’’یہ ہرمن باویجہ کون ہے؟‘‘کرن نے ہونٹوں پر شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔ پریانکا اس سوال پر جزبز ہوئی۔ اس نے اپنے بالوںکو پیچھے ہٹایا ۔اگرچہ وہ مسکراتی رہی جو کہ ایک ایسا سبق تھا جو اس نے مس انڈیا اور مس ورلڈ کے مقابلے کے دوان سیکھا تھا تاہم لگتاتھا کہ وہ سوچ رہی تھی کہ اس نے کرن جوہر کے شو میں آکر غلطی کی تھی۔’ ’اوہ خدایا ! ‘‘اس نے کہا اور پھر وضاحت کرنے لگی کہ ہرمن باویجہ کون ہے۔ ’’وہ ہیر ی باویجہ کا بیٹا ہے اور میں ان کی فلم ’’کرم ‘‘میں کام کررہی ہوں ۔(کرم ، دوہزار پانچ کی فلم ہے جس کے ڈائریکٹر سنجے گپتا تھے اوراس میں جان ابراہیم نے کام کیا تھا اور یہ باکس آفس پر ناکام ہوئی تھی۔)، یہی وجہ ہے کہ میں اسے جانتی ہوں ۔‘‘اس کے بعد کرن جوہر نے مزید دلچسپ سوال کیے جو شاید یوں لگتاتھا کہ اس بارے میں کچھ زیادہ ہی جانتا تھا۔

کرن :آپ کے درمیا ن کچھ نہیں ہورہا؟

پریانکا :نہیں، وہ صرف دوست ہے۔

کرن :اچھا ، وہ دوست ہے ۔

پریانکا :میرا مطلب ہے کہ میں اسے جانتی ہوں۔

کرن :(مسکراتے ہوئے ، اور شرارتی آواز میں )آپ لوگ صرف اچھے دوست ہیں؟

پریانکا :اوہ خدا ، مسکراہٹ تو دیکھو۔

یہاں پر یہ ایشوختم ہوگیا۔لیکن کرن نے یہ مسئلہ اس وقت دوبارہ اٹھایا جب پریانکا دوبارہ اس کے شوپر مدعو ہوئی۔

پریانکا اور ہرمن باویجہ

بعدازاں کرن نے مجھے (سوانح نگار )بتایا کہ اسے پریانکا اور ہرمن باویجہ کے درمیان دوستی کا کرینہ کپور سے پتہ چلا تھا۔ایک مقام پر کرینہ اور پریانکا قریبی دوست تھے اور وہ ڈبل ڈیٹ پر جاتے تھے یعنی کرینہ اپنے اس وقت کے دوست شاہد کپور اور پریانکا ہرمن باویجہ کے ساتھ جاتی تھی۔

کافی ود کرن میں دوسری حاضری

پریانکا نے ہرمن کے ساتھ دو فلمیں کیں ۔’’لوسٹوری 2050‘‘جو کہ 2008 کی ایک سائنس فکشن فلم تھی جو ہیری باویجہ نے خود ڈائریکٹ کی تھی اور دوسری ’’وٹس یور راشی ‘‘تھی جو 2009کی فلم تھی جس کی ڈائریکشن آشو توش گواریکر نے دی تھی اور اس میں پریانکا نے کئی کردار کیے تھے۔دونوں فلمیں بری طرح ناکام ہوئی تھیں۔تاہم تب تک پریانکا چوپڑا کرن جوہر کے شو میں دوسری بار جلوہ گر ہوچکی تھی۔ یہ شو فروری2007میں نشر ہوا تھا۔وہ کسی حد تک ہرمن باوبجہ کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں کھل کر بات کررہی تھی۔اس مرتبہ وہ ہرتیک روشن کے ساتھ شو میں آئی تھی جب دونوں ہٹ فلم ’’کرش ‘‘دے چکے تھے اور کرن بھی اپنی فار م میں واپس آچکے تھے اور وہ پریانکا پر زور دے رہے تھے کہ وہ بتائیں کہ وہ ان دنوں کس کے ساتھ ڈیٹ مار رہی تھیں۔

