اکیسویں صدی کے اکیسویں سال میں زمانے نے اچانک کچھ ایسا پلٹا کھایا ہے، حالات و واقعات اتنی سرعت سے تبدیل ہوئے ہیں کہ عناصرِ فطرت کو انگلیوں پہ نچانے کا دعویٰ کرنے والا انسان ، دانتوں میں انگلیاں دبائے بیٹھا ہے۔ آسمان پہ بستیاں بسانے کے دعوے کرنے والے اس طُرم خان کو زمین پہ جگہ نہیں مل پا رہی۔ جائے ماندن، نہ پائے رفتن والا محاورہ سنا تو بہت پہلے تھا، دیکھا اب جا کے ہے۔ معروف شاعر جناب شاہین عباس نے ایک زمانے میں حضرتِ انسان کے اختیار و احتیاج کی کیا عمدہ تصویر تراشی تھی: ؎ نظم ہو بیٹھا ہوں آہنگِ دروں کے ہاتھوں نظم کرتا ہوا اِک نالۂ شب گیر کو مَیں سچ پوچھیںہم نے تو اس وبا کے تیور دیکھتے ہی اپنے اور احباب کے لیے آیندہ زندگی گزارنے کے اس فارمولے کا اعلان کر دیا: غور سے سن لو ہماری ایک بات ظلمتوں کو دینی ہوگی پھر سے مات اس وبائے عام کا ہے ایک حل احتیاط و احتیاط و احتیاط ہمیں یقین ہے کہ موجودہ حالات میں اگر معروف گلوکار احمد رُشدی زندہ ہوتے تو اپنی ساری چوکڑی بھول کر، نیزرومانیت ا ور ترنگ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے برملا کہہ اٹھتے:؎ میرے خیالوں پر چھائی ہے اِک صورت زہریلی سی رہتی ہے وہ پاس کہیں ، اتا پتا معلوم نہیں کوکو کورونا ، کوکو کورونا پھر بھارت بھلا ایسی باتوں میں کہاں پیچھے رہنے والا تھا، رُشدی کی تھرکتی لَے کے جواب میں بارڈر پار سے محمد رفیع کی بھرپور اور دبنگ آواز سنائی دیتی: ؎ کروونا جان کر تم تو مِرا دل توڑ جاتی ہو دوستو! اس انوکھی وبا کے اس طرح در آنے سے نقصان تو جو ہوا سو ہوا، لیکن تجربات بہت انوکھے اور نرالے ہوئے۔ سیکھنے والوں نے زندگی سے بہت کچھ سیکھا۔ ایک طرف حکومتِ پاکستان مبارک باد کی مستحق ہے کہ اس نے ایک ہی وقت میں تین موذیوں (مودی، کرونا اور کرپٹ اپوزیشن) کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ پھر پاک فوج، پولیس، ڈاکٹرز اور مشکل ترین حالات کی لمحہ لمحہ رپورٹنگ کرنے والے صحافی بھی لائقِ تحسین ہیں۔ اسی طرح ہمارے کچھ من چلے دوست ہیں جنھوں نے اس مشکل گھڑی میں اپنی حِسِ ذکاوت و ظرافت کو مرنے نہیں دیا اور ہر دم اپنے تیکھے جملوں اور شریر اشعار سے احباب کی دل جوئی کا متواتر سامان کرتے رہے۔ کسی نے خبر دی کہ فرق یہ پڑا ہے کہ پہلے ہم تھوڑا سا سو کر اٹھ جاتے تھے ، اب ہم تھوڑا سا اٹھ کر سو جاتے ہیں۔ ایک دوست نے بڑی حسرت سے انکشاف کیا کہ زندگی میں پہلی بار ہوا ہے کہ گرمیوں میں مری، ناران، کاغان، چترال اور وادیٔ نیلم کی سیر کو کرونا کی وجہ سے نہیں جا سکا وگرنہ اللہ جانتا ہے کہ ہمیشہ یہ پروگرام پیسوں کی کمی کی وجہ سے مِس ہوتا تھا۔ ڈاکٹر شہزاد بسرا نے نکتہ نکالا کہ جو لوگ عام دنوں میں بھی جمعہ کو مسجد سے باہر بچھی آخری صف پہ دو فرض پڑھ کے دُڑکی لگا جاتے تھے، وہ بھی اعتراض کر رہے ہیں کہ حکومت نے مسجد میں باجماعت نماز پہ پابندی کیوں لگائی ہے؟ ایک صاحب نے تلخ حقیقت کو بڑے لطیف انداز میں لکھا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ اگر اذانوں اور دعا سے کرونا ختم نہیں ہو رہا تو تجرباتی طور پر اشیائے خورد و نوش اور ادویات کو اصلی قیمتوں پر بیچ کر دیکھ لیں۔ اس بے لگام اور منھ زور وبا کو ہمارے جھنگ کے دوست اور مزاحیہ شاعر ڈاکٹر عمران ظفر نے سب سے زیادہ دل پر لیا ، جنھوں نے اس موضوع پر پوری کتاب لکھ ڈالی۔ ڈاکٹر صاحب کا اصل میدان پیروڈی ہے اور یہاں بھی انھوں نے ماضی و حال کے مستند شعرا کی معروف غزلوں، نظموں کو کرونا کے تناظر میں دیکھا اور اپنے شریر اور پُرلطف انداز میں ’’کرونا مِرے آگے‘‘ کی صورت اپنے قارئین کی نذر کر دیا۔ اس کتاب سے کچھ مزے دار نمونے ملاحظہ ہوں: ؎ کس سمت مَیں جاؤں کہ وباؤں میں گھرا ہوں ڈینگی مِرے پیچھے ہے ، کرونا مِرے آگے شادی ہو تیری جلدی ، اب تو نہیں ہے ممکن ’’جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سو جا ‘‘ نہ بدلے اپنے تم نے طور تو بے احتیاطی سے ’’تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں ‘‘ دن بھر تو ڈبل ریٹ پہ بیچے ہے وہ چیزیں اور چھت پہ اذاں رات ہے دیتا مرے آگے لائی حیات آئے ’’وبا‘‘ لے چلی چلے ’’اپنی خوشی نہ آئے ، نہ اپنی خوشی چلے‘‘ مَیں کل جو زور سے چھینکا تو سارے دوڑ گئے ’’ ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو ‘‘ مَیں تو سمجھا تھا کہ غم خواری کرے گا میری تو نے آتے ہی شروع اپنی سیاست کر دی ہم کو کرونا ہے ہمیں لندن میں لے چلیں اب ہم کو بھی علاجِ شریفانہ چاہیے ’’ مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ‘‘ کسی ’’طبیب‘‘ کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے کریں پرہیز ورنہ ہم کو یہ کہنا نہ پڑ جائے ’’ بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں‘‘ وائرس ساتھ کرونا کا یہ لانا تیر ’’ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا تیرا‘‘ اگر مجھ کو کرونا ہو گیا تو تری ’’قربت‘‘ کے صدمے کم نہ ہوں گے آج کی رات مجھے کرنی ہے دل سے توبہ اور پھر دس بجے دینی مجھے چھت پہ بھی بانگ جان کے لالے پڑے ہیں تُو ذرا فاصلہ رکھ ’’ مجھ سے پہلی سی محبت مِری محبوب نہ مانگ ‘‘ اب تو جاتے ہیں آئسولیشن میں ’’ پھر ملیں گے اگر خدا لایا ‘‘