لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کو بیرون ملک سفر کی اجازت دیدی ہے۔ ابتدائی طور پر انہیں چار ہفتوں کے لئے جانے کی اجازت ملی ہے تاہم ان کی میڈیکل رپورٹس کی بنیاد پر اس مدت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ عدالت عالیہ نے سوا بارہ بجے سے پونے چھ بجے تک مسلسل شہباز شریف کی موجودگی میں اس معاملے کی سماعت کی۔ جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس سردار احمد نعیم نے میاں نواز شریف کو اجازت دینے کا فیصلہ واپسی کی یقین دہانی پر مبنی بیان حلفی جمع کرانے پر دیا۔ اس بیان حلفی میں نواز شریف نے کہا کہ ’’میں حلف اٹھاتا ہوں کہ میں اپنے سابق ریکارڈ کے مطابق چار ہفتوں میں وطن واپس آ کر قانون اور انصاف کے عمل کا سامنا کروں گا‘‘ واپسی کے متعلق بیان حلفی میں کہا گیا ہے کہ جونہی میرے معالجین نے مجھے سفر کے قابل سمجھا میں لوٹ آئوں گا اور اپنے بھائی کے جمع کرائے گئے بیان حلفی کا پابند ہوں گا‘‘ اٹارنی جنرل نے عدالتی فیصلے پر عمل کرنے کا یقین دلاتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت عالیہ نے حکومتی موقف مسترد نہیں کیا۔ میاں نواز شریف بیمار ہیں۔ ان کی صحت پر سیاست بازی نہ کر کے حکومت نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا۔ قانون کی نظر میں امیر و غریب مساوی ہیں اس لئے حکومتی فیصلوں میں اس بات کو پہلی بار اس قدر اہمیت دی گئی۔ میاں نواز شریف کو العزیزیہ کیس میں قید اور جرمانے کی سزا ہو چکی ہے۔ ان کے خلاف متعدد دوسرے مقدمات پر تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ کچھ مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ نواز شریف کی صحت خرابی کا معاملہ اس وقت خبروں کی شکل میں ابھرا جب حالیہ برس انہوں نے دل کی تکلیف کے باعث عدالت سے بیرون جیل علاج کی درخواست کی۔ نواز شریف کو پہلے جیل میں دستیاب بہترین سہولیات فراہم کی گئیں پھر انہیں سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم ان کی جانب سے سرکاری سہلویات کو ناکافی قرار دینے پر اصرار پر انہیں اپنے ذاتی معالجین سے علاج کے لئے چھ ہفتوں کی رخصت دیدی گئی۔ میاں نواز شریف نے یہ وقت کسی ہسپتال میں گزارنے کی بجائے جاتی امرا کی رہائش گاہ پر گزارا۔ جیل واپسی کا معاملہ بھی متنازع بنایا گیا۔ نواز شریف نے عہد کیا تھا کہ وہ مقررہ تاریخ اور وقت پر خود کو جیل حکام کے حوالے کر دیں گے مگر ان کے ساتھیوں نے جیل عملے کو میاں نواز شریف تک رسائی نہ دی اور انہیں مقررہ وقت گزرنے پر جلوس کی شکل میں جیل لایا گیا۔ یہ قانون اور قانونی عمل کی کھلی تضحیک تھی جس پر حکومت نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ نواز شریف کی قید کو متنازع بنانے کے لئے احتساب عدالت کے فیصلہ سنانے والے جج ملک ارشد کے ویڈیو سکینڈل کو اچھالا گیا۔ اس سکینڈل میں مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے افراد کی دلچسپی معاملے کو کئی پہلوئوں سے اجاگر کرتی ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنمائوں نے اس ویڈیو کی بنیاد پر العزیزیہ ریفرنس پر فیصلے کے مشکوک ہونے کا تاثر پھیلایا۔ یہ کہا جاتا رہا کہ العزیزیہ ریفرنس میں سزا کا معاملہ اب ختم ہونا چاہیے۔ چند ہفتے قبل اچانک ایسی خبریں آنے لگیں کہ نواز شریف کے خون میں پلیٹ لیٹس کی تعداد خطرناک حد تک کم ہو گئی ہے۔ ساتھ ہی ان کے سیاسی حامیوں نے تشویشناک بیانات جاری کرنے شروع کر دیے۔ ہماری سیاست کا طویل عرصے سے یہ چلن ہے کہ سیاستدان اپنے جرائم کی سزا کاٹتے ہوئے کسی نقصان سے دوچارہو جائے تو ہمدردی کی ایک غیر مناسب لہر اس کے سنگین سے سنگین جرائم کی حیثیت ختم کر دیتی ہے۔ یہ بات حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علم میں ہے اسی لئے انہوں نے احتیاط سے کام لیتے ہوئے پہلے نواز شریف کو سروسز ہسپتال میں داخل کیا جہاں سات آٹھ ڈاکٹروں کا بورڈ ان کی بیماری پر مسلسل نظر رکھے ہوئے تھا۔ پھر میاں نواز شریف کے ذاتی معالجین کو اس بورڈ میں شامل کیا گیا۔ پورے ملک میں ڈاکٹر ہڑتال پر تھے مگر میاں نواز شریف کو دستیاب تمام سہولیات فراہم کی گئیں۔ آخر اس بورڈ نے سابق وزیر اعظم کی صحت کو خطرے کا شکار قرار دیدیا۔ میاں نواز شریف نے عدالت کی فراہم کی گئی رعایت کو جواز بنا کر بیرون ملک جانے کی خواہش ظاہر کی تو حکومت نے اس کے لئے شورٹی بانڈ طلب کر لیا۔ بانڈ اس بنا پر طلب کیا گیا کہ نواز شریف خاندان کے کئی افراد پہلے ہی قانونی عمل سے فرار ہوکر بیرون ملک مقیم ہیں۔ نواز شریف نے حکومتی شرط کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس موقع پر حکومت کے سامنے قانون کی بالادستی کا سوال کھڑا تھا۔ حکومت کے لئے جنرل پرویز مشرف‘ اسحاق ڈار‘ علی عمران‘ حسن نواز‘ حسین نواز کی شکل میں مثالیں موجود تھیں جو عدالتوں کو مطلوب ہیں۔ کابینہ کی طرف سے شورٹی بانڈ کی شرط پر مسلم لیگ ن نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا اور معزز عدالت نے صورت حال کو احسن انداز میں سلجھا دیا۔ نواز شریف سزا یافتہ قیدی ہیں۔ ایک سزا یافتہ شخص کو بیرون ملک علاج کی سہولت فراہم کرنے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ یقینا جیلوں میں ایسے سینکڑوں شدید بیمار قیدی ہیں جنہیں جیل کے ڈاکٹر صحت یاب نہیں کرسکے۔ ان کی درخواستوں پر اسی طرح ہمدردانہ غور ہونا چاہیے جس طرح میاں نواز شریف کے ساتھ انسانی ہمدردی کا سلوک کیا گیا۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن کی قیادت کو اب ساری توجہ میاں نواز شریف کے علاج پر مرکوز کرنی چاہیے۔ ہر چیزسیاست کے لئے نہیں ہوتی نہ ہر وقت سیاست کرنا مناسب ہوتا ہے۔ پاکستان کی حکومت اورقانون نے ان کی بیرون ملک جانے کی خواہش کو انسانی ہمدردی کے طور پر دیکھا ہے۔ پاکستان کو اچھی مثالوں کی ضرورت ہے۔ عام آدمی کو قانون کی بالادستی پر اسی وقت یقین آئے گا جب طاقتورو اور بارسوخ افراد قانونی عمل کے پابند رہیں گے۔