںشک نہیں کہ پاکستان کے ڈاکٹر بھی ان کا علاج کرسکتے تھے۔ان کے امراض کنٹرول ہو بھی سکتے تھے ‘ اور نہیں بھی۔ زندگی‘ موت کا اختیار تواللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی ڈاکٹر ضمانت نہیں دے سکتا۔ نواز شریف کا معاملہ سیاسی ہونے کے باعث نازک تھا، کوئی ڈاکٹر یہ خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا کہ کوئی ایسی ویسی بات ہوجائے تو اُس پرالزام آئے۔اس کی شہرت خراب ہو۔ کوئی ریاستی ادارہ نہیں چاہتا تھا کہ اُس پر ملبہ گرے۔ حکومت کے مفاد میں بھی یہی تھا کہ وہ بری الذمّہ رہے۔پوری قوم کا مفاد اسی میں تھا کہ نواز شریف کا علاج اُسی جگہ پر ہو جہاں وہ چاہیں۔ سب نے مناسب یہی جانا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق ملک سے باہر جا کر اپنا علاج کرالیں۔ نواز شریف کے جانے کے بعد وزیراعظم عمران خان سمیت کئی وزرا بیانات دے رہے ہیں جس سے لگتا ہے کہ انہیں نواز شریف کے شدید بیمار ہونے پر شک ہے۔ ایک گیارہ رُکنی میڈیکل بورڈ تھا جس میں چوٹی کے ڈاکٹر شامل تھے۔ ان کی تشخیص اور سفارش تھی کہ نواز شریف کی صحت تشویشناک ہے۔ممکن نہیں کہ وہ سب ملک کر غلط بیانی کریں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے احتیاط سے کام لیا۔ کوئی رسک نہیں لیا۔معاملہ ہی ایسا نازک تھا۔ اب یہ لگتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اس بات پر خوش نہیں ہیں کہ عدالت عالیہ لاہور نے نواز شریف کوسا ت ارب روپے کے انڈیمنٹی بانڈ کے بغیر باہر جانے دیا۔ لیکن اپنے حامیوں کے سامنے تو وہ سرخرو ہیں کہ انہوںنے پوری کوشش کی لیکن قانونی نظام کے سامنے مجبورہوگئے۔ ظاہر ہے یہ ملک بادشاہت تو نہیں ہے کہ وہ جو چاہیں ویسا ہو جائے۔ ایک آئین ‘ قانون کے اندر رہتے ہوئے ہی وزیراعظم اپنا اختیار استعمال کرسکتے ہیں۔ اس معاملہ کو زیادہ اُچھالنے سے حکومت کا نقصان ہوسکتا ہے۔وزیراعظم کے ایک بیان کا چیف جسٹس آصفٖ کھوسہ کو پبلک میں جواب دینا پڑا حالانکہ چیف جسٹس صاحب بہت محتاط ‘ کم گوآدمی ہیں۔ہر ریاستی ادارہ جس کا اس معاملہ میں کوئی کردار تھاحکومت کی نکتہ چینی سے بدمزہ ہوگا۔ یہ صورتحال حکومت کے لیے اچھی نہیں ۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو ریاستی اداروں سے تعلقات بہتر رکھنے کی ضرورت ہے ‘ اُن سے تلخی پیدا کرکے اسے نقصان ہوگا۔ ریاستی اداروں کے خوش دلانہ تعاون کے بغیر کوئی حکومت نہیں چلائی جاسکتی۔ نواز شریف کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ انہوں نے اپنے ادوار میں ریاستی اداروں سے تعلقات خراب کرکے خود بھی نقصان اٹھایا ‘ ملک کو بھی بحران میں مبتلا کیا۔ تینوں مرتبہ اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کرسکے۔ ملک کو محاذ آرائی کی بجائے مصالحت اورسیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ عوام مہنگائی ‘ بے روزگاری سے پریشان ہیں۔ ان مسائل کا حل معاشی ترقی سے ممکن ہے۔ لوگوں کی توقعات ہیں کہ حکومت ٹھوس کام کرے۔ لوگ بیانات نہیں‘یہ دیکھتے ہیں کہ انہیں کیا فائدہ یا نقصان پہنچ رہا ہے۔ تحریک انصاف کو غور کرنا چاہیے گزشتہ سوا سال میں جب سے اس کی حکومت بنی ہے کیا اسکولوں‘ کالجوں کی حالت سُد ھری ہے؟ کیا ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی سہولتیں بہتر ہوئی ہیں؟ کیا پینے کے صاف پانی اور نکاسی آب کی سہولتوں میں اضافہ ہوا ہے؟کیا عدالتوں کی تعداد میں ‘ دیوانی مقدمات کے فیصلوں کی رفتار میںاضافہ ہوا ہے؟ کیا پولیس عوام دوست بن رہی ہے؟ کیا سرکاری محکموں میں رشوت خوری کم ہوئی؟ کونسا شعبہء زندگی ایسا ہے جس میں حکومت فخر سے کہہ سکے کہ ہم نے عوام کو ریلیف مہیا کیا ہے؟ وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کو اب نواز شریف سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ نواز شریف نکل گئے۔ اب لکیر پیٹنے سے کیا فائدہ۔ حکومت اب عوامی مسائل پر توجہ دے۔