 پریانکا اس پر بڑبڑاتی رہی اور ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہی۔چنانچہ کرن نے اپنا اگلا سوال کیا اور پوچھا ،’’یہ افواہ ہے اور میں صرف افواہ کے بار ے میں بات کررہا ہوں ۔آپ اس کی تردید کرسکتی ہے ، تصدیق کرسکتی ہیں ۔یہ مکمل طورپر آپ پر منحصر ہے۔افواہ یہ ہے کہ ہرمن باویجہ جو آپ کے ساتھ ’’لوسٹو ری 2050‘‘میں ہیرو ہیں ۔تو کیا آپ دوہزار پچاس میں باہر آئیں گے یا اس سے پہلے کا ارادہ ہے؟‘‘اس پر پریانکا نے جواب دیا ،’’دیکھیں ، وہ میرا بہت ہی، بہت ہی اچھا دوست ہے ۔ہم خوب گھومتے پھرتے ہیں ۔اس کا ساتھ بہت اچھا ہوتاہے۔لیکن اس سے آگے ہم کچھ نہیں جانتے ۔‘‘لیکن کرن تو شاید ضدی خالہ بنے ہوئے تھے اور مزید جاننا چاہتے تھے ۔’’اچھا ،تو اس وقت یہ صورت حال ہے ۔آپ لوگ خوب گھومتے پھرتے ہیں۔آپ میں بہت اچھی دوستی ہے لیکن آپ نہیں جانتے کہ ۔۔۔‘‘پریانکا نے جملہ مکمل کردیا۔’’کہ مستقبل میں ہمارے لیے کیا ہے۔‘‘

رپورٹوں سے اشارہ ملتا ہے کہ ’’لوسٹوری 2050‘‘کے ناکام ہونے کے بعد پریانکا اور ہرمن میں علیحدگی ہوگئی اور اس کے بعد دونوں نے ’’وٹس یور راشی ‘‘(2009)میں کام کیا تاہم اس وقت تک وہ ڈیٹ نہیں ماررہے تھے۔

پرکاش ججو سے تنازعہ

فلم انڈسٹری میں پریانکا کے ابتدائی سالوں کے دوران کم ازکم ایک اور تنازعہ سامنے آیا۔یہ تنازعہ اس کے سیکریٹری اور مینیجر پرکاش ججو سے متعلق تھا جس کے کسی مرحلے پر پریانکا اوراس کے والدین کے ساتھ اختلافات ہوگئے اور اسے نوکری سے نکال دیا گیا۔ججو جس نے پریانکا کی پیشہ ورانہ اور بعض اوقات زاتی زندگی میں بھی ہر پہلو سے اہم کردار ادا کیا تھا ، اچانک اس افتاد پر اچھا محسوس نہیں کررہاتھا۔2008میں پولیس نے مدھیہ پردیش کے قصبے مائو میں پرکاش ججو کو گرفتار کرلیا۔پولیس نے پریانکا چوپڑا کے والدڈاکٹر اشوک چوپڑا کی شکایت پر اسے گرفتار کیا تھاجس میں کہا گیا تھا کہ پرکاش ججو ان کے خاندان کو دھمکیاں دے رہا تھا اور پریانکا چوپڑا پر جھوٹے الزام لگا رہا تھا۔ ججو نے پریانکا کے بالی وڈ میں ابتدائی دنوں میں اس کے ساتھ کام کیا تھا اور اسے کچھ اچھے منصوبے جیسے ’’ہیرو، لوسٹوری آف آ سپائی ‘‘اور ’’انداز‘‘دلوائے تھے تاہم بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک جنونی اور مداخلت کار انسان بھی تھا چنانچہ اسے نوکری سے نکا ل دیا گیا۔اس کے علاوہ روپوں کے غلط استعمال کے کچھ الزامات بھی تھے تاہم ججو کا دعویٰ تھا کہ اسے اس کی پوری تنخواہ ادا نہیں کی گئی تھی۔

