گزشتہ روز علی پور چٹھہ کے جلسے میں شہباز شریف نے نام لے کر ایک مخالف سیاستدان پر تنقید کی۔ انتخابی مہم میں اس طرح سے سرعام کچھ چیزوں کا تذکرہ غالباً پہلی بار ہوا ہے اگرچہ عوامی سطح پر یہ بات عرصے سے زیر تذکرہ و تبصرہ ہے۔ ریحام خان کی کتاب میں بھی اس حوالے سے پرلطف انکشافات کئے گئے ہیں۔ ماضی میں جائیں تو 1970ء کی انتخابی مہم میں بھٹو کی شراب کا تذکرہ ہوتا تھا۔ ’’چٹان‘‘ میں آغا شورش کاشمیری مرحوم نے اس حوالے سے کئی طنزیہ نظمیں اور کارٹون بھی شائع کئے۔ بھٹو صاحب نے اس مہم کا کبھی جواب نہیں دیا‘ البتہ 1977ء میں ان کے خلاف جو تحریک اٹھی اس میں انہوں نے اس کا جواب بھی دیا اور اعتراف کے رنگ میں دیا۔ انہوں نے کہا میں تو تھکن کی وجہ سے تھوڑی سی پی لیتا ہوں لیکن یہ مولوی (مراد پی این اے والوں سے تھی) تو بس ہر وقت حلوہ‘ حلوہ‘ حلوہ‘ حلوہ کھاتے رہتے ہیں۔ بھٹو صاحب کو یہ اعتراف مہنگا پڑا۔ یوں سبق ملا کہ اعتراف کبھی نہیں کرنا چاہیے معاملہ چاہے شراب کا ہو یا کسی اور چیز کا۔ بھٹو صاحب کے حامی پریس میں تائیداً یہ مشہور شعر استعمال کیا جاتا رہا کہ ؎ ہنگامہ ہے کیوں برپا‘ تھوڑی سی جو پی لی ہے ڈاکہ تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے لیکن اس شعر کا استعمال بھی ان کے کسی کام نہ آیا اور تحریک زور پکڑ گئی۔ انجام مارشل لاء نافذ ہوا۔ اس زمانے میں دیگر نشہ آور چیزوں کا نام بھی کسی نے نہیں سنا ہو گا۔ ہیروئن تو ضیاء الحق مرحوم نے متعارف کرائی اور کوکین پرویز مشرف نے۔ دونوں کے ارادت مند آج کل آپ کو ایک ہی پارٹی میں ملیں گے ان میں تازہ ترین اضافہ مولانا فضل الرحمن خلیل کا ہے۔ جو ضیاء اور مشرف دونوں کے پسندیدہ رہے۔ ٭٭٭٭٭ شراب کا تو معلوم ہے کہ جام میں پی جاتی ہے۔ چرس پینے والے بھی سڑکوں پر ملتے ہیں دور ہی سے پھیلی ہوئی مہکار بتا دیتی ہے کہ آگے اہل ذوق کا ڈیرہ ہے۔یہی حال ہیروئن کا بھی ہے لیکن کوکین کے بارے میں اکثر کو نہیں پتہ تھا کہ اسے گلاس میں ڈال کر پیا جاتا ہے یا اس کا ٹیکہ لگواتے ہیں۔ سال گزشتہ ایک واقف کار نے ان کا بلا دیکھ کر اندازہ لگایا کہ جو اب دینے کی ’’مجاز اتھارٹی‘‘ یہی ہو سکتے ہیں لیکن وہ شریف آدمی تھا یعنی سچ مچ کا کھلاڑی۔ سوال سن کر پہلے بوکھلایا‘ پھر شرمندہ ہوا اور اس کے بعد شکوہ کر کے واقف کار کو شرمندہ کردیا۔بھلا ہو ریحام خاں کا ان کی کتاب پڑھ کر زیادہ تر لوگوں کو پہلی بار پتہ چلا کہ یہ ناقابل احترام شے سگریٹ میں بھر کر پی جاتی ہے۔ ٭٭٭٭٭ بلاول بھٹو زرداری نے ایک نئے میثاق جمہوریت کی ضرورت کا اشارہ دیا ہے۔بھولے میاں ایک پہلے والا میثاق جمہوریت کم تھا جس نے آپ کی والدہ محترمہ کی جان لے لی اور نواز شریف کو بظاہر کہیں کا نہ چھوڑا‘ اب دوسرا میثاق جمہوریت کر کے کیا خودکشی کا ارادہ ہے۔ پہلے میثاق جمہوریت پر لوگوں نے تبصرے کرتے ہوئے یہ امید باندھی تھی کہ اب ملک میں وہ سویرا طلوع ہو گا، ستر سال سے شب انتظار جس کی راہ دیکھ رہی ہے لیکن اسے خود اس پر دستخط کرنے والوں نے ہی پامال کر دیا۔ پہل محترمہ نے کی جنہوں نے مشرف سے اندر ہی اندر سمجھوتہ کر لیا لیکن چلیے اس کی ایک وجہ تلاش کی جا سکتی ہے کہ ایک روزن تو کسی نہ کسی طرح کھولنا ہی تھا۔ دوسری خلاف ورزی زرداری صاحب نے کی۔ پنجاب اسمبلی توڑ کر گورنر راج لگا دیا۔ تین خلاف ورزی نوازشریف نے کی جو زرداری کے خلاف میمو سکینڈل میں اشرافیہ کے ساتھی بن گئے بعدمیں پتہ چلا کہ یہ سکینڈل فراڈ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ چوتھی خلاف ورزی بھی نواز شریف نے کی جب اشرافیہ نے زرداری کا گھیرا تنگ کیا تو بجائے ان کا ساتھ دینے کے ’’یہ ایک پیج‘‘ پر آنے کے لیے تل گئے۔ خدا جانے چودھری نثار نے انہیں کیا نیلے ہرے باغ دکھائے تھے۔ خورشید شاہ دھائی دیتے رہے کہ حضور آستین کی اس رسی سے بچئے ‘ یہ آپ کے نہیں ان کے وفادار ہیں جو ہم دونوں کے بیری ہیں۔ لیکن نواز شریف نے کسی کی نہ سنی یہاں تک کہ زرداری سے طے شدہ ملاقات بھی منسوخ کر دی ایسے واقعے کی مثال پوری سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یوں خورشید شاہ نے جو پیش گوئی کی وہ پوری ہوئی نواز شریف ’’کڑکی‘‘میں آئے تو زرداری نے آنکھیں پھیر لیں۔ اب یہ دوسرے میثاق جمہوریت کی بات ہو رہی ہے‘ خدا رحم کرے۔ ٭٭٭٭٭ بلاول نے ماضی کے اسلامی جمہوری اتحاد کا تذکرہ بھی کیا اور کہا کہ اس بار ایسے اتحاد کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ان کی اس بات سے اڑھائی تین عشرے پہلے کا دور یاد آ گیا اسلامی جمہوری اتحاد آئی جے آئی محکمہ زراعت نے بنایا تھا اور یہ بات ہم بھی جانتے تھے پھر بھی اس کے حامی تھے کہ ہم لوگ پیپلز پارٹی کے سخت مخالف تھے اس کا راستہ روکنے کے لیے محکمہ زراعت کسی کی مدد کرتا ہے تو سبحان اللہ جزاک للہ والی بات تھی۔ مخالفت اندھی ہو تو آدمی کا دل بے ایمان ہو جاتا ہے یہی حال ہمارا بھی تھا، اس کی ایک مثال پیش ہے۔ آئی جے آئی نے پیپلز پارٹی کے خلاف جو مہم چلائی اس کا سب سے مقبول اشتہار وہ تھا جس میں پیپلز پارٹی کو مخاطب کرتے ہوئے جلی حروف میں لکھا تھا: تم نے ڈھاکہ دیا ہم نے کابل لیا دل سے ہم جانتے تھے کہ ڈھاکہ پیپلز پارٹی نے نہیں دیا یہ تو ہمارے امیر اول ایوب اور امیر ثانی یحییٰ خاں کا کارنامہ تھااور ہم یہ بھی جانتے تھے کہ کابل ہم نے نہیں لیا ہم تو جلال آباد کی شہر پناہ کے سائے کو بھی چھو سکے تھے نہ چھو سکتے تھے۔ جلال آباد ہمارے مخالف احمد شاہ مسعود نے فتح کیا تھا۔ ہمارا لاڈلا تو حکمت یار تھا جو معصوم پشتونوں پر رات دن گولہ باری کر کے ان کے خون کی ندیاں بہاتا رہا یہ سب جان کر بھی ہم اس اشتہار پر فخر کرتے اور جیالوں کا دل جلانے کو لہرا لہرا کر انہیں دکھاتے۔ ہمارے دلوں کی بے ایمانی اس دور میں آ کر ختم ہوئی ہے جب بڑھاپے نے آن لیا ہے اور بیٹھے ٹی وی سکرینوں پر تماشے کا نظارہ کرنے تک محدود ہو گئے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ٹی وی پر بیٹھے اطاعت گزار میزبان اور تجزیہ نگار دو تین روز سے مہم چلا رہے ہیں کہ انتخابات میں خان کی فتح یقینی ہے۔ ذرا کہسار پر بنے تین سو کنال محل میں جا کر پوچھیے وہاں کیا رپورٹیں آ رہی ہیں؟ ایک رپورٹ تو یہ آ رہی ہے کہ جنوبی پنجاب میں حالت پتلی ہے۔ عرض ہے جو حالت جنوبی پنجاب میں ہر طرح کی بیج بوائی اور آبپاشی کے باوجود پتلی ہے وہ شمالی پنجاب میں کیسے گاڑھی ہو سکتی ہے؟ ہاں پولنگ ڈے کو چمتکار کی جھنکار ابھی باقی ہے۔ ٭٭٭٭٭ اکانومسٹ لندن نے حیرت ظاہر کی ہے کہ خود عدالت نے کہا‘ لندن فلیٹس کی ملکیت نواز شریف کی ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا‘ پھر سزا کیسے ہو گئی۔ اکانومسٹ بھائی ایک انصاف کے تقاضے ہوتے ہیں اور ایک تحریک انصاف کے تقاضے بات کو سمجھا کرو!