سینٹ الیکشن کی ٹرانسمشن کے دوران وزیر اعظم عمران خان کی شخصیت پہ سب سے دلچسپ تبصرہ جناب حسن نثار کا تھا۔ انہوں نے اقبال کے اس مصرعے کا حوالہ دیا اور کہا کہ میر کارواں کے لئے جن خصوصیات کا ہونا اشد ضروری ہے۔ عمران خان اس میں سے صرف ایک تہائی کے حامل ہیں۔ ان کی نگاہ بلند ہے‘ مقاصد اعلیٰ تر ہیں‘ کرپشن سے پاک ہیں لیکن نہ ان کا سخن دلنواز ہے نہ جاں پرسوز۔ نہ وہ لوگوں سے ملتے ہیں اور نہ دیرینہ تعلقات کی لاج رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ قومی اسمبلی میں باقاعدگی سے حاضر ہوا کریں گے اور بذات خود ممبران کے سوالوں کے جوابات دیا کریں گے۔ سوالوں کے جواب دینا تو درکنار عمران خان شاذو نادر ہی اسمبلی کے کسی اجلاس میں نظر آئے۔ اسمبلی سے غیر حاضری میں اگر انہوں نے میاں نواز شر یف کا ریکارڈ توڑا نہیں تو برابر ضرور کر دیا ہے۔ ممبران اسمبلی ان کی ملاقات کو ترستے ہیں۔ان کی نظر التفات کیبنٹ کے غیر منتخب شدہ اراکین پر زیادہ ہے۔ حفیظ شیخ‘ رزاق دائود‘ زلفی بخاری‘ ندیم بابر اور عاصم باجوہ جیسے لوگ ان کی آنکھ کا تارا ہیں ، وہ جب چاہیں اذنِ باریابی حاصل کر سکتے ہیں۔ ان کی شخصیت کا ایک اور پہلو بڑا عجیب ہے ۔ وہ ایماندار ہیں‘ دولت کا لالچ نہیں رکھتے لیکن امیر و کبیر لوگ انہیں بھاتے ہیں۔ شاید ہی کسی غریب ممبر کو ان کا قرب حاصل ہو۔زراعت و باغبانی کے بارے میں بھی وہ مشورہ صنعت کاروں کا ہی مانتے ہیں۔ اگر وہ اپنے اصول توڑتے ہیں، تو وہ بھی امراء کے لئے۔غریب آدمی کے لئے وہ اصول پر سختی سے کاربند رہتے ہیں۔ بڑے آدمی کو قانون کے نیچے لانے کی گردان تو انہیں ازبر ہے لیکن جب معاملہ فیصل واوڈا جیسے کسی شخص کا آن پڑے ،تو انہیں پارٹی کے لئے ان کی خدمات یاد آ جاتی ہیں۔ یہ کیا خدمات ہیں، خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ محمد مدنی جیسے کارکن جنہوں نے اپنی درخواست میں اپنا واحد اثاثہ عمران خان اور تحریک انصاف کو قرار دیا‘نظر انداز کر دیے جاتے ہیں اور انہیں وعدہِ فردا پر ٹال دیا جاتا ہے۔ اگر ایسا ہو گا، تو پارٹی سے ردعمل تو آئے گا۔ حفیظ شیخ کی شکست اسی ردعمل کی آئینہ دار ہے۔ نسبتاً غیر معروف امیدوار فوزیہ ارشد نے وزیر خزانہ سے 10ووٹ زیادہ لئے اور فتح سے ہمکنار ہوئی۔اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ شکست پی ٹی آئی کو نہیں بلکہ حفیظ شیخ کو ہوئی ہے۔ اس شکست میں پی ٹی آئی اور خاص طور پر عمران خان کے لئے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ اگر آپ نے اس ملک میں سیاست کرنی ہے ،تو آپ کو اس ملک کے طور طریقے اپنانا ہوں گے۔ چند سال میں آپ اس ملک میں برطانوی جمہوریت نہیں لا سکتے۔این آر او نہیں دوں گا‘سنتے سنتے لوگوں کے کان پک گئے ہیں لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ پر ہے کہ آپ آج تک ایک بڑے سیاستدان کا احتساب کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوئے اور نہ ہی کوئی بیورو کریٹ احتساب کے شکنجے میں آیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بیورو کریسی میں آج تک حکومت سے زیادہ ن لیگ کا اثرونفوز ہے۔ کیا حکومت کو اپنی اس نااہلی پر غور نہیں کرنا چاہیے۔کیا پورے پانچ سال آپ گزشتہ حکومتوں کو ہی ہر کمزوری کے لئے ذمہ دار ٹھہراتے رہیں گے۔ کیا آپ اپنے دور کی ذمہ داری بالکل بھی قبول نہیں کریں گے۔ دوسری طرف ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے ببانگ دہل ووٹ کی تجارت میں مصروف ہیں۔ اس وقت پی ڈی ایم کا شاہ دماغ آصف علی زرداری ہیں۔وزیر خزانہ کی شکست نے آصف زرداری کی پوزیشن اور بھی مضبوط کر دی ہے۔ اب پی ڈی ایم میں کوئی دوسرا نہیں جو آصف زرداری کی پالیسی کو چیلنج کر سکے۔ آصف زرداری نے تو پہلے کہہ دیا تھا کہ ہم سے کچھ سیکھیں اور اب ماشاء اللہ پوری پی ڈی ایم ان کے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے بیٹھی ہے۔ اصول کی سیاست قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ یوسف گیلانی کے فرزندِ ارجمند نے پریس کانفرنس کر کے اس میں فخریہ اعلان کیا کہ وہ ویڈیو درست ہے اور انہوں نے پی ٹی آئی کے دوستوں سے ملاقات کی ہے اور انہیں ووٹ ضائع کرنے کے گر سکھائے ہیں۔ الیکشن کمشن خاموش تماشائی ہے اور فخر سے کہہ رہا ہے کہ وہ ایک قومی ادارہ ہے اور اس پر کیچڑ نہ اچھالا جائے۔لیکن اس کیچڑ کا کیا ہو گا، جو کوئی بھی ادارہ خود اپنے اوپر اچھالے گا۔ دنیا کا کوئی ضابطہ کوئی قانون زبردستی اپنی عزت نہیں کروا سکتا ،جب تک وہ خود ایسے کام نہیں کریں گے کہ ان کی عزت کی جائے۔ بے شک عزت اور ذلت دینے والا اللہ تعالیٰ ہے اور وہ ناانصافی نہیں کرتا۔ دنیا کی سب عدالتوں سے بڑی ایک عدالت برحق ہے۔ وہاں شاید عام لوگوں کے لئے تو کوئی رعایت ہو جائے لیکن ان کے لئے ہرگز نہ ہو گی ،جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انصاف کرنے کا فریضہ سونپا ہے۔ دھرتی ماں کو گٹر کہنے والے انشاء اللہ گٹر ہی کا رزق بنیں گے۔تکبر صرف اللہ ہی کو زیبا ہے۔حفیظ شیخ کی شکست میں اللہ تعالیٰ نے حکومت کو اپنی سمت درست کرنے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ چاپلوس ساتھیوں سے پیچھا چڑھائیں اور اپنی پارٹی کے اصل لوگوں سے مشورہ کریں کہ انہیں عام آدمی کے لئے کیا کرنا چاہیے۔عام آدمی مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے اور فوری ریلیف چاہتا ہے۔ اگر عام آدمی کے مسائل کا ادراک نہ کیا گیا، تو حکومت آپ کی مٹھی سے ریت کی طرح سرک جائے گی اور آپ دیکھیں گے کہ آپ کے جانثار ساتھی نئی بننے والی حکومت میں وزیر بنے ہوں گے۔کوئی وزیر خزانہ ہو گا‘ کوئی کامرس کا محکمہ سنبھالے گا اور کوئی وزیر اعلیٰ پنجاب ہو گا۔ آخر میں میرے عزیز دوست اور صاحب طرز شاعر محمد شمیم سردار چند اشعار ؎ اک جیت پہ اک سمت ہیں فرماں میرے احباب اک ہار پہ انگشت بدندان میرے احباب تھے میرے ہی احباب خریدا ہے جنہوں نے جو بک گئے وہ بھی ہیں مری جاں میرے احباب دیتا ہے شہادت یہ حمام آج کہ اس میں ننگے ہیں برابر ہمہ یاراں میرے احباب ہر سمت کروڑوں کی صدا گونج رہی ہے صد شکر کہ ملتے نہیں ارزاں میرے احباب ٭٭٭٭٭