اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ ناکام ہوچکے ہیں تو ہمت نہ ہاریں

ملک جہانگیر اقبال

چھ دن قبل اک ڈاکیومنٹری دیکھی جس کا نام " The nova effect" تھا ۔ یہ ڈاکیومنٹری اک نہایت دلچسپ کہانی پہ مشتمل تھی , تو کہانی کچھ یوں ہے کہ اک ایرک نامی شخص اپنے کتے کو (کتے کا نام nova ہے)واک پہ لے کر جاتا ہے ۔ دوران چہل قدمی نووا کو اک خرگوش بھاگتا دکھائی دیتا ہے اور شومئ قسمت کہ عین اسی وقت اس شخص کی رسی پہ گرفت ڈھیلی پڑتی ہے اور یوں نووا سرپٹ خرگوش کے پیچھے دوڑ پڑتا ہے ۔ کچھ دیر تک ایرک نووا کا پیچھا کرتا ہے اور پھر تھک ہار کر گھر واپس لوٹ جاتا ہے ۔ دوسری جانب نووا بھی بھاگتے ہوئے بہت دور نکل جاتا ہے اور یوں گھر واپسی کا رستہ بھول جاتا ہے ۔ 

گھر پہنچ کر ایرک خود کو بہت کوستا ہے اور اس وقت کو منحوس گردانتا ہے جب اس نے رسی ڈھیلی کی ۔ وہ سوچتا ہے کہ اگر رسی ڈھیلی نہ ہوتی تو شاید نووا اس وقت میرے ساتھ ہوتا ۔اس واقعہ کے کچھ روز بعد دروازے کی گھنٹی بجنے پہ جب ایرک  دروازہ کھولتا ہے تو دروازے پہ اک لڑکی نووا کی رسی تھامے کھڑی ہوتی ہے ۔ وہ ایرک کو بتاتی ہے کہ اسے نووا بھٹکتا ہوا ملا تو اسے گھر لے گئی اور پھر پٹے میں موجود نیم ٹیگ پہ لکھے پتے کی بدولت یہاں تک پہنچ گئی ۔ ایرک نووا کو واپس پاکر بہت خوش ہوتا ہے اور یوں لڑکی سے بھی اسکی دوستی ہوجاتی ہے  ۔ اب ایرک لڑکی سے اکثر ملنے لگتا ہے اور یوں ان دونوں کو اک دوجے سے محبت ہوجاتی ہے ۔ پھر ایرک سوچتا ہے کہ کتنا اچھا ہوا جو اس دن رسی ہاتھ سے چھوٹی اور خدا کا شکر ہے کہ کتنا خوش قسمت وقت تھا کہ نووا اسی لڑکی کو ملا اور یوں مجھے میری محبت ملی ۔۔۔ 

خیر شادی کی تاریخ طے پاجاتی ہے اور اک روز جب وہ اس لڑکی سے ملنے جارہا ہوتا ہے تو ٹریفک لائٹ سرخ ہوجانے پہ اسے رکنا پڑجاتا ہے ۔ جونہی سبز بتی جلتی ہے ایرک گاڑی آگے بڑھا دیتا ہے پر اسی اثناء میں مخالف رخ سے اک تیز رفتار گاڑی بے قابو ہوکر اسکی گاڑی سے ٹکرا جاتی ہے اور یوں دو تین قلابازیاں کھاتے ہوئے اسکی گاڑی فٹ پاتھ پہ گرجاتی ہے ۔ ایرک کو ہسپتال لے جایا جاتا ہے جہاں ڈاکٹر ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد فیصلہ کرتے ہیں کہ ایرک کے دماغ کا فوری سی ٹی سکین و ایم آر آئی وغیرہ کیا جائے جبکہ سخت تکلیف کی حالت میں یہ سب سنتے ہوئے ایرک سوچ رہا ہوتا ہے کہ کتنا منحوس وقت تھا جب میں گھر سے نکلا اور اس گاڑی کو بھی اسی وقت بے قابو ہونا تھا ؟ کاش میں گھر سے نکلا ہی نہ ہوتا ۔۔۔ 

خیر ٹیسٹ کی رپورٹس آتی ہیں تو ڈاکٹر اسے بتاتے ہیں کہ اک بری خبر یہ ہی ہے کہ تمہارے دماغ میں گلائیوما (ٹیومر) ہے ۔ جبکہ اچھی خبر یہ ہے کہ تمہارے دماغ میں گلائیوما (ٹیومر) ہے ۔ ایرک کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ بیک وقت اک ہی خبر اچھی اور بری کیسے ہوسکتی ؟ ڈاکٹر اسے بتاتا ہے کہ ایکسیڈنٹ سے اسے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا پر اک اچھی بات یہ ہوئی کہ دماغ کے ٹیسٹ کے دوران ٹیومر کا معلوم پڑگیا جو ابھی ابتدائی سٹیج پہ تھا ۔ وگرنہ جب اسکی علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے تم بہت خوش نصیب ہو ۔۔۔ 

