میاں نواز شریف نے اپنا ایک اور بیانیہ تیار کر لیا ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ممبئی حملے کے لیے پاکستان نے دہشت گرد بھارت بھیجے جنہوں نے 150لوگوں کو قتل کیا۔ بھارت گزشتہ 11سال سے یہی کہہ رہا ہے۔ ہم نے چند برسوں قبل بلوچستان سے بھارتی نیوی کا افسر کلبھوشن جادیو گرفتار کیا۔ کلبھوشن نے اعتراف کیا کہ وہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو منظم کرنے اور ان کی مالی ضروریات کی نگرانی کر رہا تھا۔ یو ٹیوب پر بی جے پی کے ایک رہنما کا پرناپ گوسوامی کے شو میں ویڈیو کلپ دیکھا جا سکتا ہے جو گزشتہ برس وائرل ہوا تھا۔ اس کلپ میں وہ صاحب کہہ رہے تھے کہ نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹایا گیا تو بھارت کے لیے یہ بڑا نقصان ہو گا کیونکہ بھارت نے ان پر بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ میاں نواز شریف نے ممبئی حملے کے متعلق جو کچھ کہا وہ ان فیصلہ ساز قوتوں کو غلط ثابت کرتا ہے جنہوں نے اس تاجر بچے کو جمہوری لیڈر بنانے کا فیصلہ کیا۔ نواز شریف نے ممبئی حملے سے متعلق اپنے زریں خیالات کا اظہار ایک انگریزی جریدے کو انٹرویو میں کیا۔ میڈیا اور سیاست کے ایک طالب علم کے طور پر میں جانتا ہوں کہ جو سیاست دان انگریزی میں کوئی ایک سنجیدہ جملہ نہ بول سکتا ہو وہ اپنے خلاف مقدمات میں رعائت لینے کے لیے ہاتھ پائوں مارتا ہے تو اس کی سوچ کس کس زبان میں کہاں کہاں بھٹکتی ہے۔ تصور میں لائیے وہ وقت جب بے نظیر بھٹو جنرل ضیاء کی قید میں تھیں۔ پھر جلا وطن ہوئیں۔ دو بار اقتدار سے ہٹا دی گئیں۔ اس وقت انہوں نے جو بیانات جاری کئے ان کا ذریعہ غیر ملکی اخبارات اور ٹی وی چینلز تھے۔ بے نظیر بھٹو اپنی بات کہنا جانتی تھیں۔ میری نظر سے ان ادوار کا ریکارڈ گزرا ہے۔ ہر ظلم پر انہوں نے فرد واحد اور سازشیں کرنے والے ٹولے پر تنقید کی مگر ان کی زبان سے کبھی ریاست مخالف لفظ نہ نکلا۔ انہوں نے کبھی یہ دھمکی نہ دی کہ انہیں اقتدار نہ دیا گیا تو وہ سارے راز کھول دیں گی۔ بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک قرار دینے والے اگر زندہ ہیں تو ان سے ضرور پوچھا جانا چاہیے کہ حضور آپ کے پروردہ ممبئی حملے سے متعلق جو کچھ فرما رہے ہیں کیا آپ اس سے شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ نواز شریف نے انگریزی جریدے کا انتخاب اس لیے کیا کہ وہ جن طاقتوں کو اپنا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں ان تک پوری بات واضح طور پر پہنچ جائے۔ اس سلسلے میں ذرا تحقیق کر لی جائے تواس جریدے یا انٹرویو لینے والے صحافی کا کردار بھی سامنے آ سکتا ہے کیونکہ اس طرح کے ابلاغیاتی حملوں کے لیے مخصوص ٹیم منتخب کی جاتی ہے اور اس انتخاب کی ٹھوس وجوہات ہوتی ہیں۔ میری تربیت ایسے فرد کے طور پر ہوئی ہے جو ریاستی پالیسیوں کو عوامی منشا کے مطابق دیکھنا چاہتا ہے ۔میرے جیسے لوگ اینٹی اسٹیبلشمنٹ تو ہو سکتے ہیں مگر اینٹی سٹیٹ ہو کر کبھی نہیں سوچتے۔ ریاستی ادارے بہرحال افراد سے بڑے ہوتے ہیں۔ میری بات کو سمجھنے کے لیے اصغر خان کیس کا مطالعہ فرما لیں۔ اس وقت کے صدر‘ آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف نے طے کر لیا کہ عوام کے ووٹ کی ساری عزت میاں نواز شریف نامی سائنسدان کی جھولی میں ڈالنی ہے۔ ریاستی ادارے اس کھیل کا حصہ نہیں تھے۔ مجھے اندازہ ہے کہ ماضی میں جو جو شخص نواز شریف کی حمائت کرتا رہا یا ان کے ساتھ مل کر ووٹ کے گلے میں رسی ڈالتا رہا وہ اپنے فیصلے‘ سوچ اور عمل پر شرمسار ضرور ہو گا۔ نواز شریف کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ گزرے وقتوں کی اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی پراجیکٹ ہیں اس لیے انہیں بار بار معافی ملتی رہی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو یہ رعائت حاصل نہ تھی۔ جو لوگ اسٹیبلشمنٹ کا جثہ اختیار کر کے سوچتے ہیں کہ تاریخ انہیں اچھے لفظوں میں یاد رکھے گی وہ جان لیں کہ تاریخ اتفاق فونڈری سے ڈھل کر نکلنے والا سریا ہے نہ ایون فیلڈ فلیٹس کی نحوست‘ تاریخ ایک مکمل غیر جانبدار عمل ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سچ کو ظاہر کرتا ہے۔ تیس پینتیس سال پہلے کی اسٹیبلشمنٹ کو امریکہ کی شاطرانہ جارحیت کا سامنا تھا نہ بھارتی معیشت کی طاقت سے لڑنا پڑتا تھا۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کا کام ملک میں ابھرنے والی عوامی خواہشات کا گلا دبانا تھا۔ آج اسٹیبلشمنٹ اپنے سابق اتحادیوں سے بیزار ہے۔ اس کے اتحادی بھی عربوں‘ بھارتیوں اور امریکیوں سے تعلق مضبوط بنا کر خوش ہیں۔ انہیں اطمینان ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ کسی دوسرے سیاستدان کو پھانسی نہیں دے سکتی۔ انہیں تسلی ہے کہ ریاستی عہدوں پر فائز رہنے کی وجہ سے ان کے سینے میں جو راز ہیں ان کو افشا کرنے کی دھمکی دے کر وہ نیا این آر او حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات وہ نہیں جو قائد اعظم محمد علی جناح کی خواہش تھے۔ قائد کی آرزو تھی کہ دونوں ہمسائے امریکہ اور کینیڈا کی طرح امن کے ساتھ رہیں۔ بھارت نے کشمیر پر قبضہ کر کے جارحیت کی۔ پاکستان کی فوج کمزور تھی۔ فاٹا اور کے پی کے سے قبائلی جنگجو اہل کشمیر کی مدد کے لیے پہنچے۔ ایک بڑا حصہ آزاد کرا لیا گیا۔ پنڈت نہرو خود اقوام متحدہ میں جنگ بندی کے لیے گئے۔ وہاں استصواب رائے کی قرار داد کو تسلیم کیا پھر ہر بھارتی حکومت پیچھے ہٹتی گئی۔ جنگوں کا مقصد پرانے معاہدوں اور قرار دادوں پر اپنا نیا موقف تسلیم کرانا ہوتا ہے۔ اسی لیے 1965ء کی جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند اور 1971ء کی جنگ کے بعد شملہ معاہدہ ہوا۔ بھارت نے 90ہزار فوجیوں کی رہائی اور دیگر شرائط کے بدلے ہم سے منوا لیا کہ کشمیر سمیت تمام تنازعات باہمی مذاکرات سے حل کئے جائیں گے۔ اس اصول کے مطابق کشمیر پر اس کا موقف مانا جائے گا جو طاقتور ہو گا۔ فوج ہتھیاروں اور تربیت کا کام کر سکتی تھی وہ اس نے خوب کیا۔ پاکستان کے پاس تمام مسلم ممالک کی نسبت جدید دفاعی ٹیکنالوجی اور مستعد فوج ہے۔ ملک کی سماجی اور اقتصادی ترقی کا کام سیاستدانوں کو کرنا تھا۔ نواز شریف 1985ء میں وزیر اعلیٰ بنے۔ تب سے لے کر آج تک ان کے سیاسی اور معاشی فیصلوں کا تجزیہ کریں۔ قرضوں کا حجم بتائے گا کہ ملک کمزور ہوا ہے۔ اس کمزوری کا نتیجہ ہم بھگت رہے ہیں۔ بھارتی جنونیوں کا بیان ایک بار پھر دہراتا ہوں’’نواز شریف پر ہم نے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے‘‘