مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے نگران پنجاب حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کی حمائت کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت کو دیوار سے لگانے کے لیے کارروائیاں کی جا رہی ہیں اور ن لیگ کے حامی موروثی انتخابیوں (الیکٹ ایبلز) کی وفاداری تبدیل کرائی گئی۔ ان کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے نگران وزیر قانون پنجاب ضیاء حیدر رضوی نے سابق وزیر اعلیٰ کو الزامات کا سلسلہ بند کرنے کا کہا کہ شہباز شریف جو دعوے کر رہے ہیں حقیقت ان کے برعکس ہیں۔’’ نگران حکومت قانون اور انتخابی ضابطہ اخلاق کے تحت کام کر رہی ہے‘‘۔ مسلم لیگ ن ملک کے سب سے بڑے صوبے میں مسلسل دس برس اقتدار میں رہی۔ پنجاب میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 148ہے۔ پانچ سال تک صوبے اور مرکز دونوں جگہ مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔ اس سارے عرصے میں تحریک انصاف ‘ پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں ہر ضمنی انتخاب پر یہ نشاندہی کرتی رہیں کہ پولیس ‘ پی ایچ اے‘ بلدیاتی اور ترقیاتی ادارے برسر اقتدار جماعت کے امیدواروں کے لیے مدد فراہم کر رہے تھے۔ رہی کسر وہ بدقماش اور جرائم پیشہ افراد پوری کر دیتے جو حکمران جماعت کے لیے ووٹ لینے نکلتے اور ووٹروں کو دھمکاتے۔ شہباز شریف نے اپنے دور اقتدار میں سب سے زیادہ پولیس کے ذریعے سیاسی مقاصد پورے کئے۔ سانحہ ماڈل ٹائون کو ایک طرف رکھ دیجیے۔ جائزہ لیں کہ انہوں نے کتنے ڈی پی او سطح کے پولیس افسران کے خاندانوں کو ایم پی اے یا ایم این اے کا ٹکٹ دیا۔ سابق ڈی پی او رائے ضمیر وردی میں مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم چلاتے رہے۔ بعدازاں انہیں سیاسی منصب سے نوازا گیا۔ سابق سی سی پی او لاہور شفیق گجر کے بھائی کو ایم پی اے منتخب کرایا گیا۔ ڈی پی او بابر بخت قریشی کے والد کو ایم پی اے بنایا گیا۔ سابق آئی جی مشتاق سکھیرا کے بھائی کو ضلع اوکاڑہ میں یوسی چیئرمین کا ٹکٹ دیا گیا۔ یقینا یہ فہرست مکمل نہیں۔ بہت سے مزید نام بھی ہوں گے جنہیں ریاست کی بجائے شریف خاندان سے وفاداری کے صلے میں سیاسی عہدوں سے نوازا گیا۔ پولیس میں اصلاحات لانے اور تھانہ کلچر تبدیل کرنے کے وعدے اسی لیے پورے نہ ہو سکے کہ پولیس کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ حالیہ دنوں پولیس مقابلوں کے لیے معروف سابق انسپکٹر عابد باکسر کے انکشافات ذرائع ابلاغ کا حصہ بنے ہیں۔ عابد باکسر نے کھل کر بتایا ہے کہ شہباز شریف اپنے مخالفین کو پولیس مقابلوں میں مارنے کا حکم دیتے رہے ہیں۔ پولیس کی طاقت کو جس طرح سابق حکومت نے انتخابی فوائد کے لیے استعمال کیا وہ نہ تو انتظامی لحاظ سے درست حکمت عملی تھی اور نہ اسے سیاسی امور میں کسی مثبت مداخلت کے طور پر دیکھا جائے گا۔ مرکز اور پنجاب کی نگران حکومت میاں شہباز شریف اور ان کے برادر بزرگ میاں نواز شریف کے مشورے سے تشکیل دی گئی ہے۔ نگران حکومتیں محدود اختیارات رکھتی ہیں الیکشن شیڈول جاری ہونے کے بعد زیادہ تر معاملات الیکشن کمشن کی صوابدید پر ہوتے ہیں۔ یہ یاد دلانے کی شائد ضرورت نہ ہو کہ چیف الیکشن کمشنر اور صوبائی الیکشن کمشنروں کی تعیناتی خود نواز شریف اور شہباز شریف نے کی تھی۔ تحریک انصاف اسی الیکشن کمشن پر مسلم لیگ ن کی حمائت کا الزام لگاتی رہی ہے اور اس وقت ان کی شکایات کو سیاسی تعصب قرار دے کر رد کیا جاتا رہا۔ مسلم لیگ ن اس لحاظ سے خوش قسمت رہی ہے کہ اسے ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ عرصہ تک حکومت کرنے کا موقع ملا۔ اگر مسلم لیگی قیادت چاہتی تو اپنی جماعت کو ایک مکمل نظریاتی شناخت دے کر اس کا ڈھانچہ ترتیب دے سکتی تھی لیکن موروثی انتخابیوں(الیکٹ ایبلز) کو مضبوط کیا جاتا رہا۔ سیاسی جماعت کے طور پر مسلم لیگ ن معاشرے میں سیاسی اقدار کے لیے کام کرتی تو لوگ موروثی یا علاقائی انتخابیوں کے شکنجے سے نکل کر قومی دھارے میں شامل ہوتے۔ یہ علاقائی اور موروثی انتخابئے کسی بڑی برادری یا خاندان کی طاقت کی علامت ہوتے ہیں۔ ان کے طاقتور ہونے کا مطلب ریاست کا کمزور ہونا اور سیاسی نظام کا غیر جمہوری قوتوں کے نرغے میں ہونا ہے۔ یہ لوگ مفاداتی سیاست کرتے ہیں۔ تاریخی لحاظ سے جائزہ لیں تو یہی لوگ کسی زمانے میں پیپلز پارٹی کا حصہ تھے۔ پھر مسلم لیگ ن کا سورج طلوع ہوا تو یہ گروہ در گروہ اس کا حصہ بن گئے اب انہیں لگتا ہے کہ تحریک انصاف کے دن بدلنے والے ہیں تو یہ مسلم لیگ ن چھوڑ کر پی ٹی آئی میں آ رہے ہیں۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ ن نے اپنے دور حکومت میں تسلی بخش کارکردگی نہیں دکھائی۔ صحت‘ تعلیم اور روزگار کے متعلق سابق حکومت نے مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ صرف مسلم لیگ ن ہی نہیں پیپلز پارٹی اور دیگر وہ جماعتیں جو کسی نہ کسی انداز میں طویل عرصے سے اقتدار میں رہی ہیں علاقائی انتخابیوں نے ان سے بھی بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ مطلب یہ کہ جن لوگوں کے ساتھ چھوڑنے کو کسی پس پردہ طاقت کا دبائو بتایا جا رہا ہے وہ کئی وجوہات کی بنا پر مسلم لیگ ن سے الگ ہو رہے ہیں۔ سیاستدان ہمیشہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ معاشرے کے سیاسی استحکام کے لیے کام کریں گے۔ عوام کے دل میں جمہوری اقدار کا احترام پیدا کریں گے اور قومی مسائل کو عوام کی خواہشات مدنظر رکھ کر حل کریں گے۔ دنیا کے مہذب جمہوری معاشروں میں ایسا ہوتا ہے۔ وہاں سیاستدان کا احترام اس وجہ سے کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے دامن پر بدعنوانی اور قانون شکنی کا کوئی دھبہ نہیں لگنے دیتا۔ ہمارے سیاست دان اس ذمہ داری اور قابلیت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ اقتدار میں ہوں تو طاقت کا سفاکانہ اور بے رحم استعمال کرتے ہیں۔ مخالفین کو قتل کراتے ہیں۔ ریاستی اداروں کی طاقت اپنے اور اپنے خاندان کی بہبود پر صرف کرتے ہیں اور عوام کی ضروریات کو فراموش کئے رکھتے ہیں۔ اقتدار سے محروم ہوتے ہی سیاسی رہنما امتیازی سلوک کا شور مچانے لگتے ہیں۔ چند روز قبل مسلم لیگ ن کے صدر اس بات پر شکوہ کر رہے تھے کہ ان کی جماعت کے لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جا رہی ہے جبکہ ان کے حریفوں کے خلاف کچھ نہیں ہو رہا۔ جانے وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جو اقتدار میں رہا ہو‘ جس نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہو‘ جس کے خلاف برسہا برس سے مقدمات درج ہوں اور جسے حکومتی طاقت سے بچایا جاتا رہا ہو سب سے پہلے وہی قانون کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔ مسلم لیگ ن کے سربراہ کی کچھ شکایات اگر جائز ہوں تو ان پر متعلقہ اداروں کو ضرور کارروائی کرنا چاہیے لیکن یہ بات قطعی غیر مناسب ہے کہ اچھے طریقے سے کام کرنے والی غیر جانبدار انتظامیہ کے خلاف الزامات عائد کر کے اس پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی جائے۔