یہ سن کر ایرک سوچتا ہے کہ کتنا اچھا وقت تھا جب میں گھر سے نکلا اور کتنا ہوش نصیب بھی کہ عین ٹھیک وقت پہ وہ گاڑی مجھ سے ٹکرائی ورنہ مجھے اس ٹیومر بابت معلوم کیسے ہوتا ؟ یہاں تک ڈاکیومنٹری بہترین تھی پر اسکے بعد اس ڈاکیومنٹری کو لکھنے والے کے پاس کوئی موثر جواب نہ تھا ۔ وہ محض الجھا ہوا تھا کہ کیسے کوئی طاقت ہے جو یہ سب کر رہی ۔ کائنات یا قدرت کے اصول کس طرح کام کرتے ہیں ؟ کیسے کوئی برا واقعہ کسی اچھے واقعہ کا موجب بن جاتا ہے یا کس طرح کوئی اچھا واقعہ کسی حادثے کی وجہ بن جاتا ہے ؟ یہاں پہنچ کر ڈاکیومنٹری ختم ہوگئی پر میری الجھن بڑھ گئی ۔ اک دو روز تو اس پہ سوچتا رہا اور پھر دیگر مصروفیات نے اس ڈاکیومنٹری سے توجہ تو ہٹا دی پر دماغ میں اک خلش ضرور پیدا ہوگئی  ۔  اب یہ آج صبح کا واقعہ ہے کہ فجر کے بعد بھی جب نیند کا نام و نشان نہ ملا تو لان میں جا کر بیٹھ گیا ۔ میرے بڑے بھائی کو مرغیاں پالنے کا شوق ہے لہذا وہ صبح سویرے ہی سب مرغے مرغیوں کو کھول کر دانہ وغیرہ ڈال دیتے ہیں ۔ آج انہیں میں صبح سویرے  دکھائی دیا تو مجھے بھی اپنا ہاتھ بٹوانے کیلئے ساتھ شامل کرلیا ۔ 

ہمارے گھر کے عقبی حصے میں مرغیوں اور انکے بچوں کیلئے بارہ پنجرے ترتیب سے بنے ہوئے ہیں ۔ دانہ ڈالنے کے بعد ماسوائے اک کے باقی تمام مرغیوں کو وہیں کھلا چھوڑ دیا جبکہ اک مرغی جس کے ساتھ اسکے بچے بھی تھے اسے دوبارہ پنجرے میں بند کرنا تھا ۔ بڑے بھائی نے سب سے آخر میں رکھے پنجرے میں مرغی اور چوزوں کیلئے مخصوص دانہ ڈالا اور پانی رکھا اور مجھے مرغی کو پنجرے میں بند کرنے کا کہا ۔ 

اک تو مجھے مرغے مرغیاں پالنے کا ذرا شوق نہیں اور پھر مجھے انہیں ہانکنا بھی نہیں آتا ۔ خیر بھائی کا حکم تھا لہذا بجا آوری ضروری تھی میں اپنے تئیں کوشش کرنے لگا پر وہ نالائق مرغی ہر بار غلط پنجرے میں جا گھستی جب اسے پنجرے سے باہر نکالتا تو چیختے چلاتے باہر آتی اور یوں 15 , 20 منٹ کی مشقت کی بدولت مرغی اور چوزے در در کے پنجروں کی خاک چھاننے کے بعد اپنے مخصوص پنجرے تک پہنچ ہی گئے ۔ پنجرہ بند کرتے ہوئے بھائی سے مخاطب ہو کر کہا " یار کتنی بیوقوف مرغی ہے ۔ اسکی تمام خوراک و سہولیات اس پنجرے میں موجود پر یہ نالائق بار بار غلط پنجرے میں جا گھستی تھی اور نکالنے پہ ایسا شور مچاتی جیسے اس پہ نجانے کتنا ظلم کیا جارہا ہو دل کیا کہ اسے دوسرے پنجرے میں ہی رہنے دوں ۔ جب بھوک لگتی تو اسے قدر آتی " ۔ بھائی صاحب اپنے چھوٹے بھائی کو صبح صبح خواری سے چڑچڑا ہوا دیکھ کر مسکرا دیے اور کہا " یار یہ نادان پرندہ ہے اسے اپنے بھلے برے کا نہیں معلوم پر ہمیں تو معلوم ہے نا ؟ یہ بھلے چیخے چلائے پر ہمارا کام کہ اسے اس جگہ رکھیں جہاں اس کیلئے آسانیاں ہوں ورنہ ہماری عقلی برتری یا اشرف المخلوقات  ہونے کا کیا فائدہ ؟ " 

