یہ ایک نان بائی کا تندور ہے اوراس کے باہر ایک طرف دیوارپر ایک خاکی ٹوکری لٹکی ہوئی ہے ۔نان بائی کے پاس گاہک آتاہے جسے کھانے کو توچارنان ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ پیسے آٹھ نان کا اداکرتاہے ۔نان بائی گاہک سے مخاطب ہوتاہے’’ بھائی صاحب ! کیا آپ سے کوئی چوک ہوگئی کہ چار کی بجائے آٹھ نان کے پیسے آپ نے میرے ہاتھ میں تھمادیئے؟ گاہک جواب دیتاہے : نہیں جناب، مجھ سے غلطی نہیں ہوئی ۔ چار نان تو میں نے اپنے بچوں کیلئے خریدلئے اورباقی چارنان کو آپ نے نیکی کی ٹوکری میں ڈالنے ہیں۔یہ جواب سن کرنان بائی تندور سے مزیدچارنان نکال کرنیکی کی ٹوکری میں ڈال دیتاہے اورگاہک وہاں سے چلا جاتاہے۔ کچھ دیر بعدایک اور گاہک تندور پر آتاہے جوپہلے گاہک کی طرح دو نان یاچارنان اپنے لئے جبکہ اتنی ہی تعدادمیں نان خریدکرکے نیکی کے ٹوکرے میں ڈال دیتاہے۔ یوںیہ سلسلہ شام تک اسی طرح چلتاہے لیکن نیکی کی ٹوکری اس کے باوجود بھی بھرنے کا نام نہیں لیتی ۔کیوں؟ کیونکہ اس ٹوکرے کے پاس بے شمارایسے لوگ بھی آتے ہیں جو پیسے اداکیے بغیر اس سے حسبِ ضرورت نان نکال کر چلے جاتے ہیں۔ لینے والے اصل میں وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں ہم اپنے معاشرے میں غربائ،مساکین اور محتاجوں کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ قارئین کرام !یہ تحریری خاکہ ایک خیالی اورمن گھڑت کہانی کا خلاصہ نہیں ہے بلکہ یہ ترکی کے عثمانی دور میںمحتاجوں کوکھانا فراہم کرنے کی ایک قابل رشک روایت رہی تھی ۔ عثمانی دور کے لوگ ،اسی زمانے کے خلفاء ،اور نان بائی بے شک اب نہیں رہے لیکن ان لوگوں کی یہ اچھی روایت رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی ۔یہ ایک ایسی روایت ہے جس پرعمل درآمد کرنے کی قدرت ایک معمولی آمدن رکھنے والا بندہ بھی رکھتاہے۔ یعنی ایک بندے کی انتہائی قلیل قربانی کی بدولت معاشرے کے بے شمار محتاجوں اور مساکین کا گزر بسرہوسکتاہے۔ نیکی کی اس ٹوکری کی روایت کو پروموٹ کرکے اس کے بے شمار فائدے ہم دیکھ سکیں گے ۔مثال کے طور پر نیکی کی ٹوکری کی روایت چل پڑنے سے معاشرے میں آپ کو کبھی ایسے گداگر نہیں ملیں گے جو دو وقت کی روٹی کیلئے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوں ۔ نیکی کی ٹوکری کا اہتمام کرنے کادوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم بڑی آسانی کے ساتھ پیغمبر اسلام ﷺ کی اس حدیث مبارک کی وعیدسے بھی بچ پائیں گے جس میں آپﷺ نے فرمایاہے کہ ’’ وہ بندہ مسلمان نہیں ہوسکتاہے جو خود تو پیٹ بھر کر سوجاتاہے اور اس کا ہمسایہ بھوکارہتاہیــ‘‘۔ تیسرا فائدہ نیکی کی ٹوکری کا یہ ہوگاکہ ایسا کرنے سے معاشرے میں بخل کا خاتمہ ہوگا اور دوسروں کو نیکی کی ٹوکری میں روٹی ڈالتے دیکھ کر ہر کسی کے دل میں اس نیک کام میں حصہ لینے کی ہمت پیدا ہو گی ۔ نیکی کے ٹوکرے کو بازاروں میں لٹکانے کا چوتھا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم اس میں تھوڑا سا کنٹری بیوشن کرکے بھی دلی سکون محسوس کریں گے ۔ پانچواں فائدہ یہ ہوگا کہ تھوڑی تھوڑی قربانی کرکرکے ہم مستقبل میں بڑی قربانی دینے کیلئے بھی مستعد ہوپائیں گے ، علیٰ ھٰذاالقیاس ۔ نیکی کی ٹوکری کا مطلق یہ مطلب نہیں کہ خوامخواہ نان بائی کے تندور پر آپ نے اس نوع کے ٹوکرے کو تلاش کرنا ہوگا ورنہ دوسری صورت میں محتاجوں کی اعانت نہیں کرنی چاہیے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ کسی بھی صورت میں معاشرے کے مجبور اور بے کس لوگوں کو ہمیںکچھ نہ کچھ ریلیف پہنچانا چاہیے۔کوئی مجھ سے اتفاق کرے یا نہ کرے لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ پہلے بھی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم تھی ، اس وقت بھی یہی بے انصافی ام المسائل ہے اور آئندہ بھی اس ملک کا بنیادی مسئلہ ملکی دولت اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم ہی ہوگی ۔ جہاں ایک طرف چند ہزار لوگ پورے ملک کی نصف سے زیادہ دولت پرقابض اور مزید امیر سے امیرتر ہوتے جارہے ہیں اور دوسری طرف ملک کی نصف آبادی غربت کی دلدل میں پھنستی جارہی ہے تو لازمی بات ہے کہ وہاں بحران ہی بحران ہونگے ۔ وہاں جرائم اورشورشوںکی شرح کو نیچے لانا ممکن ہوگا نہ ہی اپنے حقوق کیلئے روزاحتجاج کرنے والوں کو قابو میں لایاجاسکے گا۔ یہاں تک کہ انصاف کی عدم دستیابی بالآخر علیحدگی پسند سوچ کے حامل لوگوں کو بھی سنہری مواقع فراہم کرے گی۔ اللہ کے پیغمبر نے ایک مرتبہ غربت اور مفلسی کے بارے میں فرمایا کہ یعنی قریب ہے کہ محتاجی بندے کو کفر تک لے جائے۔ اس سے پہلے کہ ہم ماضی کی بحرانوں کے مقابلے میں کہیں سخت بحرانوں کاسامناکرسکیں، ہمیں ایک ریاست کے طور پر بھی اور انفرادی طور بھی غربت مٹاومہم میں تابہ مقدور اور مخلصانہ کردار ادا کرنا چاہیے ۔