ہے تو یہ زمین ہی، لیکن کبھی کبھی اور کہِیں کہیِں، یہاں ایسے لوگ مِل بیٹھے ہیں، جو دعویٰ کر سکتے کہ ع اے فلک دیکھ! زمیں پر بھی ستارے نکلے محمود غزنوی کا عہد بھی، یہ فخر کر سکتا تھا۔ جس دربار کے حاضر باشوں میں، البیرونی جیسا عالم اور فردوسی جیسا شاعر ہو، اس کے بارے میں صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے کہ علم و ادب کے، کیسے کیسے موتی لْٹائے جاتے ہوں گے! لطف کی بات یہ ہے کہ جس نے اس دربار میں، نہ آنے کی قسم کھا رکھی تھی، وہ ابن ِسینا بھی طب اور فلسفے میں بے مثل نکلا۔ معروف صوفی شاعر سنائی بھی اسی عہد میں گزرے ہیں۔ اور یہی دور تھا، جب حضرت عثمان بن علی ہجویری، لاہور وارد ہوئے تھے۔ محمود کی علم پروری کا جواب نہیں تھا۔ لیکن کوتاہی بھی، انسان سے ہو ہی جاتی ہے۔ فردوسی نے انعام کے جس وعدے پر، شاہنامہ لکھا تھا، وہ پورا نہیں ہوا۔ ساٹھ ہزار شعروں کے عوض، ساٹھ ہزار اشرفیاں نہ ملیں تو جَل کر اس نے ایسی ہجو کہی، جس میں بادشاہ کا حسب اور نسب، دونوں پْن کر رکھ دیے۔ اس ہجو کے آخری شعر کی نصیحت یا پیشین گوئی، حرف بحرف پوری ہوتی آ رہی ہے۔ کہتا ہے کہ شاعر چو رنجد، بگوید ہجا بماند ہَجا، تا قیامت بجا شاعر کو تکلیف دیتے ہو، تو وہ ہجو کہتا ہے۔ پھر یہ ہجو، قیامت تک ٹلتی نہیں ہے! کہتے ہیں کہ فردوسی ہجو کہہ کر، فرار ہو گیا۔ بعد میں کسی موقع پر محمود کو، غالباً، ہندوستان کے کسی حاکم کو سرزنش کرنا تھی۔ وزیر سے مشورہ کیا تو اس نے بے تامل، فردوسی کے یہ دو شعر بھیجنے کا مشورہ دیا۔ اگر جْز بکام ِمن آید جواب من و گرز و میدان و افراسیاب چنانش بکْوبم ز گْرز ِگران کہ پولاد کْوبند آہن گران یعنی، میری مرضی کا جواب نہ آیا، تو پھر تیار ہو جائو۔ اس طرح تمہیں کوْٹ کر رکھ دوں گا، جیسے لوہار، لوہا کْوٹتے ہیں! محمود، یہ شعر سنتے ہی پھڑک گیا۔ اب اسے افسوس ہونے لگا کہ کیسا قیمتی آدمی، چند اشرفیوں کی وجہ سے ہاتھ سے جاتا رہا۔ اس نے تلافی کرنے میں مزید دیر نہ کی اور فردوسی کو انعام کی رقم، فوراً بھجوانے کا بندوبست کر دیا۔ لیکن قدرت کا تماشا، ادھر انعام کی رقم اس کے دروازے تک پہنچتی ہے، اور اْدھر گھر سے فردوسی کا جنازہ نکلتا ہے! آمدم بر سر ِمطلب، شاعروں کی تاریخ نویسی، عام مورخوں سے زیادہ اثر انگیز اور دیر پا ہوتی ہے۔ اردو ادب، ناز کر سکتا ہے کہ بر ِصغیر کے پچھلے ڈیڑھ سو سال کے اہم واقعات، نظم کی شکل میں محفوظ کر دیے گئے ہیں۔ رئیس امروہوی، اس طرز ِشاعری کے امام تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا دورۂ پاکستان بھی، تاریخ کی کتابوں میں دبا دبایا رہ جاتا۔ مگر ان کی مزار ِقائد پر حاضری کو رئیس امروہوی نے مزار ِقائد ِاعظم، ابو الکلام آزاد؟ کے استعجابیہ مصرع میں، محفوظ کر دیا! بڑا دلچسپ ہے یہ سوال کہ مغربی ممالک میں بھی، اس قسم کی "قطعہ نویسی" اگر وجود رکھتی اور ان شاعروں میں کچھ ’’حق کے بندے‘‘ پیدا ہوئے ہوتے، تو جو کچھ پچھلی ایک صدی میں کیا گیا ہے، کیسے بیان کیا جاتا؟ ان کی طبع آزمائی کا ایک میدان، نوبیل امن انعام ہو سکتا تھا۔ یہ انعام ان لوگوں کو دینا ہوتا ہے، امن کے لیے جن کی خدمات، دوسروں سے بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ آج تک چار امریکی صدور کو، نوبیل مِلا ہے۔ تھیوڈور روزاویلٹ، ووڈرو ولسن، جمی کارٹر اور باراک اوباما۔ پہلے دونوں، اول درجے کے نسل پرست اور جنگجو تھے۔ روزاویلٹ کے دور میں فلپائن کے ساتھ، جو جنگ کی گئی، اس میں، دو لاکھ بے گناہ شہریوں کی جان چلی گئی۔ ولسن کے بارے میں، اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ پہلی جنگ ِعظیم ، ان کے دور میں ہوئی تھی! جمی کارٹر، پچھلے چند برسوں سے، انسانی حقوق کے بڑے چیمپیئن بنے پھرتے ہیں۔ انہی کے دور میں اسرائیل کو ریکارڈ امداد دی گئی۔ اسرائیل نے یہ رقم ملتے ہی، لبنان پر حملہ کر دیا۔ کارٹر ہر واردات، ’’انسانی حقوق کے تحفظ‘‘ کے نام پر کیا کرتے تھے۔ انڈونیشا کی خانہ جنگی کے دوران، کارٹر نے ’’انسانی حقوق‘‘ کی آڑ لے کر، بڑے پیمانے پر ہتھیار بھجوائے تھے۔ ان کی جنگجوئی نے کانگرس کو مجبور کر دیا کہ ہتھیاروں کی ترسیل اور فروخت پر، پابندی عاید کر دی جائے۔ اس پر کارٹر نے، انڈونیشیا میں ہتھیار، اسرائیل کے ذریعے بھجوانا شروع کر دیے۔ یاد رہے کہ اس جنگ میں، دو لاکھ کے قریب انڈونیشی جاں بحق ہوئے۔ چوتھے اور آخری نوبیل امن انعام یافتہ امریکن صدر، باراک اوباما ہیں۔ نوم چومسکی کہا کرتے تھے کہ بْش کے دور میں تشدد ہوا کرتا تھا اور اوباما کے دور میں سیدھے سبھائو قتل! عراق میں جنگ کا خاتمہ، اوباما کی امن پسندی قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ اوباما ہی تھے، جن کی بدولت، لیبیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ آج بھی، لیبیا میں خونریزی، تھمی کہاں ہے؟ اس کا سارا ’’ثواب‘‘ اوباما کو جاتا ہے! اور کون کہہ سکتا ہے کہ بن موسم، جو ’’بہار ِعرب‘‘ شروع ہوئی تھی، اس میں بیرونی طاقتوں کا ہاتھ نہیں تھا؟ سْنا ہے کہ دو لوگ آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ ایک نے دھمکی دی کہ اب اگر کچھ اَور کہا تو میں چونتیس دانت توڑ دوں گا۔ اس پر ایک تیسرے صاحب، جو قریب ہی کھڑے تھے، بول اٹھے کہ جناب! دانت تو بتیس ہوتے ہیں۔ اس پر جواب مِلا کہ مجھے معلوم تھا کہ تم بِیچ میں ضرور بولو گے۔ اسی لیے دو دانت تمہارے بھی شامل کیے ہیں! بس یوں سمجھ لیجیے کہ جس امریکن صدر نے ’’صرف‘‘ بتیس دانتوں پر اکتفا کی، نوبیل کا حقدار ٹھہرا!