ہے تند و تیز کس قدر اپنی یہ زندگی کتنے ہی حادثات سرشام ہو گئے کام وہی جو وقت پر ہو جائے جیسے کہ کہتے ہیں ’’ویلے دی نماز تے کویلے دیاں ٹکراں‘‘ نماز کی مثال بے محل نہیں کہ انسانی خدمت بھی تو ایک طرح کی عبادت ہے۔ لمحے کا اعتبار اور احترام بہت اہم ہے۔ میسر وقت گزر جائے تو پھر پچھتاوا ہی رہ جاتا ہے۔ مجھے منشا یاد کا افسانہ’’ دنیا کا آخری بھوکا آدمی‘‘ یاد آتا ہے کہ وہ ایک فقیر کو نظر انداز کر دیتے ہیں جیسے کہ وہ دنیا کا آخری بھوکا آدمی ہو‘ آپ اس کو میرے کالم کی تمہید ہی خیال کر لیں کہ مجھے ڈینگی پر بات کرنا ہے کہ جس کے تدارک کے لئے بعداز خرابی بسیار خیال آیا لوگ چیختے رہے کہ سپرے کروایا جائے مگر ارشاد عالیہ یہ تھا کہ سردی کے آتے ہی ڈینگی مر جائے گا۔ چلیے چھوڑیے اس قضیے کو کہ جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ ڈینگی پھیل چکا اور ہزاروں مریض ہسپتالوں میں پڑے ہیں۔ وہ وقت گزر چکا کہ کہیں پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ تاہم پھر بھی لوگوں کو ڈینگی کی مزید تباہ کاریوں سے بچایا جا سکتا ہے ’’رکنا کوئی حل تے نہیں۔ جے چلنا بے کار گیا‘‘ مگر انہوں نے تو خیر سوچنے کا الزام بھی سر نہیں لیا اور اب سر پکڑ کر بیٹھے ہیں۔ مجھے یاد ہے 2011ء میں جب ڈینگی کی وبا پھیلی تو شہباز شریف نے سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں تک بھی آگاہی کی وہ مہم چلائی کہ ہم اساتذہ بھی تنگ پڑ گئے کہ سڑکوں پر ڈینگی واک کر رہے ہیں لاروا ڈھونڈ رہے ہیں۔ پھر اسے تلف کر کے رپورٹ کر رہے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اب اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شو بازی نہیں تھی کہ دشمنوں نے دونوں بھائیوں کو ڈینگی برادر کہنا شروع کر دیا سچ تو سچ ہی رہے گا۔ میں خود ڈینگی کا شکار ہو گیا۔ میو ہسپتال پہنچا ‘ ڈاکٹر حفیظ نے خود ٹیسٹ کیا۔ ڈاکٹر کہنے لگے کہ آپ کو یہاں رکھیں گے مگر میں تو ہسپتال سے بدکتا تھا۔ گھر آ گیا‘ بیگم صاحبہ کو پتہ چلا تو متفکر ہوئیں مگر وہ اپنے بچوں کے لئے زیادہ متفکر ہوئیں اور کہنے لگیں کہ مکان کی اوپر والی منزل خالی پڑی ہے آپ اوپر جاکر رہیں کہ اگر کوئی مچھراب آپ کو کاٹ گیا تو وہ بھی ڈینگی بن جائے گا اور گھر میں چھوٹے چھوٹے بچے ہیں بات بھی اس کی درست تھی گویا ہم تنہا کر دیے گئے اس مرض میں کوئی دوائی بھی نہیں ہے کہ بندہ استعمال کر لے۔ بتایا گیا کہ سرخ اور سفید جرثوموں کو بہم رکھنے والے پلیٹ لیٹس اس میں تباہ ہوتے ہیں پہلے یہ لاکھوں میں ہوتے ہیں اٹیک کے بعد یہ کم ہوتے جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو چند ہزار بھی رہ جاتے ہیں اور یہ خطرناک صورت حال ہوتی ہے ناک سے خون بھی بہنے لگتا ہے۔ قوت مدافعت اچھی ہو تو پھر یہ بخار اپنا سرکل پورا کر کے چلا جاتا ہے۔ اس میں کوشش کی جاتی ہے کہ ہر چار گھنٹے بعد پیراسیٹا مول یا کوئی بھی گولی بخار کے لئے لے لی جائے کہ بخار سر کو نہ چڑھ جائے۔ میں چونکہ اس اذیت سے گزرا ہوں کہ ایک عجیب الجھن ٹانگوں میں ہوتی ہے‘ ناقابل بیاں او زاری ‘ آپ اچھی طرح سو نہیں سکتے۔ ایک ہی خواب بار بار ٹوٹتااور جڑتا رہتا ہے۔ میں نے تو سات روز کے بعد طلوع و غروب دیکھا۔ اس میں سیب اور انار کا جوس ہم نے جی بھر کر پیا۔ پپیتے کے پتے گرائنڈ کر کے پیئے تو ماں کے ہاتھ سے نیم کا پانی پینا یاد آ گیا جو پھوڑے نکلنے کی صورت میں ہمیں ہمارا ناک پکڑ کر پلایا کرتی تھی۔ تب پپیتے کے پتے ہسپتالوں کے باہر پانچ پانچ فی پتہ بکے۔ معلوم نہیں اس کا فائدہ ہوتا ہے یا نہیں بہرحال افواہ تھی اس کی۔شکر ہے کسی نے گھاس واس کی افواہ نہیں پھیلا دی۔ اللہ پاک اس موذی مرض سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔ اس میں آپ مریض کے ساتھ ہمدردی کریں اسے حوصلہ دیں اس کے لئے فروٹ وغیرہ لے کرجائیں۔ مگر ہوتا کیا ہے! میرے ساتھ بھی یہی ہوتا تھا جب بھی کوئی فون کرتا تو پہلی بات یہی پوچھتا’’جی کتنے پلیٹ لیٹس رہ گئے ہیں؟‘‘ میرے انگریزی ڈیپارٹمنٹ سے پروفیسرز نے فون کیا تو کہنے لگے کہ ’’ٰسعد صاحب ہم آپ کو اپنے درمیان دیکھنا چاہتے ہیں‘‘ ایک بڑے ادیب نے فون پر کہا یار تم بہت قیمتی ہو اپنا خیال کرو اب فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ یہ تیماری داری ہے یا دل آزاری ہے۔ یہی نہیں سوشل میڈیا پر اس قسم کی پوسٹیں لگ رہی تھیں کہ ڈینگی کہہ رہا ہے کہ میں کئی شہروں میں گیا۔ ہاں لاہور لاہور ای اے ‘ ٹی وی پر بھی اینکر اپنے تخلیقی جوہر دکھاتے ہوئے یوں بتاتے کہ آج ڈینگی نے چار چراغ بجھا دیے۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ مرض تو اللہ کی طرف سے آتا ہے۔ زندگی میں یہ سب کچھ ہوتا ہے مگر ہمیں اپنے رویے تو درست رکھنے چاہئیں۔ ایک میرے دوست ڈاکٹر امجد ہیں جنہوں نے فون کیا تو کہا کہ یہ ڈینگی کوئی بیماری نہیں۔ چھ سات دن کی بات ہے اس کا سرکل پورا ہو جائے گا۔ آپ نے صرف یہ کرنا ہے کہ میرے فون کے بعد اپنا موبائل پاور آف کر دینا ہے۔تین دن کے بعد اسے آن کر لینا۔ یہ نسخہ واقعتاً مفید ثابت ہوا۔ اب آتے ہیں حکومت کی طرف کہ جن کی ترجیحات ہی کچھ اور ہیں اور یقین مانیے کہ عام آدمی کو ایک عجیب طرح کے احساس نے آن گھیرا ہے کہ اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ مہنگائی نے اس کی مت مار کر رکھ دی ہے۔ وہ بیمار ہوتا ہے تو ہسپتال میں کوئی اسے پوچھنے والا نہیں۔ دیہاڑیاں گئیں تو گھر کیسے چلے گا بے روزگاری پر کوئی کیا بات کرے۔ یہ اپنی جگہ درست کہ عمران خان اداروں کو درست کرنے کے لئے متفکر ہیں۔ سارے ڈاکو چور قید ہیں مگر غریب بھی کہاں آزاد ہے۔ مجبوریاں ہی مجبوریاں: اور بھی مجبور ہوتا جا رہا ہوں میں زندگی سے دور ہوتا جا رہا ہوں میں ڈینگی کے ضمن میں کچھ اور باتیں بھی کرنے کی ہیں۔ کوشش کریںکہ کہیں پانی کھڑا نہ ہونے دیں۔ کہتے ہیں کہ یہ زیادہ تر طلوع اور غروب آفتاب کے وقت اٹیک کرتا ہے۔ کوشش کریں بچوں کو آئل لگائیں تاکہ وہ محفوظ رہیں۔مکمل آستین والی شرٹ یا قمیض استعمال کریں۔ فیشن کو کسی اور موسم پر اٹھا رکھیں۔ آج کل میں نے دیکھا ہے کہ پارکوں میں شام کے وقت مائیں اپنے بچوں کو گھاس پر بٹھا کرگپ شپ کرتی ہیں ،کچھ احتیاط کچھ دن ۔ حکومت کو چاہیے کہ پلیٹ لیٹس پیک مفت مہیا کرے ۔ ڈینگی چار قسم کے ہیں ایک اور بات یہ کہ یہ بھی ایک مفروضہ ہے کہ جسے دوبارہ ڈینگی ہو جائے وہ بچتا نہیں۔سری لنکا جیسے ملکوں سے رپورٹ ہے کہ بعض کو دو تین مرتبہ بھی یہ عارضہ ہوا۔ احتیاط بہر طور لازم ہے۔ ڈینگی کے مریض کی چارپائی کے اردگرد جالیاں بھی لگائی جا سکتی ہیں کہ اسے کوئی عام مچھر کاٹ کر ڈینگی نہ بن جائے۔ حکومت کی ترجیحات میں اول نمبر پر لوگوں کی جانیں بچانا ہونا چاہیے۔