شہباز شریف کے انکشافات تو خیر ان کی غلط فہمیاں تھیں اصل انکشاف تو ہمارے سینئر کالم نگار ہارون الرشید صاحب نے کیا ہے۔ انہوں نے بتا دیا کہ نواز شریف نے لندن جانے کی ڈیل کی۔ اس ڈیل میں بیماری کے سرٹیفکیٹس تیار کروانے اور لوگوں کو مینج کرنے پر جانے کتنے لاکھ ڈالر خرچ ہوئے، انہوں نے صرف باہر جانے کے عوض 500ملین ڈالر ریاست کو ادا کیے۔ ان میں 450ملین ڈالر کے لگ بھگ رقم براہِ راست سٹیٹ بینک کو جمع کرائی گئی۔ ہارون الرشید صاحب نے یہ خبر پوری ذمہ داری سے 92نیوز پر اپنے پروگرام میں بریک کی۔ اس خبر پر مسلم لیگ ن اور اس کی صف سوم کی قیادت کا ردعمل اس طرح آیا کہ:میاں نواز شریف دیانت دار وزیر اعظم تھے۔ انہیں مشکلات سے نکلنے کے لیے 500ملین ڈالر ادا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ایک ردعمل یوں سامنے آیا:اگر یہ خبر درست ہے تو پھر عمران خان کو قصوروار قرار دیا جائے کہ انہوں نے محض 500ملین ڈالر کے لیے نواز شریف کو جانے دیا۔ ایک حلقے کا کہنا ہے کہ اگر اس خبر کو درست مان لیا جائے تو پھر ماننا پڑے گا کہ پاکستانی میڈیا محض سنسنی خیزی کے لیے ایسی خبریں نہیں دیتا۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہارون الرشید جیسے سینئر صحافی ہوا میں باتیں نہیں کر سکتے۔ ایک گروپ کہہ رہا ہے کہ یہ کیسی خبر ہے جس کا کوئی قانونی ثبوت موجود نہیں۔ قانونی مباحث میں کئی بار ایسا موڑ آ جاتا ہے جب کسی واردات کو کہانی کی شکل میں بیان کرنا پڑتا ہے۔ کہانی کا آغاز ہم ان دنوں سے کر سکتے ہیں جب میاں نواز شریف سخت علیل بتائے جا رہے تھے، ان کے پلیٹ لیٹس لاکھوں سے کم ہو کر محض چند ہزار تک آ گئے۔میرے سامنے 14 نومبر 2019 ء کا اخبا ر ہے، اس کی شہ سرخی ہے: نواز شریف کی بیرون ملک روانگی : شورٹی بانڈ پر ڈیڈ لاک۔ حسین نواز کا بیان بھی شائع ہوا کہ نواز شریف نے ایک بار پھر شرائط کے ساتھ باہر جانے سے انکار کر دیا۔ پلیٹ لیٹس22 ہزار ہوئے تو ڈاکٹروں کی جان پر بن آئی، ان سے زیادہ عمران خان کی نوزائیدہ حکومت پریشان ہو گئی کہ نواز شریف سچ میں سنگین امراض کا شکار نکلے اور انہیں کچھ ہو گیا تو تحریک انصاف ایک مقبول رہنما کی موت کا سیاسی بوجھ کس طرح برداشت کر پائے گی۔ بھٹو کی موت نے ضیاء الحق کو کچھ وقت ضرور دیا مگر بھٹو کی موت کا بوجھ جس جس کے سر پڑا وہ سیاسی تاریخ کا ولن بن گیا۔ بے نظیر بھٹو کی موت نے پرویز مشرف کی مضبوط گرفت کو ختم کر دیا۔ حالات اس نہج پر آ پہنچے کہ پرویز مشرف کو پیپلزپارٹی کے ساتھ الگ سے ایک مفاہمتی معاہدہ کرنا پڑا۔ اس مفاہمت کے نتیجے میں پرویز مشرف کو محفوظ راستہ دیا گیا اور آصف علی زرداری کو بطور صدر قبول کرنے کی حامی بھر لی گئی۔ عوام کو سودے بازی کی تفصیلات نہیں بتائی جاتیں۔ کوئی فریق بھی یہ نہیں چاہتا کہ عوام درپردہ معاملات اور کرداروں سے واقف ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کچھ عرصے بعد حقائق کسی کونے کھدرے سے سر نکالنے لگتے ہیں تو سب انہیں جھٹلانے لگتے ہیں۔ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کا ریکارڈ اس معاملے میں اچھا نہیں۔ پرویز مشرف نے انہیں وزارت عظمیٰ سے غلط طریقے سے ہٹایا لیکن نواز شریف نے جدہ جانے والے معاہدے سے مسلسل انکار کر کے اپنے ووٹرز اور قوم کے ساتھ جھوٹ بولا یہ تو ثابت شدہ ہے۔ نواز شریف جیل میں بیمار ہوئے، مسلم لیگ ن نے جیل میں خصوصی ایمبولینس کھڑی کرنے کا مطالبہ کیا، حکومت نے جیل وارڈ کی حالت بہتر بنائی۔ ڈاکٹر تعینات کر دیئے۔ پھر مرض بڑھنے لگا جوں جوں دوا کی، سروسز ہسپتال میں علاج کے لیے جانے لگے، ضد کی کہ ہسپتال میں رکھا جائے، خصوصی وارڈ بنا دیا گیا جہاں بیڈ، کھانے کا بڑا ٹیبل، صوفے اور دوسرا سامان سجا دیا گیا۔ پرہیزی کھانے کی بجائے مرغن کھانے ڈٹ کر کھائے۔ مریم نواز کو بھی بلانے کی ضد کی جو پوری ہو گئی۔ اب کھیل آخری مرحلے میں داخل ہوا۔ پلیٹ لیٹس تیزی سے کم ہونے لگے۔ کسی ڈاکٹر کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ نواز شریف نے اپنے معالج کو تمام امور کا نگران بنا دیا۔ یہ ڈاکٹر نئی نئی مشکل طبی اصطلاحات سے بیماری کی سنگینی بتاتا ہے حکومت نے ڈاکٹروں کا پورا بورڈ تعینات کر دیا۔ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد اور شوکت خانم ہسپتال کے ڈاکٹر فیصل سلطان نے بھی رپورٹس ملاحظہ کیں۔ حکومت نے ملک میں دستیاب بہترین سہولیات فراہم کرنے کا وعدہ کیا لیکن مریض اور اس کے لواحقین لندن سے کم کسی جگہ جانے کو تیار نہ تھے۔ آخرشدید بیمار بتائے جانے والے نواز شریف آرام سے چلتے ہوئے جہاز پر سوار ہوئے۔ کچھ باخبر لوگوں نے ڈیل کی بات کی لیکن انہیں یہ کہہ کر ڈرایا گیا کہ عدالتی اجازت نامے پر اعتراض سے توہین عدالت لگ سکتی ہے۔ ممکن ہے جس طرح صوبائی وزیر صحت اور ڈاکٹر فیصل سلطان کو اندھیرے میں رکھا گیا، ثبوت اور میڈیکل رپورٹس پر انحصار کرنے والی عدالتوں کو بھی اصل معاملے کی ہوا نہ لگنے دی گئی ہو۔ پھر سوال یہ ہے کہ اس معاملے میں کون لوگ کھیل کا حصہ تھے؟ ہم نے یہی پڑھا ہے کہ ریاست کی کوئی مجبوری نہیں ہوتی صرف مفاد ہوتا ہے۔ یہ ریاست کا مفاد ہوتا ہے کہ سپاہی سرحد پر شہید ہونے کو تیار رہتا ہے، یہ ریاست کا مفاد ہوتا ہے کہ مجرموں کو قید کیا جائے۔ یہ ریاست کا مفاد ہوتا ہے کہ اسے قانون اور آئین کے مطابق چلایا جائے۔ اگر ریاست کی مجبوری کا معاملہ ہو تو وہ سب سے پہلے اس سپاہی کو بچائے جو اس کے لیے جان دینے کو تیار ہے۔ پھر ایک شخص، ایک خاندان اتنا اہم کیوں کہ بار بار کئے جرائم پر سودے بازی کر لی جاتی ہے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر ایسا سیاستدان بے گناہ ہے اور کسی بین الاقوامی دبائو کے باعث اسے مجرم بنایا جاتا ہے تو پھر عوام کو بتایا کیوں نہیں جاتا۔ ہارون الرشید صاحب نے جو انکشاف کیا ہے اس کا جواب تاحال نہیں آیا۔اس ڈیل کا ایک نکتہ میرے علم میں آیا تھا کہ مسلم لیگ ن کی صدارت نواز شریف سے لے لی جائے گی۔ جانے ڈیل کی پوری تفصیل کب سامنے آئے۔