گزشتہ چند سالوں سے سنکیانگ کے مسلمانوں کے بارے میں انسانی حقوق کی کچھ عالمی تنظیموں اور بی بی سی وغیرہ کی طرف سے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی پامالی کی تردید کی گئی مگر اب معاملہ اقوام متحدہ کے کمشن برائے انسانی حقوق تک جا پہنچا ہے جہاں مختلف ممالک کے دو گروپ سامنے آ چکے ہیں۔22 ممالک پر مشتمل گروپ میں یورپ کے جمہوری ممالک اور جاپان و کینیڈا وغیرہ شامل ہیں جو یو این او کے ذریعے سنکیانگ میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے انتہائی ناروا سلوک کی مکمل تحقیق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔دوسرے گروپ میں چین کے حمایتی 37ممالک شامل ہیں جن میں روس‘ سعودی عرب اور پاکستان وغیرہ بھی ہیں۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ چین انسانی حقوق کا محافظ ہے اور انسانی حقوق کی پامالی اور سنکیانگ میں مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی کی خبروں میں صداقت نہیں۔ یو این او میں ان دوگروپوں کے سامنے آنے سے خدشہ یہ ہے کہ مسئلہ انسانی کے بجائے کہیں سیاسی نہ ہو جائے۔ تاہم ہم مختلف خبروں کے آئینے میں اس ’’انسانی ٹریجڈی‘‘ کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ سنکیانگ کہاں ہے؟ سنکیانگ چین کے انتہائی مغرب میں واقع ہے۔ یہ ملک کا سب سے بڑا علاقہ ہے۔ تبت کی طرح یہ خود مختار صوبہ ہے۔ عملاً تو ایسا نہیں مگر کاغذوں کی حد تک سنکیانگ کو ’’خود مختاری‘‘ حاصل ہے۔سنکیانگ کی بیجنگ سے الگ حکومت ہے۔ اس علاقے کی مجموعی آبادی 2کروڑ 60لاکھ ہے جن میں اویغور تقریباً نصف ہیں۔ سنکیانگ کی سرحدیں ہندوستان‘ افغانستان‘ پاکستان اور منگولیا سے ملتی ہیں۔ اویغور ترکی النسل مسلمان ہیں۔ اور ہیومن رائٹس واچ جیسی تنظیموں کی رپورٹوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ جن مسلمانوں کے دوسرے مسلم ملکوں سے رابطے ہوتے ہیں ان کی برین واشنگ کے لئے انہیں حراستی کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ان کیمپوں سے آزادی پانے والے بعض مسلمانوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کیمپوں میں ان پر جسمانی و نفسیاتی تشدد کیا جاتا ہے۔ وہ ہمیں سونے نہیں دیتے۔ ہمیں لٹکاتے اور پیٹتے ہیں۔ ان کے پاس جسم میں چبھونے کے لئے سوئیاں اور ناخن کھینچنے کے لئے پلاس ہوتے ہیں۔ رات کے وقت ہم پلاسٹک کا اپنا اپنا کٹورا لے کر قطار میں کھڑے ہوتے ہیں اور ہم بآواز بلند چین کے حق میں طویل گانا گاتے ہیں تب کہیں جا کر ہمیں کھانا ملتا ہے۔ ہماری روحیں مردہ اور ہمارے دل پژمردہ ہو چکے ہیں۔ چین کی وزارت خارجہ نے ایسی خبروں کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ کیمپ ٹارچر سیل نہیں بلکہ ’’تعلیم و تربیت‘‘ کے مراکز ہیں تاکہ ان لوگوں کو قومی امور کے بارے میں بتایا جائے اور انہیں مختلف ہنر سکھائے جائیں۔ جرمن محقق ڈاکٹر ایڈریان رینز مسلمانوں کی سنکیانگ میں گرفتاریوں کو پہلی مرتبہ منظر عام پر لائے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہزاروں بچوں کو والدین سے جبری طور پر الگ کر کے بورڈنگ سکولوں میں رکھا جا رہا ہے۔ ان بچوں کو صرف چینی زبان میں سرکاری سلیبس کی تعلیم دی جاتی ہے تاکہ ان کا اپنی زبان‘ اپنے مذہب اور اپنی علاقائی ثقافت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رشتہ وناتا کاٹ دیا جائے اور انہیں کمیونزم کی تعلیم دی جائے۔ چین کی وزارت تعلیم نے بورڈنگ سکولوں کے بارے میں ان الزامات کی تردید کی ہے۔ تعلیمی بیورو کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ بچوں کے اندر اچھی عادات پیدا کرنے‘ انہیں حفظان صحت کی تعلیمات سے آشنا کرنے اور انہیں چینی نظام سے آگاہی مہیا کرنے کے لئے یہ بورڈنگ سکول قائم کئے گئے ہیں۔ بی بی سی سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ انہیں یہ معلومات کہاںسے حاصل ہوئیں تو انہوں نے بتایا کہ ہماری کالز کا تو چین کے مختلف شعبوں سے کوئی جواب نہیں ملتا البتہ ہمیں استنبول میں سنکیانگ کے رہنے والے درجنوں ترکی النسل چینیوں سے ملنے کا موقع ملا جنہوں نے ہمیں اپنی اپنی داستان الم سنائی۔ یہ لوگ جبری کیمپوں کے خوف اور اپنا مذہب بچانے کے لئے سنکیانگ سے ہجرت کر کے ترکی آ گئے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے بچوں کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں کہ جنہیں ان سے جبری طور پر الگ کر کے بورڈنگ سکولوں میں ڈال دیا گیا اور اب انہیں اپنے بچوں کی کوئی خبر نہیں۔ ایک ماں نے تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کی تصاویر اٹھا رکھی تھی اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی جاری تھی۔ اس نے بتایا کہ مجھے نہیں معلوم میرے بچے کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ والدین’’تربیتی کیمپوں‘‘ میں ہیں جبکہ بچے بورڈنگ سکولوں میں۔ سنکیانگ کے صرف ایک شہر میں 400سے زائد بچوں کو اپنے والدین سے الگ کیا گیا تاکہ انہیں ایسی تعلیم دی جائے کہ وہ بڑے ہو کر اپنا ماضی اور اپنی دینی شناخت کھو چکے ہوں۔ چین ان الزامات کو تسلیم نہیں کرتا تاہم وہ کیمپوں کے وجود کی نفی کرتا ہے اور نہ یہ بورڈنگ سکولوں کے قیام کا انکار کرتا ہے۔ یو این او ان کی مختلف نوعیت کا دعویدار ہے۔یو این او میں چین کی حمایت کرنے والے 37ملکی گروپ میں زیادہ ترممبران کا تعلق افریقہ ‘ مشرق وسطیٰ اور تیسری دنیا کے ممالک سے ہے۔ اس گروپ کا کہنا ہے کہ ان کیمپس کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے اور امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے قائم کیا گیاہے۔ نیز ان لوگوں کو مختلف فنون سکھائے جاتے ہیں۔ اس گروپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ تین سالوں سے سنکیانگ میں دہشت گردی کا کوئی واقع نہیں ہوا۔ سنکیانگ کے مرکزی شہر ارمچی میں 2009ء میں دہشت گردی کے واقعات اور نسلی فسادات ہوئے تھے جن میں 200افراد ہلاک ہو گئے تھے اسی طرح فروری 2017ء میں بھی 5افراد کو چاقوئوں سے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ سنکیانگ کے مسلمانوں کا کہنا یہ ہے کہ ان کا ایسی کارروائیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ چین کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تدارک کے لئے 22ممالک کے سفارت کاروں نے اپنے دستخطوں سے یو این کمشن برائے انسانی حقوق کے چیئرمین کے نام ایک خط لکھا ہے۔ ان ممالک میں برطانیہ‘ جاپان‘ فرانس‘ جرمنی‘ آسٹریلیا اور کینیڈا وغیرہ شامل ہیں۔ اس خط میں تحریر کیا گیا ہے کہ یہ کمشن بیجنگ سے مطالبہ کرے کہ وہ وسیع پیمانے پر قائم کئے گئے حراستی کیمپس بند کرے۔خط پر زیر حراست مسلمانوں پر تشدد بند کرنے اور جبری تعلیم کا سلسلہ روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 22ملکی گروپ نے اپنے خط میں زور دے کر یہ مطالبہ کیا ہے کہ یو این او کے نمائندوں کو سنکیانگ کا آزادانہ دورہ کرنے‘ براہ راست ان کیمپوں کا جائزہ لینے اور وہاں کی مسلمان آبادی سے ملاقات چین کرنے کی اجازت دے۔ امریکی وکلاء کی ایک ٹیم نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سنکیانگ کے حراستی کیمپوں کو بند کروائے اور اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو رکوائے۔ بی بی سی نے اپنے ایک پروگرام میں ایک چبھتا ہوا سوال پوچھا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ سنکیانگ کے مسلمانوں کے لئے کوئی مسلم ملک کیوں نہیں بولتا؟ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ مسلمان ممالک اپنے دوست چین سے مسلمان چینی شہریوں کے ساتھ ایسے سلوک کی توقع نہیں کرتے۔ چین بار بار حراستی کیمپوں کے وجود سے انکار کرتا ہے۔ چین کو چاہیے کہ وہ یو این او اور او آئی سی کے مسلمان نمائندوں کو سنکیانگ کے آزادانہ دورے کی اجازت دے تاکہ حقیقت حال دنیا کے سامنے آ سکے۔