جتنی دنیا میں نے آج تک دیکھی ہے،اس میں ابھی تک کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں ملا، جس کا ایک ہی چہرہ ہو یا کسی نے ایک ہی کردار میں زندگی جی ہو، یہ قانون فطرت ہے ،گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ انسان کو نئے نئے کرداروں میں ڈھلنا پڑتا ہے، ہم سب ہی ایک معصوم بچے کی شکل میں پیدا ہوتے ہیں، ہمارا جنم فرشتوں کی طرح پاکیزہ ہوتا ہے جس کے بعد زندگی ہمیں انگلیوں پہ نچانا شروع کر دیتی ہے، کسی کے اندر کا فرشتہ اجل کی جانب واپسی تک اس کے ساتھ رہتا ہے، کسی کو وہ فرشتہ بچپن میں ہی چھوڑ جاتا ہے، کوئی اس فرشتے سے جوانی میں اور حکمرانی میں چھٹکارہ پا لیتا ہے، ہم بہت آسانی سے دوسروں کے لئے نیکی اور بدی کے سرٹیفکیٹ جاری کر دیتے ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ کسی بھی انسان کو کوئی دوسرا انسان سو فیصد جان سکتا ہے، اسی لئے کہتے ہیں کہ اپنے بندوں کو صرف خدا جانتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ مجھے ایک بار ماضی کی رقاصہ اور اداکارہ پنا نے بتایا تھا کہ لوگ بد قسمت رہے کہ انہوں نے اس نور جہاں کو نہیں سنا جو رات دیر گئے نور جہاں کے اندر سے باہر نکل آتی تھی، ان لمحات میں میڈم بہت سے دوستوں کو فون کرکے گھر بلوا لیا کرتی تھیں اور پھر وہاں جو سر وہ بکھیرتی تھیں، وہ مافوق الفطرت ہوتے، سننے والے کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاتے جہاں صرف موسیقی کی حکمرانی ہوتی تھی۔ ٭٭٭٭٭ وہ مجھے نوے کی دہائی میں شاہنور اسٹوڈیوز میں سید شوکت حسین رضوی کے گھر ملا تھا ، ڈرائنگ روم میں نیو ائیر نائٹ پارٹی چل رہی تھی ، میرے ساتھ ،صدارتی ایوارڈ یافتہ پینٹر مصطفی، میجر رشید وڑائچ اور چوہدری قیوم بھی تھے، وہاں پارٹی والے سب لوازمات موجود تھے، اس دور کے ایک معروف پروڈیوسر کے ساتھ بیٹھا ہوا شخص جس بے دردی سے رقاصاؤں پر نوٹ لٹا رہا تھا ، وہ میرے لئے ناقابل برداشت تھا ،میں ہی نہیں میرے ساتھی بھی خالی جیب تھے ، مجھے احساس ہوا جیسے نوٹوں کی نمائش کرکے ہماری توہین کی جا رہی ہے، میں نے بہت اونچی آواز میں اپنے دوست پروڈیوسر سے پوچھا،یہ سب کیا ہورہا ہے؟۔شاہ جی ، یہ محفل ہے، جو آپ جیسے دوستوں کے لئے سجی ہے، دوست پروڈیوسر کے جواب کے ساتھ ہی ان کے ساتھ بیٹھا ہوا وہ شخص جو بے تحاشہ نوٹ لٹا رہا تھا،، اٹھا اور میری جانب بڑھنے لگا، اس آدمی نے لٹھے کی شلوار اور بوسکی کی قمیض پہن رکھی تھی، چلنے کا انداز بد معاشوں جیسا تھا، میرے دماغ میں آیا کہ یہ مجھ پر حملہ آور ہو سکتا ہے، میں نے حفظ ماتقدم کے طور پر اسے اپنے قریب