پرکاش ججو کی کہانی نے دوہزار چودہ میں ایک بار پھر سر اٹھایا۔پریانکا نے اپنے ایک اور سابق بوائے فرینڈ ، ماڈل اور ایکٹر آسیم مرچنٹ کے خلاف مقدمہ دائرکیا ۔آسیم مرچنٹ پریانکا کا فلمی کیرئیر شروع ہونے سے پہلے اس وقت کچھ عرصے کے لیے اس کا دوست رہا تھا جب پریانکا ابھی ماڈلنگ کررہی تھی۔مرچنٹ نے ایک فلم ’’67دن ‘‘ پروڈیوس کرنے کا فیصلہ کیا تھا جو کہ پرکاش ججو کے جیل میں گذارے ہوئے ستاسٹھ دنوں کے حوالے سے تھی۔مرچنٹ کا کہنا تھا کہ یہ فلم ججو کی زندگی کے بارے میں ہے۔پریانکا کے وکیل نے جو مقدمہ دائر کیا تھا اس میں کہا گیا تھا ،’’ہماری کلائنٹ کو یہ جان کر بہت دکھ پہنچا ہے کہ اگرچہ تمام خبروں میں کہا گیا کہ مجوزہ فلم آپ کی (ججو)بائیوپک ہے ۔تاہم فلم کی تشہیر میں بڑے پیمانے پر ہماری کلائنٹ کا حوالہ دیا جارہا ہے اور فلم میں آپ کا حوالہ دینے کے بجائے ہماری کلائنٹ اوران کی فیملی کا نام استعمال کیاجارہا ہے۔‘‘مقدمہ میں الزام لگایا گیا کہ اس فلم کا بنانا ہماری کلائنٹ کے حقوق بشمول اس کی نجی زندگی کی خلاف ورزی ہے ۔اس فلم کا مقصد ہماری کلائنٹ کو بدنام کرنا اوراس کی شہرت کو دغدارکرنا اوراسے نفرت اور مضحکہ کا نشانہ بنوانا ہے۔فلم آخرکار منسوخ کردی گئی۔

اقدام خودکشی کا الزام

ججو نے پریانکا کے بارے میں مزید باتیں کیں اور ممکنہ طو ر پر خبریں بنائیں جس میں دوہزار سولہ میں ٹویٹس کا ایک سلسلہ بھی شامل ہے جن میں کہا گیا تھا کہ پریانکا نے ایک مرتبہ خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔اس مرتبہ پریانکا کی ماں نے جو کہ عام طورپر میڈیا سے دور رہتی تھی اور خاموش طبع تھی ، نے مبینہ طورپر اپنے اکائونٹ سے اپنی بیٹی کا دفاع کرتے  ہوئے لکھا ،’’یہ جھوٹا حرامی جیل میں رہ چکا ہے ۔‘‘اس کی بوڑھی ماں اور والد پریانکا چوپڑا کے پائوں میں پڑگئے اورمعافی مانگی ۔ٹویٹ اس کے بعد حذف کردی گئی۔

’’کافی ود کرن ‘‘میں اپنی پہلی حاضری کے موقع پرپریانکا نے یہاں تک کہا کہ اکشے کمار کے ساتھ اس کے تعلقات کی خبریں پھیلانے کے پیچھے پرکاش ججو ہوسکتا ہے ۔اس کاکہنا تھا ،’’میں نے بہت سوچا ہے ۔آپ کا ہر رشتہ ،چاہے یہ آپ کی فیملی کے ساتھ ہویا دوستوں کے ساتھ ، اپنے سیکریٹری کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ ہو ، ہر رشتے کی کچھ حدود ہوتی ہیں۔اور جب آپ یہ حدود پار کرنے لگتے ہیں تو یہ رشتہ خطرناک ہونے لگتا ہے ۔یہ خراب اور غیر صحت مند ہونے لگتا ہے۔اوراس رشتے کے ساتھ یہی ہوا ہے ۔وہ میرا سیکریٹری تھا اور اسے وہیں پر رہنا چاہیے تھا لیکن وہ دوسری چیزوں میں دلچسپی لینے لگا۔‘‘

