معزز قارئین!۔ آخر کار ،پرسوں (6 جولائی کو) اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ’’ایون فیلڈ ریفرنس کیس‘‘ کا فیصلہ سُنایا ہی دِیا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کو دس سال ، اُن کی بیٹی مریم نواز کو سات سال اور داماد کیپٹن( ر) محمد صفدر کو (اُن کی غیر موجودگی میں) ایک سال ’’ قید بامشقت‘‘ کی سزا سُنا دِی اور اُن تینوں کو عوامی اور سرکاری عہدوں کے لئے 10 سال کے لئے نااہل قرار دے دِیا۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز کو ایک ارب 65 کروڑ روپے جرمانہ کردِیا اور لندن میں ’’ ایون فیلڈ ‘‘ میں واقع فلیٹس کو بحق ’’سرکارِ پاکستان ‘‘ ضبط کرنے کا بھی حکم دِیا۔ احتساب عدالت نے مقدمہ کے مجرموں نواز شریف، کے دونوں مفرور بیٹوں حسین نواز اور حسن کے ناقابلِ ضمانت ۔ ’’دائمی ‘‘ وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردئیے ۔ الیکٹرانک میڈیا کے مطابق ‘جِس وقت اسلام آباد میں جج محمد بشیر ، فیصلہ سُنا رہے تھے ، اُسی وقت ملزمان نواز شریف، مریم نواز ، حسین نواز اور حسن نواز انہی فلیٹس میں ٹیلی ویژن پر فیصلہ سنائے جانے کی خبریں سُن رہے تھے ۔ مفرور ملزم (سابق وفاقی وزیر خزانہ ) اسحاق ڈار بھی وہاں موجود تھے۔ اُن کے ساتھ اُن کا بیٹا علی ڈار(میاں نواز شریف کا داماد) اُس کی بیوی اسماء (میاں نواز شریف کی چھوٹی بیٹی ) بھی وہاں موجود تھی۔ بیگم کلثوم نواز وینٹی لیٹر پر ہسپتال میں تھی ۔اسحاق ڈار تو کئی مقدمات میں ملوث ہیں لیکن ( خُوش قسمتی سے ) فی الحال اُن کا بیٹا علی ڈار۔ بہو اسماء علی کسی بھی مقدمے میں ملوث نہیں اور نہ ہی بیگم کلثوم نواز ؟۔ بیگم کلثوم نواز کی صحت یابی کے لئے میاں نواز شریف کے سیاسی مخالفین نے بھی دُعائیں کی ہیں۔ اُن کے ، اُن کی بیٹی اسماء علی ،داماد علی ڈار ، مریم نواز کی بیٹی مہر اُلنساء اور اُس کے میاں کے خلاف بھی کوئی مقدمہ نہیں ۔یہ سب نواز شریف کا خاندان (پنجابی میں ٹبّر ) کہلاتا ہے ۔ اِس لحاظ سے چیئرمین عمران خان اور اُن کی پاکستان تحریکِ انصاف کے پر جوش خواتین و حضرات کا وہ نعرہ تو ناکارہ ہوگیا جو ، وہ نااہل وزیراعظم نواز شریف کے ٹبّر ؔکے خلاف لگایا کرتے تھے کہ … ’’گلی ، گلی میں شور ہے ، سارا ٹبّر چور ہے ‘‘ یہ محض اِتفاق ہے کہ ’’ 6 جولائی کو احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد نواز شریف کے برادرِ خُورد میاں شہباز شریف نے اُسی روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے احتساب عدالت کے فیصلے کو ’’سیاہ فیصلہ ‘‘ قرار دِیا اور اعلان کِیا کہ ’’مَیں گلی ،گلی جا کر اِس ’’سیاہ فیصلے ‘‘ کے بارے میں بتائوں گا !