مسلم لیگ (ن) میں مختلف رہنمائوں کے درمیان محاذ آرائی عروج پر ہے لیکن بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ چائے کی پیالی میں طوفان ہے،مسلم لیگ (ن) میں ایک ہی گروپ ہے اور وہ ہے میاں نواز شریف کا، اگر وہ بڑھک ماریں تو شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی اور مریم نواز جیسے شیر پل بھر میں شیر قالین بن جائیں گے۔ شہباز شریف بارہا کہہ چکے ہیں کہ میں بڑے بھائی جان کے تابع ہوں، ان کے حکم اور رہنمائی کے مطابق ہی آگے چلتا ہوں لیکن بھائی جان مست ہیں اور لندن کی کافی شاپس میں بیٹھے مٹی کے مادھو بنے ہوئے ہیں وہ اپنے پتے سینے سے لگا کر بیٹھے ہیں لیکن اس میکاولی طرز کی سیاست سے پارٹی کو کتنا فائدہ پہنچا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ میاں صاحب اپنے آپشنز کو کھلا رکھنا چاہتے ہیں لیکن اس سے پارٹی رہنمائوں کا مورال متاثر ہو رہا ہے ،شہباز شریف جو پارٹی کے صدر ہونے کے علاوہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی ہیں پوری طرح موثر کردار ادا نہیں کر پارہے۔اس کا ایک مطلب تو یہ لیا جا رہا ہے کہ نواز شریف اپنی صاحبزادی کا سیاسی قد کاٹھ کم نہیں کرنا چاہ رہے لیکن اس کا ایک گہرا اور دوررس یہ مطلب بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ میاں صاحب خود مقتدر قوتوں کے حوالے سے اپنی ترجیحات کھلی رکھنا چاہتے ہیں۔لگتا ہے کہ باامر مجبوری انہیں شہباز شریف کے بیانیے کو ماننا پڑا کیونکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار بھی نہیں تھا۔ شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کے مسلسل پابند سلاسل ہونے اور خود نواز شریف اور ان کی فیملی کی لمبے عرصے تک بیرون ملک خود ساختہ جلاوطنی کی بنا پر پارٹی شتربے مہار ہوتی جا رہی تھی۔ اس صورتحال میں لڑائی کر کے اقتدار میں واپس آنا ممکن نظر نہیں آرہا اور کوئی بیک چینل کھولنا ضروری تھا اور اس کام کے لیے شہباز شریف کو فعال کرنا ضروری تھا تاکہ وہ جیل سے باہر آئیں اور اپنا رول ادا کریں۔ میاں صاحب کی سوچ میں تبدیلی کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں ،ایک تو یہ کہ مسلم لیگ (ن) کو خود ہی یہ احساس ہو جائے کہ پنجاب میں اس کی عمومی مقبولیت خاصی حد تک برقرار ہے جس کا بین ثبوت صوبے میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج ہیں جن میں پارٹی کو بھرپور کامیابی ملی اور حکمران جماعت تحریک انصاف کوبری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔دوسرا یہ کہ اس ماحول میں پارٹی کے اندر خلفشار نقصان دہ ثابت ہو رہا تھا بالخصوص شاہد خاقان عباسی کے بطور سیکرٹری جنرل پی ڈی ایم پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کرنا خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اس تمام معاملے میں مریم بی بی کا رول حب علی سے زیادہ بغض معاویہ کی نشاندہی کرتا ہے۔ وہ اپنے چچا کی لیڈرشپ کو قبول کرنے کو ہرگز تیار نہیں، حتٰی کہ ان کی صدارت میں کسی اجلاس یا تقریب میں شرکت کرنے سے مسلسل گریزاں ہیں۔ وہ عباسی صاحب کی غلط حمایت کر رہی ہیں۔ میاں صاحب بھی نظریاتی طور پر اپنے برادرخورد کی لائن سے پوری طرح متفق نہ ہونے کے باوجود معروضی حالات دیکھتے ہوئے انہیں آشیرباد دینے پر مجبور ہیں۔ اب میاں نواز شریف بھی تماشا دیکھنے کے بجائے فیصلہ کن کردارادا کریں، انہیں اپنے پارٹی صدر کی بھرپور حمایت کرنی چاہیے اور پارٹی کی باغی لیڈرشپ بالخصوص صاحبزادی کو سمجھانا چاہیے۔ ہفتے کو پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس ہوا،اچھا کیا مریم نواز نے بھی اس میں شرکت کی،اگر وہ میاں نواز شریف کی مرضی سے اجلاس میں شریک ہوئی ہیں تو یہ اور بھی اچھی بات ہے کیونکہ کئی لوگ کافی عرصے سے یہ پیش گوئی بلکہ اپنی خواہشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ ن سے ش نکلے گی اور ن لیگ کا شیرازہ بکھر جائے گا۔دوسری طرف چچا بھتیجی میں اختلافات کی باتیں دم توڑ گئی ہیں۔ تاہم پی ڈی ایم میں پاکستان پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی واپسی کے حوالے سے مریم نواز اور مسلم لیگ ن کی مخالفت سمجھ سے بالاتر ہے۔ن لیگ کی سینئر اور نوجوان قیادت کو اس پر نظرثاتی کی ضرورت ہے، پی پی بھی دوسرے بڑے صوبے کی حکمران جماعت اور دیہی سندھ میں اس کی جڑیں کافی مضبوط ہیں۔