پہنچتے ہی گھونسہ رسید کر دیا، میرا زور دار ہاتھ اس کی ناک پر لگا ، اس کی نکسیر پھوٹی اور سارے کپڑے خون سے آلودہ ہو گئے ، ایک اور آدمی زوردار دھماکے کے ساتھ زمین پر گرا ،ہارٹ اٹیک، ہارٹ اٹیک کی آوازیں ابھریں شوکت رضوی صاحب اٹھ کر گھر کے اندر چلے گئے ، مجھے میڈم یاسمین پردے سے ڈرائنگ روم میں جھانکتی ہوئی نظر آئیں ، میں جلدی سے ان کے پاس پہنچا ، میڈم نے کہا ،،تم اندر آجاؤ، میں نے اپنے ساتھیوں کو بھی اشارہ کیا اور اس طرح ہم عقبی راستے سے باہر آنے میں کامیاب ہو گئے۔ ٭٭٭٭٭ اگلے دن سہ پہر مجھے ایک کال آئی ، کوئی شخص مجھ سے معافی مانگ رہا تھا، یہ تو وہی تھا جو پچھلی رات میرے گھونسے کا شکار ہوا تھا،میں سوچ میں پڑ گیا کہ زیادتی تو میری تھی، معافی یہ مانگ رہا ہے؟ اس کا کہنا تھاکہ وہ میرا اور میرے کارناموں کا بہت گرویدہ ہے، اور پچھلی رات سارا قصور اسی کا تھا،یہ تھا…عارف سہیل…عارف سہیل کا تعلق گجرات سے تھا، دو چار فلمیں پروڈیوس کر چکا تھا،،،، روپیہ اس کے پاس پانی کی طرح آرہا تھا، کیونکہ وہ اسلام آباد میں ایک جعلی ہاؤسنگ سوسائٹی چلا رہا تھا،،، شاہ نور اسٹوڈیوز میں سرور بھٹی صاحب والا دفتر اب اس کے پاس تھا، دفتر کی دیواروں پر ملکہ ترنم نور جہاں کی بڑی بڑی تصویریں آویزاں تھیں، میری اور اس کی دوستی ہو گئی اور میں نے کبھی کبھار اس کے آفس جانا شروع کر دیا، ایک دن نور جہاں کا بڑا بیٹا اس کے پاس آیا ، عارف سہیل کو اس نے ڈیڈی کہہ کر مخاطب کرتے ہوئے پیسوں کا تقاضہ کیا جو پورا کر دیا گیا۔پھر کئی واقعات سے ثابت ہوتا رہا کہ وہ نورجہاں کی قید میں ہے اور یہ قید اس نے بہت انویسٹمنٹ کرکے خود خریدی ہے۔ پھر ایک دن وہ مجھے شادمان میں اپنے گھر لے گیا ، یہاں وہ اپنی دوسری بیوی اور دو بیٹیوں کے ساتھ رہ رہا تھا ، اندر سے پیپلز پارٹی کا جیالا تھا ، اسی لئے بیٹیوں کے نام ، بینظیر اور صنم رکھے ہوئے تھے، عارف سہیل کے پہلی بیوی سے جوان بچے تھے، جبکہ اس کی دوسری بیوی کے بھی پہلے شوہر سے ایجڈ بچے تھے. ایک رات وہ بہت ،پرواز، میں تھا ، جب اس نے مجھے یہ کہانی سنائی۔ ٭٭٭٭٭ اس کا باپ کبھی نور جہاں کا ڈرائیور تھا ،ملازمت کے دوران وہ میڈم پرعاشق ہوگیا ، غریب ہی نہیں ان پڑھ بھی تھا ،کئی سال کی ملازمت کے دوران اس نے بہت کچھ دیکھا ، مگر نور جہاں کو اپنا حال دل نہ سنا سکا، جب نور جہاں نے اسے ملازمت سے فارغ کیا تو وہ واپس گجرات آ گیا اور دنوں کے اندر اندر بستر سے جا لگا ، نو عمر بیٹا باپ کی داستان محبت سے واقف تھا کیونکہ یہ بات سارا گاؤں بھی جانتا تھا، وہ جانتا تھا کہ اس کا باپ لا علاج مرض میں مبتلا ہے،اور نور جہاں