کیسے خیال خام کے رد و قبول سے نکلا ہوںمیں روایت وجدت کی دھول سے کشت خیال یار میں اک پیڑ کا گماں جس پر کسی یقین کے آئے ہیں پھول سے یہ جو سراب در سراب زندگی ہے، اس میں کیسے کیسے فریب ملتے ہیں۔ بعض لوگ تو سوچتے بھی معدے سے ہیں۔ان کا تو تذکرہ کرنا بھی حرمت حرف کے خلاف ہے۔میں تو ان کا تذکرہ کروں گا جوضمیرلے کر آئے تھے جن ے بارے میں ہم دعویٰ کرتے تھے کہ وہ اگر کرپشن کرنا بھی چاہیں گے تو نہیں کر سکیں گے۔ہم خود فریبی میں یہ بھی قبول کر لیں کہ دیانت کا پیکر جیسے بھی آئے بس آ جائے۔پھر وہ آ گیا کسی کی نیت پر شک کیا کرنا۔وہی جو میں نے اشعار بالا میں کہا کہ اس زمین میں پیڑ بھی اگا اور اس پر پھول بھی آئے مگر حسرت ان غنچوں پر ہے جو بن کھلے مر جھا گئے ۔ اس قول زریں سے کس کو انکار ہے کہ ملک پر کرپٹ لیڈر سے بڑا عذاب کوئی نہیں ہوتا۔ اس رائے پر تو کوئی دوسری رائے تو ہے ہی نہیں ۔یہ ساری اخلاقیات کی بات ہے یعنی ان باتوں کا تعلق باب اخلاق سے ہے جس نے رہنمائی کرنی ہے اگر وہی درست نہیں تو وہ راستہ بھٹکا دے گا۔دوسری بات یہ کہ کرپٹ لیڈر جو ٹیم بنائے گا وہ بھی تو اپنے جیسے لوگوں سے بنائے گا کیونکہ اس کو تو اپنے مہروں کی ضرورت ہو گی کہ بساط حکومت پر وہ اسی کی چال چلیں۔اگر ایسا ہو گا تو سمجھو چوروں کی پوری بارات تیار ہو گی ہاں ہاں میں سمجھتا ہوں مجبوریوں کو بھی ۔فراق نے کہا تھا: غم فراق تو اس دن غم فراق ہوا جب ان کو پیار کیا میں نے جن سے پیار نہیں جی جناب ایسا ہی ہوتا ہے قول و فعل کا تضاد تو اس وقت سامنے آتا ہے جب اختیار میں بندہ آتا ہے۔ لاکھ مصلحتیں سامنے آ جاتی ہیں آپ جن کو اپنا چپڑاسی رکھنا پسند نہیں کرتے اسے وزیر رکھنا پڑ جاتا ہے۔یہی تو امتحان کا وقت ہوتا ہے۔مگر اقتدار میں ناصح زہر لگنے لگتا ہے اور سارے چرب زبان خواہ وہ مرد ہو یا عورت قریب بلکہ عنقریب ہو جاتے ہیں: کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں اس بات سے کون کافر انکار کرے گا کہ قوم کا لیڈر قائد اعظم جیسا ہوتا ہے یا نینسن منڈیلا جیسا۔صاف اور شفاف بہتے ہوئے پانی کی طرح، جس پر سورج کی روشنی مسکراتی ہے۔لیڈر یقینا غیر ملکوں میں جائیدادیں نہیں بناتا اپنے بچوں کو باہر نہیں رکھتا ،اپنی عیدیں شبراتیں باہر نہیں گزارتا اور منی لانڈرنگ نہیں کرتا۔وہاں محلات نہیں خریدتا ،مہنگے ترین بازاروں سے نیکلس نہیں خریدتا۔یہ ساری باتیں درست ،مزید یہ کہ جو وزیر اعظم نے حوالہ دیا تھا کہ اسرائیل کے لیڈر سے تحفوں کا حساب مانگا گیا تھا۔پرویز مشرف کی طرح ذاتی طور پر بڑے تحفے قبول نہیں کرتا ایسے ہی فراق کا ایک اور شعر ستانے لگا: ہم سے کیا ہو سکا محبت میں تونے تو خیر بے وفائی کی اچانک مومن خاں مومن کا شعر بھی ذہن میں در آیا: تم نے اچھا کیا نباہ نہ کی ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کر کے ہم جھوٹ نہیں بولتے۔ ہاں ہاں ہم ہی دیانتدار قیادت کو لے کر آئے تھے اور کسی ہلکے سے مفاد کے بھی ہم کبھی کسی سے روادار نہیں رہے اور میرے قارئین یقین رکھیں کہ حرف کی حرمت ہمیشہ باقی رکھیں گے۔ہمیں تو بچپن سے میری تقی میر کا شعر پسند ہے: آگے کس کے کیا کریں دست طمع دراز وہ ہاتھ سو گیا سرہانے دھرے دھرے اتنا تو میں ضرور کہنا چاہوں گا کہ یہ میرا حق ہے کہ ا گرچہ بت ہیںجماعت کی آستینوں میں، مجھے ہے حکم اذاں لاالہ الااللہ ۔میں وزیر اعظم سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ اگر وہ لوگوں سے ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ نہ کرتے تو کون سی قیامت آ جانا تھی۔وہ صاف کہہ دیتے کہ آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔وہ کہہ دیتے کہ ہم پانچ سال میں نظام کو درست کرنے کی کوشش کریں گے۔وہ اپنے دوستوں سے کہتے کہ لیتے کہ خدا کے لئے عزت کا پاس رکھو اور لوٹ مار سے گریز رکھو۔ وہ اگر پیراشوٹرز کی بجائے اپنے نظریاتی دوستوں پر انحصار کرتے یا کم از کم ان کو بھی ساتھ رکھتے۔گورنر ہائوس اور وزیر اعظم ہائوس کو یونیورسٹیاں بنانے کا اعلان نہ کیا جاتا۔ یہ سب کچھ اس کے باوجود کہا گیا کہ جسے نبھا یا نہیں سکی جا سکا ۔ عوام کے عتماد اور اعتبار کی بھی پروا نہیں کی گئی۔ اے داغ اسی شوخ کے مضمون بھرے ہیں جس نے مرے اشعار کو دیکھا اسے دیکھا ایک دلچسپ بات بتائوں کہ ایک بہت بڑے پروگرام میں جو کہ آکسفورڈ والوں کا تھا، جناب عمران خان صاحب دیر سے آئے تو منتظمین نے مجھے کہا کہ خان صاحب کے آنے پر ایک غزل سنا دیں۔میں نے حکم کی تعمیل کی اور غزل کا مطلع پڑھا: لفظ ٹوٹے لب اظہار تک آتے آتے مر گئے ہم تیرے معیار تک آتے آتے خان صاحب مسکرائے ۔پھر ان سے ایک ملاقات بھی ہوئی۔ ایک میں ہی نہیں کتنے ہی تھے جو اس ملک میں تبدیلی چاہتے تھے ۔پھر آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف ،شہباز شریف کا بیان ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر مبنی بجٹ سلامتی کیلئے خطرہ ہے ویسے بھی عام آدمی اور خصوصاً غریب کیلئے تو مہنگائی سب سے بڑا عذاب ہے۔ بڑھتی گرانی نے لوگوں کو جیتے جی مار رکھا ہے۔ عوام کو دائیں اور بائیں رخسار پر تھپڑ لگائے جا رہے ہیں، کبھی پٹرول مہنگا اور کبھی بجلی۔َ اللہ ہی جانے ہمارا بنے گا کیا َیہ عذاب تو علامتی ہے وگرنہ دوسری طرف اس سودی نظام کا قرار پانا کس کو دعوت دیتا ہے۔سوچتا ہوں شرم آنے لگتی ہے کہ کسی ایک چور ڈاکو کو بھی سزا نہیں ہوئی بلکہ آرڈیننس کے ذریعہ ان کو تحفظ ملا وہ لیڈر جو دہری شہریت چھپاتے ہیں، قدم قدم پر دھوکہ دیتے ہیں،اقتدار کو طول دینے کیلئے ناجائز حربے کر رہے ہیں یہ سب کچھ کیا ہے۔لیکن کمال یہ کہ ان کی ساری غلط کاریوں کا عذاب صرف عوام بھگتتے ہیں۔ اب کورونا کے بعد میکرو وائرس کا خطرہ ہے ابھی تو کورونا فنڈز ہی کا معاملہ چل رہا ہے کہ کتنی کرپشن ہوئی۔ چلیے داغ کے شعر پر بات ختم کرتے ہیں: اپنی تصویر پہ نازاں ہو تمہارا کیا ہے آنکھ نرگس کی، دہن غنچے کا‘ حیرت میری