نظریہ مر جاتا ہے، لوگ نئے پرچم اٹھا لیتے ہیں لیکن برصغیر پاک و ہند کا ایک المیہ ہے کہ ہم نظریے کا بھی مزار بناتے ہیں اور اسے پوجتے رہتے ہیں۔ شخصیات کے بت تراشتے ہیں، ان سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں، امیدیں ٹوٹتی ہیں تو اس کی جھلک کسی دوسری شخصیت میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔علامہ اقبال نے پیام مشرق میں اس ساری کیفیت کوبیان کیا ہے ؎ ہزاراں سال با فطرت نشستم بہ او پیو ستم و از خود گسستم ولیکن سرگزشتم ایں دو حرف است تراشیدم، پرستیدم، شکستم ترجمہ: ’’میں ہزاروں سال فطرت کے ساتھ رہا ہوں۔ میں خود سے جدا ہو کر اس میں پیوست ہوگیا۔ لیکن میری ساری سرگزشت ان دو حرفوں میں آ جاتی ہے کہ میں نے بت تراشا، میں نے پوجا کی اور میں نے اسے توڑ دیا۔‘‘ یہ انسانی تاریخ کا المیہ ہے۔ وہ تاریخ جو اس دنیا کی ترقی، خوبصورتی اور معاشی و معاشرتی ارتقاء کے گرد گھومتی ہے جس تاریخ کا محور ومرکز اور جس انسان کی تگ و دو اور منزل دنیا ہو جائے، وہاں یہ المیہ ہر روز جنم لیتا ہے۔ شخصیات کے بت بنتے ہیں اورٹوٹ جاتے ہیں۔ نظریات،منشور اور نعرے گونجتے ہیں اور دفن ہو جاتے ہیں۔ صدیوں سے انسان یہی کرتا چلا آیا ہے۔ پاکستان اور اس کا معاشرہ بھی اس تکوین فطرت سے الگ نہیں ہے لیکن اس معاشرے کے زوال کا عالم یہ ہے کہ آج سے صرف تین دہائی پہلے تک جو دانشور، صاحبان علم اور پڑھے لکھے سیاسی کارکن، عالمی سطح پر کارل مارکس، لینن، ماوزئے تنگ، چی گویرا کے بت سینوں پہ سجائے‘ جنہیں ان کی جھلک کبھی سجاد ظہیر، فیض احمد فیض، حسن ناصر اور بالآخر ذوالفقار علی بھٹو میں نظر آتی تھی، انہیں صرف اپنی ذات کا بھرم قائم رکھنے کے لیے نوازشریف پر ’’گزارا‘‘ کرنا پڑ رہا ہے۔ مجھے ان پاکستانی دانشوروں کے کرب کا اندازہ ہے جو ایمانداری کے ساتھ اپنے زمانے کی روح عصر کمیونسٹ تحریک کے ساتھ وابستہ تھے۔ اٹھتے بیٹھتے امریکہ اور امریکی سامراج کو گالیاں دیتے تھے، مذہب کو افیون قرار دیتے تھے، پاکستان کے بائیس سرمایہ دار گھرانوں کو روز لعن طعن کرتے تھے، ہاری ،مزارع اور چھوٹے کسان کے لیے ٹوبہ ٹیک سنگھ جیسی کانفرنسیں بلاتے تھے اور ہزاروں میل دور مشرقی پاکستان سے آنے والے بھاشانی کی نقلابی جدوجہد کو سلام پیش کرتے تھے، فیض احمد فیض انقلاب کی نوید سناتے ہوئے ٹوبہ ٹیک سنگھ جیسے پسماندہ علاقے میں جزا و سزا کا اعلان کرتا تھا۔ جزا سزا سب یہیں پہ ہوگی یہیں سے اٹھے گا شور محشر یہیں پہ روز حساب ہوگا یہ شور محشر ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستان کو دولخت کرنے کے بعد اٹھا لیکن کسی سرمایہ دار ‘زمیندار اور سردار کا روز حساب نہ آ سکا۔ الٹا وہ تمام انقلابی جنہوں نے بھٹو کا بت تراشا تھا، اذیت ناک زندگی کا مزا چکھنے لگے، وقت گزرتا گیا، بھٹو ان دانشوروں کی نظروں میں امریکی ایجنٹ، سامراج کا پٹھو اور انقلاب کا راستہ روکنے والا بن گیا۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء سے چند گھنٹے پہلے تک پیپلزپارٹی کے تمام نظریاتی لوگ، جسے اے رحیم سے لے کر معراج محمد خان، حنیف رامے وغیرہ تک بھٹو کی آمریت کے مقابل آ کھڑے ہوئے تھے یہاں تک کہ اعتزاز احسن جیسا انقلابی بوژوا بھی پیپلزپارٹی کو خیر آباد کہہ گیا تھا۔ وہ جو جمہوری جدوجہد کو شروع ہی سے انقلاب دشمنی کے خلاف سمجھے تھے اور بھٹو کو پہلے دن سے رد انقلاب کہتے تھے، یہ سب کے سب اس تحریک میں مجبوراً شریک تھے جس کا نعرہ نظام مصطفی ؐکا قیام تھا۔ بھٹو کی آمریت کا عفریت اس قدر خوفناک تھا کہ ولی خان، بزنجو، مینگل جیسے قوم پرستی بھول گئے تھے۔ 1977ء کی چھ جولائی کے بعد میرے ان دوستوں پر ایک ایسی افتاد ٹوٹی کہ سب کے سب ہونق و پریشان ہو گئے اور پھر تو یوں لگتا تھا کہ مصیبتوں نے ان کا گھر ہی دیکھ لیا ہو۔ ضیاء الحق کے منہ سے اسلام کی سربلندی کے لفظ ادا ہونے لگے۔ وہ فوج جس کے میسوں میں گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے ’’بار‘‘ موجود تھے اور جام نہ اٹھانے والے کو شودر تصور کیا جاتا تھا، وہاں جنٹلمین بسم اللہ اور جنٹلمین الحمدللہ کی صدائوں کے ساتھ میزوں پرٹوسٹ کے لیے شراب کی جگہ روح افزا آ گیا۔ اوہ باپ رے باپ! یہ کیا ہوگیا۔ ابھی صرف ڈیڑھ سال ہی گزرا تھا، ایران میں تو دہ پارٹی، اور مجاہدین خلق امریکی سامراج کی علامت شاہ ایران کے خلاف انقلاب کی راہ دیکھ رہی تھیں، عین انقلاب کی گھڑی آئی تو قیادت اللہ کا پرچم بلند کرنے والوں کے ہاتھ میں آ گئی۔ صرف چند ہفتوں بعد افغانستان میں افسانہ نگار کمیونسٹ رہنما نور محمد ترکئی برسراقتدار آیا تو نور خم کی سرحد سے سرخ پھریرے کی آمد کی نوید سنانے والے نظر آنے لگے۔ روس خود اپنی افواج سمیت افغانستان میں داخل ہو کر پشتونوں کا خون بہانے لگا، سب کو ایک بار پھر قوم پرستی بھول گئی اور نظریہ یاد آ گیا لیکن ان پندرہ سالوں میں ہر وہ بت جو بنایا گیا، جسے پوجا گیا تھا، ٹوٹ گیا۔ سوویت روس کا بت، لینن کا مجسمہ زمین بوس ہوئے، بھٹو کے مردہ بدن کی راکھ سے بے نظیر برآمد ہوئی اور آصف زرداری کی کرپشن کے مہیب سائے اس کو لے ڈوبے۔ اب تو بس نفرت ہی نفرت باقی رہ گئی تھی۔ ایسے شخص، ملک اور ادارے سے نفرت جس کی وجہ سے ان کے تراشیدہ بت ٹوٹے تھے۔ پاکستان، اس کا نظریہ اور اس کا تشخص پہلا نشانہ تھا۔ دوسرا نشانہ فوج بن گئی کہ وہ پہلے نشانے پاکستان سے وابستہ ہے اور تیسرا نشانہ ہر وہ شخص جو پاکستان کی اس بنیاد کی بات کرتا ہے کس قدر بدقسمتی ہے کہ پاکستانی، بھارتی اور عالمی دانشور جو اس ملک کو کمزور دیکھنا چاہتے ہیں ان کو اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے نوازشریف کے علاوہ کوئی اور شخصیت میسر نہیں آئی۔ وہ نوازشریف میں شیخ مجیب الرحمن کو دیکھنا چاہتے ہیں لیکن دھان منڈی کے دو مرلے کے مکان میں رہنے والا اور اقتدار کے ایوانوں سے دور شیخ مجیب الرحمن کی روح ایون فیلڈ کے لوٹ مار سے بنائے گئے فلیٹوں میں اگر داخل بھی ہو جائے تو اس خوبصورت ماحول میں چین سے سو جائے گی۔ وہ لوگوں کو ان رہنمائوں کی کہانیاں سناتے ہیں جو جلاوطنی کاٹ کر واپس آئے تو قوم نے انہیں کندھوں پر اٹھا لیا، جو مدتوں جیل میں رہے اور رہا ہوئے تو نیلسن منڈیلا بن گئے۔ بھارت کے اخبار، عالمی میڈیا اور پاکستانی سوشل میڈیا کے جنگجو رائے ونڈ اور ایون فیلڈ کے ’’محلاتی انقلابی‘‘ کے بارے میں تحریر کر رہے ہیں کہ کیا وہ پاکستان کی فوج کو شکست دے کر اسے نکیل ڈال سکے گا۔ پاکستان میں اس کا ایک منافقانہ لفظ میڈیا میں بولا جاتا ہے، ’’سول بالادستی‘‘۔ یہ سب ایک بڑا سٹیج تیار کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ میرے ان پاکستان کی نظریاتی اساس سے بغض رکھنے اور اس کے ستر سال تک قائم رہنے سے حسد کرنے والوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ جمہوریت کے ذریعے اس ملک میں انقلابی تبدیلی لانے کا نعرہ لگاتے ہیں اور جانتے بھی ہیں کہ یہ ان کی خواہشات کوپورا نہیں کرسکتی۔ اس لیے وہ گزشتہ کئی سالوں سے تبصرے کر رہے ہیں کہ جمہوریت کی بساط لپیٹی جانے والی ہے، آج نہیں تو کل۔ اور اب یہ خواہش نوازشریف کے دل کی آواز بن چکی ہے۔ اس لیے نوازشریف ان طاقتوں کا چی گویرا، مائوزے تنگ اور نیلسن منڈیلا ہے اور یہ کس قدر بدقسمتی ہے۔ چار اپریل 1977ء کی صبح یاد آ رہی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے لان میں دس بجے کی صبح ٹرانسسٹر پر ریڈیو پاکستان پر خبر چل رہی تھی۔ ’’نواب محمد احمد خان کے بڑے مجرم ذوالفقار علی بھٹو کو صبح راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ نہر سے یونیورسٹی بس میں سوار ہوا، سارا دن شہر میں گھومتا رہا، چاروں جانب سناٹا ہو کا عالم۔ اس کے بعد گیارہ سال گزر گئے، 1986ء میں بے نظیر کا تاریخی استقبال بھی گزر گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا بت انگڑائی بھی نہ لے سکا۔ اگر اس ملک کی تاریخ میں 17 اگست 1988ء کا بہالپور نہ آتا تو کتنے انقلابی اپنی حسرتیں دل میں لیے اس دنیا سے رخصت ہو جاتے۔ اب یہ سب حسرتیں نوازشریف اور اس کی کمزور بیٹی کا طواف کر رہی ہیں۔ کرپشن کی راکھ سے انقلاب کی چنگاری ڈھونڈھ کر نشیمن جلانے کی آرزو ہے یاد رکھو! اس نشیمن کے دروازے پر اللہ کے نام کی تختی لگی ہے۔ فیصلے اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ انتظار کرو، بس چند دن اور انتظار۔