تنازعات اپنی جگہ لیکن پریانکا پہلے ہی اپنی زندگی کے بڑے ہدف کے لیے آگے بڑھ چکی تھی جو کہ ایک موقر اداکارہ بننا تھا۔اور یقینا وہ دھیرے دھیرے لیکن یقینی طورپر اپنے ہدف تک پہنچ رہی تھی۔یہ عمل ’’  بلف ماسٹر ‘‘ اور ’’کرش ‘‘جیسی فلموں کے ساتھ شروع ہوناتھا۔

اداکارہ بننے کا عمل 

پریانکاچوپڑا کی اداکاری کی صلاحیتوں کو ارتقاء پانے میں کچھ وقت لگا۔وہ ان اداکاروں جیسے سیف علی خان ، کرینہ کپور ،ابھیشک بچن ، حتیٰ کہ ایشوریہ رائے ،میں سے ایک تھی جن کی پرفارمنس میں اس وقت زبردست نکھارآیا جب انہیں سرکردہ ہدایت کاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔پریانکا ایک حسینہ ہے اور مس ورلڈ کا مقابلہ جیتنے کے بعد وہ بریلی کی ایک لاپروانوعمر لڑکی سے ایک سمجھدار اور ذہین خاتون بن گئی تھی۔تاہم اپنے بالی وڈ کے کیرئیر کے ایک بڑے حصے میں وہ ایک عمدہ اداکارہ کے بجائے محض سیکس سمبل کے طورپر جانی گئی تھی ۔پریانکا نے کئی مواقع پر اس کا اعتراف بھی کیاجن میں ایک مرتبہ ’’کافی ود کرن ‘‘میں گفتگو کرتے ہوئے اس کا کہنا تھا ،’’میرا خیال ہے کہ میں نے اپنا راستہ خود بنایا ہے۔میرا خیال ہے کہ شروع میں میں بہت خراب اداکارہ تھی۔میں جانتی ہی نہیں تھی کہ ایک اداکارہ میں اداکاری کیا ہوتی ہے۔لیکن میں نے خود کو سکھایا۔‘‘

جب روہن سپی نے اپنی دوسری فلم ’’بلف ماسٹر ‘‘ بنانے کی تیاری کی تو انہوں نے ایک بار پھر اپنے بچپن کے دوست ابھیشک بچن کو اس میں لینے کا فیصلہ کیا جس کی ان دنوں دو فلمیں ’’دھوم ‘‘ (2004)اور ’’بنٹی اور ببلی ‘‘(2005)کامیاب ہوچکی تھیں۔’’بلف ماسٹر ‘‘کی کہانی ایک فراڈیے شخص کی کتھا ہے جو لوگوں کو بیوقوف بناکر انہیں لوٹتا ہے اور یہ واضح طورپر ارجنٹائن کی فلم ’’نائن کوئنز‘‘ (2000)سے متاثر ہے۔اس میں ایک جیسے مناظر اور پلاٹ ایک متوازی ٹریک پردوڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔سپی نے دیگر بالی وڈ فلم سازوں کی طرح اس میں ضروری تبدیلیاں کی ہیں اوراسے بالی وڈ کی فلموں کی طرح بنایا ہے جس میں گانوں سے لیکر مرکزی اداکارہ پریانکا چوپڑا کو بخوبی استعمال کیا گیا ہے۔

