ایک چیز خوش اخلاقی بھی ہوتی ہے۔بائیس کروڑ کا ایک پورا پیچیدہ ملک تو کیا، ایک چھوٹا سا دفتر او ر گھر بھی جس کے بغیر چلایا نہیں جا سکتا۔ محمد علی جوہر کا اسیری کے باب میں اقبالؔ نے کہا تھا: قطرہ نیساں ہے ‘زندانِ صدف سے ارجمند وزیرِ اعظم کی تلخ نوائی نے حیرت زدہ کر دیا۔ سوالات کا جواب ہی نہیں، بیچ بیچ میں وہ خطاب بھی فرماتے رہے۔ تلخی ہی نہیں، ان کے لہجے میں بے حد مایوسی اور برہمی بھی تھی۔ ایسے شدید ذہنی دباؤ کاشکار ملّاح طوفانی پانیوں سے ساحل تک کیسے پہنچے گا۔ ہاں میں ہاں ملانے والے ناقص مشیروں کی فوجِ ظفر موج کے درمیان ‘خود پہ وہ قابو کیسے پائیں گے۔ ان کے اطوار میں مسرت تھی، نہ غم، فقط پریشانی ہی پریشانی۔ شاعر ؔنے کہا تھا: یہ تو برے آثار ہیں فانی ؔ غم ہو، خوشی ہو کچھ تو ہو یہ کیا دل کا حال ہوا مسرور نہیں مغموم نہیں پھر وہ آدمی مجھے یاد آیا، بتیس برس سے جس کی کردار کشی جاری ہے۔ جس کی خامیاں، نقائص اور جرائم ہمیشہ بیان کیے جاتے ہیں، تصویر کا دوسرا رخ کبھی نہیں۔ پندرہ برس ہوتے ہیں، لئیق احمد خاں سے جب ملاقات ہوئی۔ بیتے دنوں کی بازگشت ان پہ بھاری تھی۔ جیسے ہی جنرل محمد ضیاء الحق کے بارے میں سوال کیا،جن سے لئیق وابستہ رہے تھے، ایک عجیب کیفیت ان پہ بیت گئی۔جیسے کھو جانے والی کسی نادرہستی کی یاد جو محبوب رہی اور خیال کی دنیا میں اب بھی جگمگاتی ہو۔ لئیق احمد خاں ایک سبکدوش پولیس افسر تھے اور اب ایک نجی ادارے سے وابستہ۔ سیدھے سادے، عام سے پاکستانی۔ سیاست کی پیچیدگیوں سے کوئی واسطہ ،نہ ادب و صحافت کے کوچے میں گزر۔ اپنا خاندان، اپنا وطن اور اپنے فرائض۔ کچھ دیر وہ خاموش رہے۔ بولے تو بدلی ہوئی آواز تھی ’’وہ ایک اور طرح کے آدمی تھے‘‘ اور رک رک کر ایک واقعہ سنایا، جیسے مسافر مدتوں بعد کسی راستے پہ قدم رکھے، دھندلکے میں: مجھے حکم دیا گیا کہ شیشے کا فریم بنانے والے کسی مردِ معقول کو تلاش کیا اور ایوانِ صدر لایا جائے۔ مری روڈ راولپنڈی کے ایک ہنر مند سے درخواست کی اور وہ آمادہ ہو گیا۔ ’’جنرل کا ہم انتظار کرتے رہے اور یہ انتظار طویل تھا‘کسی کام کو کبھی جنرل ادھورا نہ چھوڑتا۔ نمٹا کر ہی اٹھتا۔ بالاخر وہ آن پہنچے اور عصر کی نماز کا وقت قریب آلگا تھا،فوراً ہی مجھے یاد کیا او راپنے مہمان کے بارے میں پوچھا۔‘‘ اچانک پھر ایسا سوال کیا، جو لئیق احمد خاں کے حاشیہ ء خیال میں بھی نہ تھا’’کیا آپ نے مہمان کو کھانا کھلایا؟‘‘خاں صاحب خاموش رہے۔ یہ بات انہیں سوجھی ہی نہ تھی۔ یہ ان کے فرائض میں نہیں تھا۔ انہیں سکھایا ہی نہ گیا تھا۔ وہ خاموشی رہے اور ان کی خاموشی کا مطلب آشکار تھا۔ صدر کو انہوں نے ناراض پایا۔ ان کے چہرے کا رنگ سرخ ہو تا گیا۔ آخر انہوں نے زبان کھولی تو آواز میں رنج تھا ’’خود تو آپ نے سیر ہو کر کھایا اور مہمان کو بھول گئے‘‘پھر ہدایت کی کہ مہمان کو ماحضر پیش کرنے کے بعد ان کے پاس لایا جائے۔ مری روڈ کا گمنام کاریگر کھانا کھا چکا تو باوردی صدر معذرت خواہ ہوا کہ آداب کا خیال نہ رکھا گیا۔ پھر بتایا کہ غلافِ کعبہ کا ایک ٹکڑا فریم کرنا ہے۔ دیر تک وہ شیشے اورلکڑی اور اس کے رنگ او ر سائز کے بارے میں بات کر تے رہے۔ وہ جزئیات کے رسیا تھے، چھوٹی چھوٹی چیزوں کا خیال رکھنے والے۔ اس تمام بحث میں وہی تپاک اور سادگی، وہی بے تکلفی اور بے ساختگی جو ان کے مزاج کا کبھی نہ الگ ہونے والا حصہ تھا۔ پھر مہمان کو رخصت کرنے وہ کمرے سے باہر آئے۔ خان صاحب واقعہ سنا چکے تو ایک بار پھر کہا: جنرل صاحب ایک اور طرح کے آدمی تھے۔ ایک لئیق احمد خاں ہی کیا، 17اگست 1988ء کو جنرل دنیا سے اٹھا تو ان کے ساتھ بسر کرنے والے ہر شخص کے پاس ایک کہانی تھی۔ اس آدمی کی داستانِ حیات کے اوراق، جس نے کبھی کسی کو حقیر نہ جانا۔ جس کے لیے اللہ کی زمین پہ حرکت کرنے والا کوئی انسان معمولی نہیں تھا۔ ایک کہانی میرے پڑوسی نیوز ایڈیٹر بشارت علی سید نے سنائی۔ فوجی افسر یونٹ کے طعام گھر میں ضرور جاتے ہیں۔ جوانوں کا کھانا ضرور چکھتے ہیں، جن کے معاوضے معمولی اور فرائض غیر معمولی ہوتے ہیں۔ جنہیں ایک مشکل زندگی بسر کرناہوتی ہے۔ سحر خیزی، سخت ورزش اور فرائض ادا کرنے میں کبھی نہ بگڑنے والی ترتیب کا اہتمام۔ کاکول اکیڈمی میں ہر فوجی افسرکو سکھایا جاتا ہے کہ جوانوں کی عزتِ نفس کا خیال رکھے اور یہ کہ دستیاب وسائل میں ان کے کھانے کو بہترین بنانے کی کوشش کی جائے۔ مشرقی پاکستان کے گورنر عبد المالک نے یحییٰ خان سے سوال کیا کہ کیا انہیں گورنر ہاؤس کا طعام پسند آیا۔ بلانوش اور پرخور آدمی نے کہا ’’اچھا ہے مگر فوجی میس میں پکنے والی چنے کی دال سے کمتر‘‘ جنرل ضیاء الحق میس کا جائزہ لے چکے تو تنور پہ پہنچے۔ انہوں نے دیکھا کہ بہت سی تازہ اور عمدہ چپاتیوں کے ساتھ ایک طرف جلی ہوئی روٹیوں کا چھوٹا سا ڈھیر بھی پڑا تھا۔ انہوں نے پوچھا تو دوپہر کی دھوپ میں جھنجھلائے ہو ئے آدمی نے کہا ’’آپ میری جگہ ہوتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ زندگی کتنی دشوار ہے۔‘‘ چاروں جانب سناٹا تھا اور پھر اس سناٹے میں ایک تھپڑ کی آواز۔ کوئی دوسرا فوجی افسر ہوتا تو کہانی یہیں تمام ہو جاتی لیکن جنرل جس طرح کا آدمی تھا‘ اس میں یہ داستان کا آغاز ہوا کرتا ہے۔ کچھ دن بعد جب وہ عمرے پر جانے والے تھے، تندورچی کو انہوں نے مدعو کیا اور معافی مانگی۔ معاف تو اس نے کر دیا مگر وہ ایک دل جلا آدمی تھا۔ جاتے ہوئے بولا: آپ افسر بھی کمال لوگ ہیں۔ بھڑکیں تو پیٹ ڈالیں اور چاہیں تو معافی مانگ کر دل کا بوجھ ہلکا کر لیں۔ جنرل خاموش کھڑا رہا۔ کچھ دن کے بعد اسے دوبارہ مدعو کیا۔ ایوانِ صدر نہیں بلکہ اپنے گھر میں‘ اہلِ خاندان کے ساتھ۔ انہوں نے کھانا کھایا۔ خاندان کے سب لوگوں نے مدعو گھرانے کو تحائف پیش کیے اور بہت عاجزی کے ساتھ معافی کی التجا کی۔ معاف کرنے کے سوا اب کیا چارہ تھا۔ فوجی حکومت کا کوئی جواز نہیں۔ یہ steroidکی طرح ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ سول اداروں کو جو برباد کر ڈالتی ہے۔ بہترین حکومت سول اداروں کے بل پہ چلائی جاتی ہے۔ ہاں! مگر تلخی، تندی اور برہمی سے نہیں۔ ایک چیز خوش اخلاقی بھی ہوتی ہے۔ایک پورا ملک تو کیا، ایک چھوٹا سا دفتر او ر گھر بھی جس کے بغیر چلایا نہیں جا سکتا۔ ایک چیز خوش اخلاقی بھی ہوتی ہے۔بائیس کروڑ کا ایک پورا پیچیدہ ملک تو کیا، ایک چھوٹا سا دفتر او ر گھر بھی جس کے بغیر چلایا نہیں جا سکتا۔ محمد علی جوہر کا اسیری کے باب میں اقبالؔ نے کہا تھا: قطرہ نیساںہے ‘زندانِ صدف سے ارجمند