اس بار وزیراعظم عمران خان کراچی آئے تو مجھے نوے کی دہائی کی سیاست یاد آگئی۔ تاریخ کس طرح خود کو دہراتی ہے ،یہ سوچ کر بھی حیرت ہوتی ہے اور یہ بھی سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ زمانہ بدل گیا لیکن ہماری سیاست کے رنگ ڈھنگ نہیں بدلے۔ نوے کی دہائی میںجب بی بی شہید وزیراعظم اور میاں نوازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تووزیر اعظم جب بھی لاہور تشریف لاتیں ،پنجاب کے وزیراعلیٰ نے ایک بار بھی ان کے استقبال کے لئے ایئرپورٹ جانا گوارا نہیں کیا۔ نوے کی دہائی کی وہ سیاست کرداروں کے ہیر پھیر سے ایک بارپھرپلٹ آئی ہے جب سے مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت بنی ہے وفاق اور سندھ میں سرد جنگ کی کیفیت ہے۔ وزیر اعظم اسمبلی کی طرح پاکستان کے معاشی حب کراچی کو بھی کم وقت دیتے ہیں لیکن جب بھی آتے ہیں تو ایئرپورٹ پران کے خیرمقدم کے لئے سندھ کا جیالا وزیراعلیٰ موجود نہیں ہوتا۔ سندھ کے گورنر ہائوس اور وزیراعلیٰ ہائوس میں فاصلے ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں،ان فاصلوں کو بڑھانے میں وفاقی وزرا سید علی زیدی،فیصل واوڈا ،سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے پارلیمانی رہنما حلیم عادل شیخ اور رکن سندھ اسمبلی خرم شیرزمان پیش پیش رہتے ہیں۔سید مراد علی شاہ، عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے چودہ مہینوںمیں صرف ایک بار ایئرپورٹ گئے تھے اور وزیر اعظم کاا ستقبال کیا ۔ اس کے بعدوہ مسلسل وزیراعظم کی کراچی آمد کو نظرانداز کر رہے ہیں۔اس کا فوری جواب تو انہیں یہ ملتا ہے کہ وہ وفاق کے نمائندوں کی سندھ کے وفاقی منصوبوں سے متعلق اجلاسوں کی نمائندگی سے محروم کردیئے جاتے ہیں۔ وفاق اور سندھ کی اس لڑائی میں کبھی کبھی صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ثالث کا کردار نبھاتے ہیں اور بیچ میں پڑ کرسندھ کے دونوں بڑوں کی صلح کرادیتے ہیں لیکن چند دن بعد دونوں سیاسی فریق ایک بار پھر مدمقابل آجاتے ہیں۔ ایک زمانے میں پیپلز پارٹی اس کام میں بدنام تھی کہ وہ جب بھی وفاق میں برسراقتدار آتی ہے تو کسی صوبے میں حزب مخالف کی حکومت برداشت نہیں کرتی۔ بھٹو صاحب نے خود اپنے دور اقتدار میں بلوچستان اور سرحد کی حکومتیں گھر بھیج دی تھیں جسے بہت تنقید کا نشانہ بنایا گیااور تاریخ میں ان کا یہ اقدام منفی انداز سے لیا گیا۔ عمران خان تبدیلی کاا ستعارہ لے کر کارزار سیاست میں اترے تھے لیکن ان کا حوصلہ بھی شاید جواب دے گیا ہے اور وہ روایتی سیاست کے سمبل بنتے جا رہے ہیں۔ ملک کے تین صوبوں میں ان کی حکومت موجود ہے، انہیں اس کامیابی پر اکتفا کر کے پیپلزپارٹی کو موقع دینا چاہئے کہ وہ سندھ میں ڈیلیور کر کے دکھائے ، اگر اس بار بھی جیالی حکومت نے یہ آخری موقع گنوا دیا اور سندھ کے عوام کو مایوس کیا تو اگلی بار ان کے ساتھ وہی ہوگا جو لیاری اور لاڑکانہ میں ان کے ساتھ ہوچکا ہے۔ اپنے اقتدار کے چودہ مہینوں میں تحریک انصاف تین بار سندھ حکومت پرحملہ آور ہوئی لیکن کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکی۔ پہلی بار تو سندھ میں وفاق کے نمائندے گورنر سندھ عمران اسماعیل نے پیپلزپارٹی کو حکومت سے محروم کرنے کی ذمہ داری سنبھالی تھی لیکن وہ پہلے ہی مرحلے میں پیچھے ہٹ گئے اور وزیر اعظم سے مزید مہلت مانگ لی تھی لیکن ہر بار تحریک انصاف کے کراچی سے تعلق رکھنے والے جذباتی وفاقی وزرا اور گورنر سندھ نے یہ کوشش کرکے دیکھ لی مگر جیالی حکومت ڈٹی رہی۔تحریک انصاف کی قیادت اس حقیقت سے ناآشنا ہے کہ غیر جمہوری طریقے سے پیپلزپارٹی کو دیوار سے لگانے کے پیپلزپارٹی کو سیاسی فائدے ملیں گے اور ملک کی ایک اکائی کی وفاق سے وابستگی کی روح کو بھی دھچکا لگے گا ۔ اس باروزیر اعظم عمران خان کو سندھ انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (SIDCL) کی کراچی میں وفاقی حکومت کی طرف سے جاری منصوبوں پر پیش رفت کے حوالے سے بریفنگ بھی دی گئی۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس کمپنی کے تحت کراچی پیکیج میں شامل منصوبوں پر کام کی رفتار تیز کرنے کی ہدایت کی۔ترقیاتی منصوبوں سے متعلق گورنرہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں حکومت سندھ کی نمائندگی کے سوال پروفاقی وزیرخسرو بختیار کا کہنا تھا کہ ایکنک کے اجلاس میں سندھ حکومت کا نمائندہ موجود ہوتا ہے۔اس حوالے سے گورنرسندھ عمران اسماعیل نے کہاکہ سندھ میں جاری ترقیاتی منصوبوں کے لئے سندھ حکومت کا تعاون رہے گا ، وزیراعلی صوبے کے چیف ایگزیکٹیو ہیں وہ جب چاہیں وزیراعظم سے ملاقات کرسکتے ہیں وزیراعظم کی صوبے میں آمد پروزیر اعلی سندھ کو دعوت نہیں دینی پڑتی، وہ جب چاہیں ان کی وزیر اعظم سے ملاقات ہوسکتی ہے،ہماری ان سے کوئی دشمنی نہیں ہے وہ ہمارے بھی وزیراعلی ہیں۔ عین اسی لمحے تحریک انصاف کے رکن سندھ اسمبلی خرم شیر زمان کے بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ نیب زدہ ہیں ،ان کی وزیراعظم سے ملاقات نہیں ہو سکتی۔سندھ کی ترقی کے لئے ہونے والے اجلاسوں میں حکومت سندھ کی نمائندگی نہ ہونا نامناسب اور غیرجمہوری روایت ہے۔ خاص طور پر لمیٹڈ کمپنی کے تحت ایک صوبے کو چلانے کی روایت ٹھیک نہیں ہے۔ کم ازکم اس معاملے پر سید مراد علی شاہ کو بھی اعتماد میں لیا جاتا تواس میں وفاق کی یک جہتی پر کسی قسم کا حرف نہ آتا۔