 کاسٹنگ کا تنازعہ

رپورٹوں کے مطابق بتایا جاتاہے کہ فلم کی کاسٹنگ کے حوالے سے کچھ ایشو ہوئے تھے۔صحافی سبھاش کے جھا جو کہ بالی وڈ کی اندر کی خبریں رکھتے ہیں ، انہوں نے ایک رپورٹ میں لکھا کہ سپی کا اصل میں ایشوریہ رائے کو لینے کاارادہ تھا لیکن پھر انہوں نے اپنا ارادہ بدل دیا اور پریانکا چوپڑا کو کاسٹ کرلیا۔سبھاش کے جھا کے مطابق اس پر ایشوریہ رائے ناراض ہوئی اورکہا،’’ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟میںنے فلم کے حوالے سے سب کچھ فائنل کرلیا تھا اور روہن سپی کو ان کی مطلوبہ ڈیٹس بھی دے دی تھیں۔ٹھیک ہے کہ میرا ان کے ساتھ کوئی تحریر ی معاہدہ نہیں تھا ۔لیکن کیا کسی کو دوستوں کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے؟ایمسٹرڈیم میں میں اور ابھیشک بچن باتیں کرتے تھے کہ دونوں کو اکٹھے فلم میں کام کرنے کاکتنا مزا آئے گا۔‘‘(ابھیشک بچن اور ایشوریہ رائے روہن سپی کی پہلی فلم ’’کچھ نہ کہو ‘‘(2003) میں ایک ساتھ کام کرچکے تھے۔دونوں نے ’’  بلف ماسٹر ‘‘ کی ریلیز کے ڈیڑھ سال بعد شادی کرلی تھی۔)

ایشوریہ نے مزید کہا ،’’میں فوری طورپر رامیش جی(روہن سپی کے والد اور فلمساز اور ہدایت کار)کے پاس گئی اور ان سے اس پراجیکٹ کے بارے میں بات کی۔روہن ایسا کیسے کرسکتے تھے؟ہم نے ’’کچھ نہ کہو ‘‘کرتے ہوئے بہت لطف اٹھایا تھا۔ ‘‘

پریانکا کی ڈپلومیٹک وضاحت

سبھاش کے جھا نے جب اس بارے میں پریانکا چوپڑاسے بات کی تو انہوں نے ڈپلو میٹک انداز میں جواب دیا ،’’مجھے کچھ علم نہیں کہ ’ ’  بلف ماسٹر ‘‘کے لیے مجھ سے پہلے کسی اور سے بھی رابطہ کیا گیا ہے۔مجھے تو اس بات سے غرض ہے کہ مجھے کیا آفر کی گئی ہے اورمجھے لگتاہے کہ ’’  بلف ماسٹر ‘‘میں کام کرنے کا بڑا مزاآئے گا۔چونکہ راکیش روشن کی فلم ’’کرش‘‘کی کچھ ڈیٹس منسوخ ہوچکی ہیں (ہرتیک روشن کے ایکسیڈنٹ کی وجہ سے)، اس لیے میں نے یہ ڈیٹس بھی ’’  بلف ماسٹر ‘‘کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔بالی وڈ میں تو ایسا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔‘‘

فلم کی پروموشن کے حوالے سے ریڈف ڈاٹ کام پرایک چیٹ میں روہن سے پوچھا گیا کہ انہوں نے فلم میں پریانکا کو کیوں کاسٹ کیا تو ان کا جواب تھا ،’’میرا خیال ہے کہ بہتر سوال یہ تھا کہ پریانکا نے میرا انتخاب کیوں کیا۔اس کے حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کے باوجود فلم میں آنے پر تیار ہوگئی کہ اس میں ہیروئن کا کوئی بھرپور کردار نہیں ہے۔وہ یہ بات سمجھتی تھی کہ یہ محض ایک مجموعی کاسٹ ہے جس کا وہ حصہ ہے ۔وہ واقعی ایک زبردست ٹیم پلیئرہے۔‘‘