بھائی تو یہ کہ کر چلے گئے پر میری الجھن سلجھا گئے۔۔ نووا ایفیکٹ میں جہاں وہ ڈاکیومنٹری لکھنے والا الجھن کا شکار ہوا وہاں میں سلجھ چکا تھا ۔ جس عمل کو وہ کائناتی راز اور جس کے وقوع پذیری پہ وہ حیران اور ممکنہ ردعمل پہ کنفیوژن کا شکار تھا وہ تو میرے بالکل سامنے ہی تھا ۔ جسے وہ نووا ایفیکٹ کہ رہا تھا اس ہم بچپن سے ہی "اللہ کی حکمت" کے نام سے سنتے آئے ہیں ۔ جس ردعمل پہ وہ کنفیوژ تھا کہ کیا ری ایکشن دے اس عمل پہ اللہ ہمیں " صبر و شکر" کا حکم ڈیڑھ ہزار سال قبل دے چکا پر یہ ڈاکیومنٹری دیکھنے کے بعد مجھے صبر و شکر کی تعریف ٹھیک طرح سے سمجھ آگئی ۔ آج سے پہلے صبر و شکر پہ بہت پریشان ہوا کرتا تھا کہ اک شخص حالت نقصان میں صبر تو کرسکتا ہے پر شکر کیسے ممکن ؟ مثلاً اک شخص مجھے دھوکہ دے گیا ۔ اس عمل پہ میں صبر کرسکتا ہوں پر شکر کیسے ممکن ؟ مجھے لاکھوں کا نقصان ہو تو میں صبر کرسکتا ہوں پر اس پہ شکر کیسے اور کیونکر ممکن ؟ کیا محض زبان سے کہ دینے سے شکر ادا ہو گیا ؟ نہیں ہرگز نہیں 

پر آج صبر و شکر کا مطلب سمجھ آگیا کہ ہماری ہر آزمائش ہمیں مقام شکر تک لانے کیلئے ہوتی ہے لہذا اگر ہم صبر کریں تو دوہرے سرخرو ہوں ۔ اب مرغی کی ہی مثال لیں کہ وہ ہر بار اپنے تئیں تو اپنے ٹھکانے پہ جاتی پر میں ڈنڈی سے ٹھونک کر اسے باہر نکال دیتا جس پہ وہ چیختی چلاتی ۔ شاید اسے میں ظالم بھی لگا ہوں گا پر میں اسے وہاں لانا چاہتا تھا جہاں اسکے لئے تمام سہولیات موجود تھیں ۔ اور یقیناً جب اپنے پنجرے میں پہنچ کر اسے خوراک اور پانی ملا ہوگا تو وہ خوش ہوئی ہوگی ۔ 

 ڈاکیومنٹری میں "ایرک" اگر غور کرتا تو کتے کے گم ہونے کا دکھ اور سوگ دراصل آخر میں اسکی زندگی بچانے کے کام آیا ۔ اگر کتا نہ گم ہوتا تو اسے وہ لڑکی نہ ملتی , لڑکی نہ ملتی تو وہ اس سڑک پہ نہ ہوتا ، سڑک پہ نہ ہوتا تو اس کا ایکسیڈنٹ نہ ہوتا ، ایکسیڈنٹ نہ ہوتا تو ٹیومر کا پتا نہ چلتا اور یوں جس دن اسکی شادی ہورہی تھی شاید اس کا جنازہ ہورہا ہوتا ۔ ٹھیک اسی طرح جب اللہ پاک ہمیں کسی شے سے دور کرتا ہے تو ہم اسکی حکمت یا بقول انگریز مصنف "نووا ایفیکٹ" سمجھے بنا رونا دھونا شروع کردیتے ہیں ۔ اس دوران خدا ہمیں ظالم بھی لگتا ہے اور اس وقت تک ظالم لگتا رہتا ہے جب تک وہ ہمیں اس سے بہت بہتر عطا نہیں کردیتا ۔ لہذا خدا کی حکمت جسے آزمائش بھی کہا گیا ہے اس پہ محض صبر کا حکم دیا گیا باقی مقام شکر تک یہ حکمت ضرور لے کر جاتی ہے ۔ قصہ مختصر یہ کہ اگر آج آپ کامیاب اور خوش ہیں تو ذرا ماضی میں جھانکیں تو آپکو معلوم ہوگا کہ اس کامیابی و خوشی کی منزل تب ممکن ہوئی جب فلاں فلاں بظاہر قریبی لوگ آپکو چھوڑ گئے یا کوئی مالی نقصان ہوا جس نے آپکو مختلف طرح سے سوچنے پہ مجبور کیا اور یوں آپ کامیابی تک پہنچے ۔ ٹھیک اسی طرح اگر اس وقت آپ تکلیف میں ہیں یا لگتا ہے کہ ناکام ہوچکے تو ہمت نہ ہاریں ۔ صبر کریں اور اللہ کی حکمت پہ بھروسہ کرتے ہوئے چلتے رہیں ۔ اس آزمائش والے وقت میں ہمت نہ ہاریں کہ جلد ہی آپ مقام شکر پہ کھڑے ہونگے ۔ ان شاءاللہ