لاہور ہائی کورٹ نے بازیابی کیس کی سماعت کے دوران لڑکی کی طرف سے والدہ کوپہچاننے سے انکار کے بعداپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ معاملہ لڑکیوں کی خریدوفروخت کا دکھائی دیتا ہے، ان حالات میں کورونا جیسی وبا کیوں نہ آئے۔ غریب گھرانوں کے بچوں بالخصوص کم سن بچیوں کو ملازمت دلانے کا دھندہ منظم مافیا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔دیہی علاقوں سے غریب بچیوں کو شہروں میں نوکری دلانے کا جھانسہ دے کر شہرلایا جاتا ہے پھر ان کو عمر کے لحاظ سے ایک خاص قسم کے ماحول میں رکھا جاتا ہے۔ کچھ کو بڑے گھرانوں میں نقد رقم وصول کر کے مستقل ملازم رکھوایا جاتا ہے اورکچھ کو سہانے خواب دکھا کر جسم فروشی کی طرف مائل کیا جاتا ہے۔ بعض گروہ والدین سے بچیوں کا سالانہ معاوضہ طے کر لیتے ہیں۔2016ء میں بھی ایک کیس ہائی کورٹ میں بھی زیر سماعت رہا جس میں امجد نامی شخص کے خلاف لڑکی کے والدین نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ شخص ان کی بیٹی کو دبئی لے جا کر جسم فروشی کروا رہا ہے۔ اسی طرح پوش علاقوں میں بیوٹی پارلرز کی آڑ میں بھی دھندہ عروج پر ہے ۔اب ایک بار پھر ایسا ہی کیس عدالت میں زیر سماعت ہے۔ بہتر ہو گا حکومت اس مکروہ دھندے کے سدباب کے لئے نہ صرف مناسب قانون سازی کرے بلکہ گھریلو ملازمین کا ڈیٹا بھی مرتب کرنے کے ساتھ گریلو ملازمین کی کم از کم تنخوہ اور شرئط کے بارے میں قانون سازی کرے تاکہ غریب بچیوں کو ایسے مافیاز کے استحصال سے بچایا جا سکے۔