2017میں گوا میںایک انٹرویو میں روہن سپی نے مجھے بتایا ،’’جبلی طورپر وہ ایک عمدہ اداکارہ ہے۔اس وقت ہم کچھ مختلف کرنے کی کوشش بھی کررہے تھے۔ یہ بڑی اچھی بات تھی کہ ہم ایک ایسی اداکارہ کے ساتھ کام کررہے تھے جو بھرپور ہم آہنگی کے ساتھ ہماری ٹیم کاحصہ تھی حالانکہ وقت کے حساب اس کا کردار اتنا بڑا نہیں تھالیکن وہ ’ ’  بلف ماسٹر ‘‘تھی۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ پریانکا کا فلم میں کردار محض ابھیشک کو سپورٹ کرنے کا تھالیکن اس نے بڑے آرام سے یہ کردار کیا اور وہ اتنی سمجھ دار تھی کہ یہ سمجھتی تھی کہ اس کا کردار ایسا ہی ہے۔

فلم زیادہ تر ممبئی میں شوٹ کی گئی جب دن چودہ گھنٹے طویل ہوتا تھا۔ روہن سپی کے بقول قسمت نے یاوری کی کہ ابھیشک کی ڈیٹس بہت کام آئیں اور ہم مون سون میں بھی شوٹنگ کے قابل ہوگئے۔ان کے مطابق اس موسم میں شوٹ کرنا تھوڑا خطرناک تھا لیکن اس میں فائدہ بڑا تھا۔بعض اوقات تو پریانکا صبح چار بجے شوٹنگ کے لیے آجاتی۔

زیادہ تر فلم میں پریانکا بہت زبردست دکھائی دی بالخصوص گانے ’’سے نہ سے ‘‘میں ، جس میں وہ اپنی منگنی کی تقریب میں ڈانس کرتی ہے ۔گانے میں اس نے سفید ساڑھی پہن رکھی تھی جس کے کناروں کے ساتھ سلور کا کام تھا اور وہ بہت ہاٹ لگ رہی تھی۔اس کی ویسٹ لائن دکھانے کے لیے ساڑھی کو کچھ نیچے رکھا گیا تھا۔اس طرح گانے ’’رائٹ ہیئررائٹ نائو‘‘میں چار خوبصورت ماڈلز کے ساتھ فلم کی پوری کاسٹ اور عملے کو دکھا یا گیا تھا اوراس میں پریانکا نے بکنی ٹاپ پہن رکھا تھا اور وہ گانا گانے کی اداکاری کررہی تھی جبکہ ابھیشک بچن اس کے اردگرد رقص کررہاتھا۔سٹوڈیو میں لگے پنکھے کی وجہ سے پریانکا کے بال ہوا میں لہرارہے تھے۔

آئی ایم آ گڈ گرل

روہن یاد کرتے ہوئے مزید بتاتے ہیں کہ پریانکا نے فلم کے میوزک میں بھی حصہ لیا اور گانے ’’رائٹ ہیئر رائٹ نائو ‘‘میں پانچ الفاظ ’’آئی ایم آ گڈ گرل ‘‘کے لیے اپنی آواز دی۔

لیکن اگر پریانکا امید کررہی تھی کہ اسے اس فلم میں کام کرنے سے ایک اچھی شناخت اور پہچان ملے گی تو اسے مایوسی کا سامنا تھا۔ریڈ ف ڈاٹ کام کے راجہ سین کے تجزیے میں پریانکا کے لیے صرف پانچ الفاظ پر مبنی ایک جملہ تھا کہ ’’پریانکا چوپڑا از پرفیکٹلی کریڈیبل۔۔۔‘‘اس طرح ’’انڈیا ٹوڈے ‘‘کی کاویری بامزئی نے بھی فلم کو پسند کیا ۔اس کے تجزیے کی آخری سطر کچھ یوں تھی ،’’فلم کی واحد قابل زکر چیز وہ حرف فجائیہ ہے جو فلم کے ٹائٹل میں آتا ہے اور جس طرح پریانکا چوپڑا اپنے ہونٹوں کو بنا کر دکھاتی ہے۔‘‘بامزئی کے تجزیے میں یہ پریانکاچوپڑا کا واحد زکر ہے۔

