معاشرے میں جس طرح کا نظام زر ہو گا اس کا سیاسی ڈھانچہ بھی ویسا ہو گا۔ گندم ‘ چاول اور گڑ صدیوں تک ہماری کرنسی رہے ہیں آج بھی دور دراز کے کسان اجناس کے بدلے ضروریات زندگی خریدتے ہیں۔ اس عہد کے نظام میں جاگیردار کی مدد کے لئے کئی طرح کے عمال حکومت تھے۔ انگریز نے تھوڑا سا نظام بدلا۔ جاگیر دار کی بادشاہت برقرار رکھی بلکہ اسے موروثی اور قابل انتقال بنا کر مزید طاقتور کر دیا۔ اس کی مدد کے لئے ڈپٹی کمشنر‘ تحصیلدار‘ قانونگو‘ پٹواری‘ نمبردار اور چوکیدار پر مشتمل انتظامی مشینری ترتیب دی۔1973ء کا آئین متفقہ ضرور تھا مگر اس کے حق میں ووٹ دینے والے کئی گروپ داخلی تضادات کا شکار ہو چکے تھے۔ تحریک پاکستان کے وقت جاگیردار اور مذہبی جماعتوں کو عام مسلمانوں نے مسترد کر دیا تھا۔ یہ دونوں نئی صف بندی کرکے ایک دوسرے کے اتحادی بن گئے یوں 1973ء کے آئین نے دو بڑے استحصالی گروہوں کو ایک بار پھر طاقتور بنا دیاہم اسی آئین کی رو سے بنائے گئے نظام میں اپنے سیاسی ‘ جمہوری اور بنیادی حقوق کا ماتم کرتے ہیں۔ 1989ء کے عام انتخابات ہوئے۔ بے نظیر بھٹو قومی اسمبلی میں اکثریتی جماعت کی سربراہ کے طور پر داخل ہوئیں۔ جنرل اسلم بیگ اور غلام اسحاق خان فوجی اور سویلین بیورو کریسی کے نمائندے تھے۔ 1973ء کے آئین کے تحت اقتدار پیپلز پارٹی کا حق تھا لیکن صدر مملکت نے بے نظیر بھٹو کو حکومت بنانے کی دعوت دینے میں کئی ہفتے لگا دیے۔ اسلم بیگ جمہوریت پسند جرنیل کہلاتے رہے‘ بعدازاں انہیں تمغہ جمہوریت بھی دیا گیا‘ بے نظیر سے کہا گیا کہ وہ کشمیر کے معاملے پر خاکی بیورو کریسی کی پالیسی کی تائید کریں گی‘ وزارت خارجہ اور سٹریٹجک نوعیت کی تعیناتیوں پر ان کو اختیارات سے دستبرداری پر آمادہ کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو سوشلسٹ تھیں۔ امریکہ کچھ یقین دہانیاں چاہتا تھا۔ بے نظیر کو آمادہ کرنے والوں نے انہیں رضا مند کر لیا کہ وہ فری ٹریڈ اور نجکاری کی عالمی پالیسیوں کو پاکستان میں نافذ کریں گی۔ بے نظیر ہر حال میں اقتدار چاہتی تھیں اس لئے انہوں نے وہ فیصلے کر لئے جو ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسی کے خلاف تھے۔ امریکہ ہر جگہ فوج نہیں بھیجتا کچھ ملکوں پر اس کی یلغار’’ڈومور‘‘ کی صورت میں ہوتی ہے۔ پاکستان میں ڈومور کا مطالبہ پورا کرنے والوں نے زرعی معاشرے کو صنعتی معاشرہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ ملک کے طول و عرض میں اجناس کی کرنسی بند کرنے اور سارا منافع عالمی ساہوکار امریکہ کے حوالے کرنے کی خاطر سڑکوں‘ ٹرانسپورٹ اور بینکوں کا نیٹ ورک پھیلانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک نے ہمیں آسان قرضے دیے۔ انہیں معلوم تھا کہ سوشلسٹ سوچ کی مالک بے نظیر بھٹو اس منصوبہ بندی میں کارآمد نہیں ہوں گی اس لئے شہری انڈسٹریل کلاس کو طاقتور بنانے کا فیصلہ ہوا۔ اس کلاس کو نوٹ گننے اور منافع اکٹھا کرنے کے عمل نے بے حس بنا دیا ہے۔ یہ بے حسی اب عالمی قوتوں کے لئے کارآمد ثابت ہو رہی تھی۔ نواز شریف کو آگے لایا گیا اور 2018ء تک وہ اس ملک کے نظام زر اور نظام معیشت کو اسی طرح ترقی دیتے رہے کہ منافع عالمی ساہو کاروں کے اکائونٹ میں منتقل ہونے میں سہولت ہو گئی۔ نواز دور میں سٹاک مارکیٹ کا اوپر جانا‘ بینکوں کے منافع میں اضافہ ہونا اور ترقیاتی منصوبوں کا مکمل ہونا سچ ہے لیکن اس سچ کا تجزیہ اس کسوٹی پر ضرور کیا جانا چاہیے کہ منافع میں سے پاکستان کو کیا ملا؟ نواز شریف کو دوسری بار زوال اس لئے آیا کہ انہوں نے اپنی کلاس اور اپنے سرپرستوں کے حصے کا منافع ذاتی اکائونٹ میں ڈالنا شروع کر دیا۔ عام آدمی پہلے ہی ایک سیاسی جبر کے باعث نواز شریف سے منسلک تھا۔ اقتدار نے اس جبر کا خاتمہ کر دیا نتیجہ یہ کہ برسر اقتدار نواز شریف لاکھوں کے مجمع سے خطاب کرتا تھا‘ معزول نواز شریف جی ٹی روڈ پر ووٹ کو عزت دو کے نام پر چند ہزار افراد بھی اکٹھے نہ کر سکا۔ عمران خان کے لئے خطرہ یہ نہیں کہ ان کے اتحادی نئی درد سری پیدا کر رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں میں نظام زر کو ان طاقتوں کے مفادات کے خلاف استوار تو نہیں کر رہے جو حکومتیں گراتی اور بناتی ہیں۔؟ سیاست صرف شریف ہونے کے معیار کو تسلیم نہیں کرتی‘ معاملات کو ہر گوشے سے جانچنے کی صلاحیت‘ رفقاء کو اپنی قیادت پر مطمئن کرنا‘ عوامی توقعات کے مطابق انتظامی صلاحیتوں کا اظہار اور اپنی و مخالفین کی صفوں میں ابھرتی ہر سوچ کو اپنے استحکام کا ذریعہ بنانے کی استعداد جمہوری عہدوں کا بنیادی تقاضہ ہے۔ پنجاب کو اگر صرف شریف قیادت دی گئی ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ لوگ شہباز شریف کو یاد کرتے رہیں۔ وہی شہباز شریف جو اس وقت اپنے بیٹے‘ داماد‘ بھائی‘ بھائی کی بیٹی ‘بھائی کے سمدھی اور بھائی کے دو بیٹوں کے ساتھ لندن میں بین الاقوامی نظام زر کے محافظوں کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ نواز شریف ہوٹل میں کھانا کھاتے ہیں‘ حامد کرزئی ان سے ملنے آتے ہیں‘ ڈاکٹر ملیحہ لودھی عیادت کے لئے آتی ہیں تو خبریں بن گئیں۔ حسین نواز نے لندن میں مقیم ترک سفیر سے فرمائش کی کہ وہ نواز شریف کی عیادت کے لئے پارک لین آئیں‘ کویتی سفیر سے بھی یہی درخواست کی گئی۔ دونوں نے ایسا کرنے سے معذرت کر لی۔ مقامی انگریز رہائشیوں نے لندن انتظامیہ کو درخواست دی ہے کہ پاکستانی میڈیا کے جو لوگ نواز شریف کے گھر کے سامنے ہجوم کئے رکھتے ہیں انہیں وہاں سے ہٹایا جائے۔پاکستانی ہائی کمشن لندن کے اہلکار علاج کے لئے آئے قیدی سے کیا کہہ رہے ہیں۔ شریف خاندان نے کن کن دروازوں پر دستک دی ہے اور کہاں کہاں سے انہیں مدد کی یقین دہانی کرائی گئی یہ تو معلوم نہیں مگر لوگ بتا رہے ہیں کہ شریف خاندان وہ ہسپتال ضرور ڈھونڈناچاہتا ہے جہاں ان کی سب بیماریوں کا علاج ہو سکتا ہو۔