کے مطب سے اسے کبھی دوا نہیں ملے گی، وہ باپ کی محبت کو باپ کے پاس لانے کے عزم کے ساتھ لاہور آگیا، لاہور میں نوید بٹ کا شاگرد بنا، نوید بٹ ان دنوں شیخ شفاعت کے فلمی ہفت روزہ اجالہ کا ایڈیٹر تھا، فلمی صحافی اس دور میں( چند لوگوں کو چھوڑ کر ) ان پڑھ ہی ہوا کرتے تھے، عارف سہیل لوگوں سے تعلقات بناتا رہا، کچھ ہی عرصے بعدوہ ایک مکمل کاری گر شخص بن چکا تھا، ہر آدمی کو شیشے میں اتار لینے والا، پھر اس نے فلم ایکٹنگ اکیڈمی بنانے کی بھی کوشش کی ، مختلف راہوں پر چلتے چلتے آخر کار اس کا تیر نشانے پر لگا اور وہ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کا مالک بن کر ان گنت سرمایہ سمیٹنے لگا، نوٹوں سے بھرے بریف کیس اس کے ہاتھ میں رہنے لگے تو اس نے نور جہاں پر بھی جال پھینک دیا، وہ اپنی عمر سے بڑے نور جہاں کے بیٹوں کا ڈیڈی بن گیا…ایک روزعارف سہیل نے نور جہاں کو بتایا کہ گجرات میں اس کے پوتے کی سالگرہ ہے ، اور وہ اس کے ساتھ جائے گی، نور جہاں مان گئی۔۔ نور جہاں کو پورے گھرانے کے لئے تحائف خرید کر دئیے گئے ، عارف سہیل کے باپ کو فالج ہو چکا تھا ، وہ بولنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکا تھا ، عارف نے اپنے والد کے لئے قیمتی اشیاء خریدیں جو نور جہاں نے اپنی طرف سے اس کے باپ کو پیش کرنا تھیں۔ عارف سہیل جب نور جہاں کے ساتھ اپنے گھر گجرات پہنچتا ہے تو اس نے وہاں فنکشن کی مکمل وڈیو فلم بنانے کا بھی بندوبست کر رکھا تھا،،( وہ وی ایچ ایس وڈیو میرے پاس محفوظ ہے کیونکہ کہانی سناتے سناتے حالت مدہوشی میں اس نے وہ وڈیو مجھے تھما دی تھی) اگلے ہی دن میں نے وہ وڈیو دیکھی، اس وڈیو میں نور جہاں کا عارف سہیل کے گھر پہنچنے پر ڈھول بتاشوں سے بھرپور استقبال ہوتا ہے، وہ عارف سہیل کی بیوی ، بیٹیوں بیٹوں اور پھر ان کے بچوں میں تحائف تقسیم کرتی ہے ، اہل خانہ کی فرمائش پر گانا بھی سناتی ہے ، اور پھر وہ لمحہ آتا ہے جب نور جہاں اپنے بیمارعاشق ڈرائیور کے کمرے میں داخل ہوتی ہے، نور جہاں کو شاید نہیں معلوم تھا کہ وہ جس آدمی کے قدموں کو احتراماً ہاتھ لگا رہی ہے وہ کئی سال اس کا ڈرائیور رہ چکا ہے ،( لیکن میرے خیال میں یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک انتہائی جہاں دیدہ عورت نے اسے پہچانا نہ ہو) وہ یہاں اپنے ایک انوسٹر کے باپ کو تحائف دینے آئی تھی۔ پرانے ڈرائیور کو نہیں… میں نے وڈیو میں دیکھاکہ نور جہاں جب اس فالج زدہ بوڑھے کے چہرے کو ہاتھوں میں لے کر اس کی صحت یابی کی دعا کرتی ہے تو اس نحیف کی آنکھوں سے ایک آنسو گرتا ہے جو اس بیمار کے چہرے کو منور کر دیتا ہے۔