’’  بلف ماسٹر ‘‘ کی تیاری کے دوران اندر کی ایک کہانی بھی ذرائع ابلاغ کی زینت بنی اور پریانکا کے پرستاروں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔فلم کی تیاری کے دوران ابھیشک بچن نے پریانکا چوپڑا کو ایک نک نیم ’’پگی چوپڑا ‘‘دینے کا فیصلہ کیا ۔ یہ نک نیم اس کے ساتھ چپک گیا اور بظاہر پریانکا کو کوئی اعتراض بھی نہ ہوا۔اس کے مطابق ،’’یہ بہت پیار ا لگتاتھا کہ کوئی مجھے مس پگی چوپڑا کہہ کر پکارے۔‘‘لیکن پریانکاکو اس وقت حیرانی ہوئی جب فلم ’’ٹیکسی نمبر 9211‘‘جس میں اس نے مہمان اداکارہ کے طورپر کام کیا تھا ، کے کریڈٹس میں اس کا یہی نام چلادیا گیا ۔

  باکس آفس انڈیا نے ’ ’  بلف ماسٹر ‘‘ کو سیمی ہٹ فلم قرار دیا ۔لیکن پریانکا کی بڑی ہٹ فلم، بلکہ شاید اب تک کے اس کے کیرئیر کی سب سے بڑی فلم اگلے سال ریلیز ہوئی ۔فلم ’’کرش ‘‘ پروڈیوسر اور ڈائریکٹر راکیش روشن کی ہالی وڈ کی فلم ’’ای ٹی ، دی ایکسٹرا ٹیرسٹریل ‘‘ سے متاثر ’’کوئی مل گیا ‘‘(2003) کا سیکوئیل تھی ۔اس کے ذریعے انہوں نے اپنے بیٹے رتیک روشن کے کیرئیر کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی تھی۔نتیجہ باکس آفس پر زبردست کامیابی کی صورت میں نکلا اور اس کا تیسرا سیکوئیل ’’کرش تھری ‘‘بھی زبردست ہٹ ہوا۔ نقاد ان فلموں سے مطمئن نہیں تھے تاہم پرستاروں نے ایک دیسی سپرہیرو کے خیال کو پسند کیا جس میں ماسک اور ٹوپی پہنے ایک سپرہیرو نیکی کے کام کرتاہے جبکہ فلم کی مرکزی اداکارہ بھی بُرے لوگوں سے لڑتی دکھائی دیتی ہے۔بچوں نے ’’بیٹ مین ‘‘ اور ’’سپرمین‘‘کے جواب میں بھارت کے ہرتیک روشن کو سپرہیروکے کردار میں خوب پسند کیا۔بچے اور نوجوان لڑکیاں اس فلم اور رتیک روشن کے سب سے بڑے پرستاروں میں تھے۔

’’کرش ‘‘کو متعدد منفی جائزوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ’’نیویارک ٹائمز‘‘ عام طورپر بالی وڈ کازکر بہت احتیاط سے کرتا ہے تاہم لارا کیرن نے اپنے ریویو میںصاف صاف لکھ دیا یہ فلم ضرورت سے زیادہ طویل ، انتہائی جذباتیت کی حامل اور استخراجی نوعیت کی ہے جس میں بے کار گانوں اور ڈانس کا تڑکا لگا ہوا ہے۔اس طرح کے عناصر کہیں سے بھی آتے ہوں ، ایک واضح نقص دکھائی دیتے ہیں لیکن جہاں تک بالی وڈ کی بات ہے تو وہاں پر ان کی نہ صرف امید رکھی جاتی ہے بلکہ اکثر ان کو ایک بہتری سمجھا جاتا ہے اوراس فلم میں بھی ایسا ہی ہوا۔ ‘‘

بھارت میں ریڈف ڈاٹ کام کے تبصرہ نگار نے فلم میں ایک مثبت پہلو دیکھا اور لکھا ،’’اگرچہ ہم میں سے اکثر نے ’’کرش ‘‘کا زکر حقارت سے کیا ہوگا تاہم یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ اب مرکزی دھارے کے بالی وڈ میں بھی فینٹیسی کا عنصر اپنی جڑیں بنارہا ہے۔‘‘(جاری ہے)