‘‘ لیکن سابق خادمِ اعلیٰ پنجاب نے وضاحت نہیںکی کہ ’’ گلی، گلی سے ‘‘ اُن کی مراد پاکستان کے مختلف پہاڑی علاقوں میں "Galyat 19" سے ہے یا پاکستان کے ہر شہر کی گلی سے؟۔ اُستاد شاعر شوق ؔ کو بھی نہ جانے کیا مسئلہ پیش تھا جب، اُنہوں نے اپنے بارے میں کہا تھاکہ … مارا ، مارا پھر رہا ہے ، بڑا ہی سڑی ،ہوگیا ہے شوقؔ! بہت خاک ، گلیوں کی ، وہ چاٹتا ہے ! پریس کانفرنس میں میاں شہباز شریف کے ساتھ ’’نُون لیگی ‘‘ مشاہد حسین سیّد، خواجہ سعد رفیق اور حمزہ شہباز بھی بیٹھے تھے ۔ ’’سیاہ فیصلے‘‘ پر احتجاج کے طور پر اُن کے بازوئوں پر سیاہ ؔپٹیاں بندھی تھیں لیکن، سیاہ پٹی ؔمیاں شہباز شریف کے بازو پر نہیں تھی۔ کیوں نہیں تھی؟۔ یاد رہے کہ ’’ 28 جولائی کو سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچوں جج صاحبان کی طرف سے نااہل ہونے کے بعد جب، نواز شریف نے اسلام آباد سے جی۔ٹی روڈپر لاہور کی طرف ’’انقلاب مارچ ‘‘ کِیا تو، اُس وقت بھی وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے میاں شہباز شریف نے بڑے بھائی کو سمجھانے بجھانے کی پالیسی اختیار کی تھی‘‘۔ احتساب عدالت کے 6 جولائی کے فیصلے کے بعد ،لندن سے نواز شریف کا تازہ اعلان یہ ہے کہ ’’کلثوم نواز کے ہوش میں آتے ہی مَیں وطن واپس آ جائوں گا۔ ہتھکڑی پہنوں گا ۔ جیل جائوں گا ‘ جدوجہد نہیںچھوڑوں گا۔ عوام کو چند ججوں اور جرنیلوںکی مسلّط غُلامی سے آزادی دلائوں گا۔ سزائیں میرا راستہ نہیں روک سکتیں۔ زنجیروں کو توڑ نا ہوگا‘‘۔ مریم نواز نے اپنے والد کی ہاں میں ہاں! ملاتے ہُوئے کہا کہ ’’ شاباش نوازشریف! آپ جھکے نہیں ۔ نادِیدہ قوتوں کے سامنے ڈٹ جانے کی سزا بہت تھوڑی ہے ‘‘۔ اُدھر نگران وفاقی وزیر قانون اطلاعات و نشریات سیّد علی ظفر نے بھی ’’جوابِ آں غزل ‘‘ کے طور پر کہا کہ ’’ نوازشریف اور مریم کی گرفتاری کے فیصلے پر عمل کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ کوشش کی جائے تواُنہیں "Red Warrant"کے ذریعے بھی وطن واپس لایا جاسکتا ہے!‘‘ ۔ 10 اگست 2017ء کو اسلام آباد سے لاہور کی طرف ’’ انقلاب مارچ‘‘ سے لے کر پاکستان کے مختلف شہروں میں منعقدہ جلسوں میں اپنی اشتعال انگریز تقریروںکے ذریعے نواز شریف اور مریم نواز ۔ پاک فوج اور اعلیٰ عدلیہ کے خلاف پاکستان کے عوام کو بھڑکا کر اپنی مرضی کاانقلاب لانے میں ناکام ہوگئے ہیں ۔ نوازشریف کی طرف سے خُود کو شیخ مجیب اُلرحمن کا رُوپ ؔ دینے سے بس محب وطن پاکستانی دانشور مریم نواز کو ۔’’ حسینہ واجد ‘‘کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ 2 دسمبر 2017ء کوکوئٹہ میں وزیراعظم نواز شریف نے جب ’’ بلوچ گاندھی ‘‘ عبداُلصمد اچکزئی کے بیٹے ’’پشتونخوا ملی عوامی پارٹی‘‘ کے سربراہ محمود خان اچکزئی کو اپنا نظریاتی بھائی قرار دِیا اور یہ اعلان کِیا کہ ’’ محمود خان اچکزئی اپنے والد کے مشن کی پیروی میں مجھے اپنے ساتھ پائیں گے‘‘۔ تو قیام پاکستان کے لئے قربانیاں دینے والے ’’ تحریکِ پاکستان‘‘ کے کارکنوں اور اُن کی اولاد نے اُنہیں (نواز شریف کو) اُسی وقت عاق کردِیا تھا۔ نااہل وزیراعظم کے حُکم پر منتخب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے 14 اکتوبر کو فضل اُلرحمن صاحب کے والد مفتی محمود کی 37 ویں برسی پر وزیراعظم ہائوس کی ایک دیوار پر پہلے سے نصب "Four Colour Plaque" ۔ ( چار رنگی دھات، چینی وغیرہ کی تختی) کی نقاب کُشائی کرتے ہُوئے ۔ 14 اکتوبر کو مفتی محمود کی ’’دینی ، قومی اور سیاسی خدمات ‘‘ کے اعتراف میں یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کِیا تو، یہ بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر ایک بہت ہی بدنُما دھبا تھا / ہے۔ اِس لئے کہ قیام پاکستان کے بعد مفتی محمود کا یہ بیان "on Record" ہے کہ ’’ خُدا کا شُکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گُناہ میں شامل نہیں تھے ‘‘۔ حیرت ہے کہ ’’ نواز شریف اکثر اپنی تقریروں میں گذشتہ 71 سال میں فوجی آمروں کی طرف سے سیاستدانوں سے غیر سیاسی سلوک پر ماتم تو کرتے ہیں لیکن، وہ اپنے ’’روحانی باپ ‘‘ جنرل ضیاء اُلحق کے 11 سالہ اقتدار کا ذکر نہیں کرتے؟۔مجھے یقین ہے کہ ’’ 25 جولائی 2018ء کا دِن بھی چور، ڈاکو ، اور لٹیرے سیاستدانوں کے محاسبے کا دِن ہوگا۔ نواز شریف کے بارے میں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ … میرا مزاج ، لڑکپن سے آمرانہ ہے ! مزاج ؔکے معنی ہیں ۔ ’’سرشت ۔ عادت۔ طبیعت ۔ خُو۔ غرور ‘‘ جسے انگریزی میں "Temperament" کہتے ہیں اورمتلون مزاج کو "Temperamental" ۔ اِس لفظ میں "Mental"۔ قابل ِ غور ہے ۔میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کا ایک سیاسی ماہِیا ہے کہ … کِنا سوہنا ، تیرا "Face" ماہِیا! مَینوں تے ، لگنا ایں تُوں "Mental Case" ماہِیا! اُستاد شاعر صبا ؔلکھنوی نے کہا تھا کہ … لوگوں کی چاہ نے ، اُنہیں مغرور کردِیا! نوکر بِگاڑ دیتے ہیں ، سردار ؔکا مزاج! بگڑے ہُوئے مزاج والے / ’’ مزاج دار‘‘ (مغرور) لوگوں کے لئے کہا گیا ہے کہ ’’ جیسے کو تیسا‘‘ ۔ فی الحال تو ، نوازشریف کے ٹبّر ؔ کے خلاف صِرف ایک ہی کیس کا فیصلہ ہُوا ہے۔ علاّمہ اقبالؒ کے دوسرے مصرعے پر کِسی اور شاعر یا متشاعرنے گرہ لگائی تو، کہا کہ … ابھی سے ہی چِلاّ اُٹھے، میرے بھیا! مقاماتِ آہ و فُغاں اور بھی ہیں! معزز قارئین! مجھے یقین ہے کہ ’’ عام انتخابات سے پہلے یا بعد میں نواز شریف وغیرہ کے ’’ مزاج‘‘ ضرور درُست ہو جائیں گے!‘‘