مسلمانوں کے مزاج میں شامل ہے کہ خوشی کا موقع ہو یا غم کا، کھانے پینے کی گنجائش بہر حال نکال لیتے ہیں۔ کوئی جیے یا َمرے اُن کی بلا سے، اُن کے پیٹ کا سامان ضرور ہونا چاہیے! جو بدقسمت سوئم اور چہلم وغیرہ کا خرچہ چھوڑے بغیر َمر جائے اُس کی وفات کو صحیح معنوں میں بے وقت اور افسوسناک سمجھا جاتا ہے ورنہ افسوس کا اِظہار محض رسمی ہوتا ہے۔ ایسے موقعوں پر اُنھیں کھاتے ہوئے دیکھ کر ایک مشہور مصر عہ کی یہ َپیروڈی ذہن میں آ جاتی ہے: کسی کی جان گئی ‘ آپ کی ’’غذا ‘‘ ٹھہری! یہی حال تقریبات کا ہے۔ تقریب مذہبی ہو یا لامذہبی پیٹ کو کسیصو رت نظر اَنداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے ہاں کھانے پینے کا سب سے عظیم الشان مظاہرہ شادیوں اور ولیموں پر کیا جاتا تھا ( ولیمے کی دعوت ہمارے معاشرے میں ایک مقبو ِل عام رسم ہے جسے دُولھا میاں کی ز ِندگی کے آخری ِجشن َ ّمسرت کے َطور پر منایا جاتا ہے) ،لیکن جب سے حکومت نے اِن موقعوں پر َ ون ڈ ِش کی پابندی لگائی ہے لوگ نوید َ ّمسرت کو نوید حسرت سمجھنے لگے ہیں۔ شادی کے َ ِ ِپنڈال میں ُ یوں بیٹھے ہوتے ہیں جیسے کیمپ میں جنگی قیدی یا حوالات میں جیب کترے۔ جب اُن کی خدمت میں چائے کا کپ یا گرم شورباپیش کیا جاتا ہے تو یُوں پکڑتے ہیں جیسے چالان کی پرچی پکڑی جاتی ہے۔ اِس سلسلے میں حسن ابدال سے ایک خبر موصول ہوئی ہے جسے آپ افسوسناک کامیڈی یالائٹ ٹریجڈی کہہ سکتے ہیں۔ اِس خبر کا تعلق ایک دعوت ِ ولیمہ سے ہے: تفصیلات جاننے سے پہلے اِس کا پس منظر جاننا ضروری ہے جو کچھ ُیوں ہے کہ حسن ابدال کے ایک نواحی گائوں میں محمد بخش و ّٹو نامی شخص کے بیٹے کی شادی تھی۔ برات جب لڑکی والوں کے ہاں پہنچی تو وہاں دیگوں کے آثار نہ پا کر براتیوں کو شبہ ہوا کہ یہ لوگ قانون کے پابند ہیں۔ اُن کا شبہ اُس وقت یقین میں بدل گیا جب لڑکی والوں نے براتیوں سے کہا کہ ّلسی پسند کریں گے یا چائے ۔ ایک براتی نے ہمت کرکے ُپوچھ لیا کہ چائے یا ّلسی کے بعد کیا ہوگا ۔جواب ملا "نکاح" ۔ یہ شرعی جواب سُن کر براتیوں کا موڈ آف ہوگیا۔ بھنے ہوئے مُرغ کی آس میں آنے والے چند براتی تو واپس جانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ دیکھ کر دُولھے کا والد بدحواس ہو گیا۔ اُس نے اُٹھ کر براتیوں کے سامنے ہاتھ جوڑے اور وعدہ کیا کہ ولیمے کی دعوت میں شادی کے کھانے کی کمی پوری کر دی جائے گی اور اُن کی خدمت میں تین چار ڈ ِشیں پیش کی جائیں گی۔ اورولیمے کی دعوت میں صرف شادی کے متاثرین کو ّمدعو کیا جائے گا۔ جس کسی نے برات میں شامل ہونے کی اَذ ّیت برداشت نہیں کی اُسے ولیمے کی دیگوں کے پاس پھٹکنے بھی نہیں دیا جائے گا۔ چنانچہ برایتوں کا غصّہ قدرے ٹھنڈا پڑگیا اور اُنہوں نے بائیکاٹ کا اِرادہ ترک کر دیا۔ اِفہام و تفہیم کی فضا میں سب براتی ُبھوک اَور ُ ّ غصے کو ضبط کیے بیٹھے رہے ۔ جب نکاح اور ایجاب و قبول کے مبارک اور تکلیف د ِہ مرا ِحل بخیر و خوبی انجام پاگئے تو دُولھا میاں سمٹی سمٹائی دُلھن کو مزید سمیٹ کر گھر پہنچ گئے اور براتی واپس جا کر اگلے روز کا ُسورج طلوع ہونے کا اِنتظار کرنے لگے۔اب لڑکی کے والد اور بھائیوں کو اِس بات کا شدید رنج تھا کہ لڑکے والے دعوت ِ ولیمہ میں مہمانوں کی تواضع ُمرغ پلائو وغیرہ سے کرنا چاہتے ہیں۔ اُنھیں اپنی ناک کٹ جانے کا اَندیشہ لاحق ہو گیا۔چنانچہ فیصلہ ُہوا کہ لڑکی کا بڑا بھائی راتوں رات حسن ابدال پہنچے اور مجسٹریٹ کے گھر جا کر اُسے اِطلاع کر دے کہ اگلے روز اُن کے گائوں میں ایک دعوت ِ ولیمہ کے َدوران میں قانون کی د ّھجیاں بکھرنے والی ہیں ۔ مجسٹریٹ نے لڑکی کے بھائی کی بات سن کر کہا : "تم خا ِطر جمع رکھو… کل دیکھنا کہ قانون کی د ّھجیاں بکھیرنے والوں کی د ّھجیاں میں کیسے بکھیرتا ہوں!میں چاہتا ہوں کہ پہلے ُوہ دیگیں پکا لیں کیونکہ پولیس والے چھاپا وہیں مارتے ہیں جہاں سے دیگوں کی بھینی بھینی خوشبو آرہی ہوورنہ ُوہ کوئی بہانا بنا لیتے ہیں۔ اَور ہاںیہ بات صیغہ ٔراز میں رہنی چاہیے!" اِس پر لڑکی کا بھائی بولا: "جناب ِ عالی! دست بستہ گزار ِش کرتا ُہوں کہ یہ بھی کسی کو پتا نہیں چلنا چاہیے کہ چھاپا میری رپٹ پر پڑا ہے ورنہ میری بہن کو طلاق ہو جائے گی"۔"تم فکر نہ کرو ہم اپنے مخبروں کا نام آئوٹ نہیں کیا کرتے"۔ مجسٹریٹ صاحب نے اُسے تسلی دی اَور ُوہ مطمئن ہو کرواپس چلا آیا ۔ اگلے روز صبح سویرے دعوت ِ ولیمہ کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔دیگوں کے لئے بہترین چاول اور دیگر سامان بطور ِ خاص راولپنڈی سے منگوایا گیا۔ ڈھائی تین َسو کے قریب زندہ ا ور نیم مُردہ ُمرغے خریدے گئے۔ کھانا پکانے کا سپیشلسٹ گائوں کا نائی اپنی ٹیم کے ساتھ پہنچ گیا۔ پنڈی ہی سے بہترین کراکری‘ تنبو قنات اور فرنیچر منگوایا گیا۔ لائوڈ سپیکروں پر فلمی گیت نشر کرنے کا سلسلہ تو ایک د ِن پہلے ہی جاری ہو ُچکا تھا۔ لتا‘ رفیع‘ مہدی حسن‘ نورجہاں‘ نصیبو لال اور حدیقہ کیانی وغیرہ کی وجہ سے موسیقی کے میدان میں گھمسان کا َرن پڑا ُہوا تھا۔ بھانڈوں کا ٹولا جس نے دعوت میں لڑکی والوںکو شدید طنز کا نشانہ بنانے کا پروگرام بنا رکھا تھاساری رات نئے نئے لطیفے ،چٹکلے اَور جگتیںگھڑتا رہا۔مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ ایک بجے دوپہر تک ِپنڈال کھچا کھچ بھر گیا۔ اکثر مہمان محمد بخش و ّٹو کی تعریف میں مگن تھے کہ اُس کے ہاتھ قانون کے ہاتھوں سے بھی زیادہ لمبے ہیں اور وَٹّو خاندان کے کسی فرد پر ہاتھ ڈالناممکن ہی نہیں۔ سب چہک چہک کر باتیںکر رہے تھے۔ روسٹ چکن کی بھینی بھینی خوشبو ُپورے گائوں میں پھیل چکی تھی۔ اکثر مہمان گھر سے ناشتہ کیے بغیر ہی آئے تھے اوراُن کے چہرے ُمرغ کے تصو ّر سے دمک رہے تھے۔ مگر قدرت کوکچھ اور ہی منظور تھا۔ جونہی دیگیں َدم پر رکھی گئیںتین چار گاڑیاں تیزی سے آئیں اور دیگوں کے پاس آ کر رُک گئیں۔ سب سے آگے ایک جیپ تھی جس میں سے مجسٹریٹ صاحب باہر نکلے۔ دُوسری گاڑیوں میں سے دس پندرہ پولیس کمانڈوز نے بیک وقت چھلانگیں لگا ِئیں اور دیگوں کا محاصرہ کر لیا۔ مہمانوں نے یہ منظر دیکھا تو اُن کے چہروں پر َ ہوائیاں اُڑنے لگیں اور اُن کی بھُوک یک لخت غائب ہو گئی۔ ایک کے مُنہ سے نکلا "پُلس"،دُوسرے نے کہا : "چھاپا" ! اَور پھر سب نے دوڑ لگا دی۔ وہاں جو دو چارلنگڑے ، ُلولے اور اندھے گدا گر بیٹھے تھے وہ سب سے تیز بھاگے۔جب دُولھا میاں اور اُس کے والد ِ محترم کو پولیس کی آمد کا پتا چلا تو دونوں باپ بیٹا بھاگ کر گائوں کی گلیوں میں غائب ہو گئے۔ ایک ُخدا ترس شخص نے جو موقعے سے غائب نہیں ُہوا تھا ، مجسٹریٹ کو مشورہ دیا: "یہاں کے ایک دینی مدرسے میں غریب طلبا َرہتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہواگر ثواب ِدا رینکی خا ِطر یہ دیگیں وہاں پہنچا دی جائیں ! تھانے دار صاحب کو اُن کا مشورہ پسند تو نہ آیا لیکن مجسٹریٹ صاحب کی موجودگی میں اُنہیں ہاں کرنا پڑی۔ چنانچہ تمام دیگیں مدرسے کے حوالے کر دی گئیں۔ آخری خبریں آنے تک دُولھا میاں اَور اُس کے والد ابھی تک مفرور ہیں۔ پولیس دیگیں خالی کرنے کے بعد اُن کی تلاش میں جگہ جگہ چھاپے مار رہی ہے!