وہ اور لوگ تھے۔ وہ احساس،درد اور شعور رکھتے تھے۔ ہم غلام‘ ذہنی غلام۔ آزادی مل گئی باطن میں وہی اسیری۔ یہ ہیں نئے لوگوں کے گھر سچ ہے اب ان کو کیا خبر دل بھی کسی کا نام تھا،غم بھی کسی کی ذات تھی عدلیہ کا حال پہلے ہی پتلا تھا۔ دنیا بھر میں 120ویں نمبر پر۔ اب کیا اسے دفن کرنا مقصود ہے؟ ایک آدھ نہیں، تقریباً سبھی اس کے درپے ہیں۔ طرفہ تماشا ہے کہ شریف خاندان بھی عدل کا علمبردار ہوگیا ہے۔ مجسٹریٹ کی سطح سے عدالت عظمیٰ تک ایک ہزار قاضیوں کی کمی ہے۔ 2007ء میں جسٹس افتخار چوہدری کی برطرفی پہ عوامی تحریک برپا ہوئی۔ وکلاء اس کا ہراول دستہ تھے۔ ایسی جرأت و جسارت کا انہوں نے مظاہرہ کیا کہ پوری قوم اٹھ کھڑی ہوئی۔ ایسی تائید انہیں حاصل ہوئی کہ تحریک خلافت اور تحریک پاکستان کے سوا شاید ہی کوئی دوسری نظیر ہو۔ گیلپ نے سروے کیا تو انکشاف ہوا کہ 83فیصد پاکستانی، افتخار چوہدری کی شخصیت سے آشنا ہیں‘ چیف جسٹس اور ان کے ساتھی ججوں کو بحال کرنے کے حامی ہیں۔ بس ایک مولانا فضل الرحمن‘ بس ایک اسفندیارولی‘ مگر ان کے آباء تو تحریک پاکستان کے بھی حریف تھے۔ ابوالکلام نے باچا خاں کو پیغام بھیجا کہ سیاست چھوڑو‘ خدمت خلق کرو‘ پاکستان کمزور ہوا تو ہندوستان کے مسلمان بھی مجروح ہوں گے۔ خان صاحب نے منع کر دیا۔ کابل اور دلی سے تعلق برقرار رکھا۔ 1946ء کے انتخابات میں، قائد اعظمؒ کی مسلم لیگ کو 75.6فیصد ووٹ ملے تھے، جو اخلاقی عظمت کا لہکتا ہوا استعارہ تھے۔ ایسا شاندار اتحاد افتخار چوہدری کے لیے برپا نہ ہوا تھا بلکہ اس عدل کی آرزو میں، ہمیشہ سے معاشرہ جس کے لیے ترس رہا تھا۔ اس کے بعد مگر کیا ہوا؟ وکیل گردی اور ایسی وکیل گردی کہ خدا کی پناہ۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا۔ لاہور کے انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی سے ایک وکیل ناخوش ہوا تو کالے کوٹ ہسپتال پہ چڑھ دوڑے۔ ڈاکٹروں کو مارا پیٹا اور مریضوں کے منہ سے آکسیجن کی نالیاں کھینچ نکالیں۔ ججوں پہ یلغار کی، گالیاں بکیں، ان کے دفاتر پہ پتھر پھینکے، حتیٰ کہ عدالتوں کو تالے تک لگائے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تسلسل سے سماعت کرنے والی عدالتیں قائم کیں۔ ایک آدھ ماہ میں قتل کے مقدمات فیصل ہونے لگے۔ وکلاء کو صدمہ پہنچا، رفتار مدھم ہونے لگی، آخر کار بساط ہی لپیٹ دی گئی۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جو کارنامے انجام دیئے۔ ان کے فرزند ارجمند نے جو کرشمے دکھائی،ایک پوری کتاب بھی شاید اس کا احاطہ نہ کر سکے۔ تحریک کے ہنگام، بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا تھا:عدالت ہو گی ماں کے جیسی، ریاست ہو گی ماں کے جیسی۔ جج بحال ہوچکے تو معلوم ہوا کہ واسطہ اب پتھر دلوں سے ہے۔ ججوں کے تقرر کا اختیار انہوں نے عدلیہ کو سونپ دیا بلکہ خود اپنے آپ کو۔ اعتزاز احسن شرمندہ تھے اور ہر صاحب ادراک۔ طریقِ کوہکن میں بھی وہی پرویزی حیلے۔ انصاف اب بھی نایاب تھا بلکہ پہلے سے زیادہ ادق۔ عام آدمی کے مقدر میں وہی ٹھوکریں، بلکہ پہلے سے زیادہ۔ پاکستانی عدلیہ کو کس نے پامال کیا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مل جل کر سبھی نے۔ حکمرانوں نے، خود جج صاحبان نے، وکلاء انجمنوں نے، پوری اشرافیہ نے۔ صدیوں سے یہی اس کا شعار ہے ۔ مایوسی کی ماری قوم خود کو جب حکمرانوں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دے تو یہی ہوتا ہے۔ شریف خاندان کی نون لیگ اب عدالتی عظمت کا علم اٹھائے کھڑی ہے۔ انگریزی محاورے کے مطابق منکر بائبل کی تلاوت فرماتا ہے۔ خدا کی پناہ! کیا یہ وہی نواز شریف نہیں، شہباز شریف نے جن کے ایما پر جسٹس عبدالقیوم سے فرمائش کی تھی: بے نظیر بھٹو کو سات سال کے لیے جیل بھیج دو۔ جج صاحب نے کہا: قانون میں گنجائش نہیں۔ شہباز شریف کا استدلال یہ تھا:یہ بات بھائی جان نے کہی ہے۔ ’’فرتے گل ای مک گئی‘‘۔ تو بات طے پا گئی۔ شریف خاندان، اس پہ کبھی شرمندہ ہوا؟ کیا یہ وہی لوگ نہیں، سپریم کورٹ پر جنہوں نے یلغار کی تھی اور اس طرح کہ جیسے غنیم پہ حملہ کیا جاتا ہے۔ جج حضرات کو فرار ہونا پڑا۔ جماعت اسلامی پہ مولانا منظور نعمانی نے تنقید کی تو کسی نے کہا:آپ کا لہجہ سخت ہے۔ اس سے قطعِ نظر کہ ان کا مؤقف کیا سو فیصد درست تھا یا جزوی طور پر آپ کا جواب آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ فرمایا: ’’میرے پاس دو ترازو نہیں۔‘‘ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے:کسی قوم کی دشمنی زیادتی پر تمہیں آمادہ نہ کرے۔ انصاف کرو کہ یہی تقویٰ ہے۔ تقویٰ تو الگ، نظام انصاف اس معاشرے میں نوٹنکی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بس اقوال رہ گئے،آئے دن جو دہرائے جاتے ہیں۔ سرکارؐ کا ارشاد مبارک: اس لیے پچھلی قومیں برباد ہوئیں کہ کمزوروں کو سزا دیتیں اور طاقتوروں کو چھوڑ دیا کرتی تھیں۔ قرآن کریم کا فرمان:اے وہ لوگو، جو احساس اور شعور رکھتے ہو، جان لو کہ زندگی قصاص میں رکھی گئی۔ عالی مرتبت امام زین العابدینؓ نے کہا تھا:اتنی اذیت مجھے کر بلا میں نہ پہنچی، جتنی اہلِ کوفہ کی خاموشی پر۔ کوفہ ایک شہر نہیں، ایک خاموش امت کا نام ہے۔ ہر وہ شہر کوفہ ہے اور اس کے مکین کوفی، جہاں ظلم ہو اور اس کے مکین خاموش رہیں۔ کسی کو سروکار نہیں، عدالتیں نہ وکیل، لیڈر نہ حکمران، دانشور نہ علمائ، عدل سے کسی کو سروکار نہیں۔ وگرنہ سماج کیا اس قدر خستہ و برباد ہوتا ؟ امید کا چراغ کیا اس طرح بجھ گیا ہوتا؟ بادہ نوشوں کے ایک گروہ کو فاروق اعظمؓ نے جا پکڑا اور عدالت میں پیش کیا۔ بادہ نوش ہی سہی، پرلے درجے کے خطا کار ہی سہی۔ مدینہ کے سب مکین مگر زندہ لوگ تھے۔ قاضی سے انہوں نے کہا:امیرالمومنین سے یہ تو پوچھئے کہ ہماری چار دیواری پھلانگنے کا حق انہیں کس نے دیا؟ معافی مانگنا پڑی، فاروق اعظمؓ کو معذرت کرنا پڑی۔ وہ آدمی جس کی ہیبت مشرق و مغرب کو محیط تھی ۔ اپنے عہد کے سب سے جید آدمی مگر بالا اصول تھا، اہمیت قانون کی تھی۔ وہ آدمی، جس کی تدفین کے ہنگام جناب عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا تھا: آج علم کے دس میں سے نو حصے اٹھ گئے۔ دوسرا واقعہ بھی انہی کا ہے۔ ایک بدو سے گھوڑا خریدا۔ سوار ہوئے تو پتہ چلا کہ ایک پائوں میں نقص ہے۔ واپس کرنا چاہا تو ٹکا سا جواب اس نے دیا۔ بے چارگی میں کہا: کیا ہم ایک ثالث پہ اتفاق کر سکتے ہیں۔ یہ شریح بنی حارث تھے، جو اسی لیے جج بنائے گئے اورابدالآباد تک جو یاد رکھے جائیں گے۔ بدو کو حق بجانب قرار دیا۔ امیرالمومنین سے کہا: خریداری سے قبل جانچنا آپ کی ذمہ داری تھی۔ اصحاب تو خیر اصحاب تھے، تاریخ کا ایک عظیم استثنیٰ۔تیر اندازی کے ہنگام ملکہ نور جہاں کے ہاتھوں ایک راہگیر جاں بحق ہوا تو شہنشاہ جہانگیر نے تحفظ کا ہاتھ اٹھا لیا۔ یہ الگ بات کہ وارثوں نے معاف کر دیا۔ جہانگیر کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ کہا: اگر تم چلی جاتیں تو میرا کیا ہوتا۔ عدلِ جہانگیری کا محاورہ یونہی وجود میں نہیں آیا۔ وہ اور لوگ تھے۔ وہ احساس،درد اور شعور رکھتے تھے۔ ہم اور لوگ ہیں، غلام ابن غلام۔ آزادی مل گئی باطن میں وہی اسیری۔ یہ ہیں نئے لوگوں کے گھر سچ ہے اب ان کو کیا خبر دل بھی کسی کا نام تھا،غم بھی کسی کی ذات تھی