پاکستان کے امریکہ میں سابق سفیر حالیہ مقیم امریکہ جناب حسین حقانی کی قوت پرواز سے میں بہت متاثر ہوں۔اسلامی جمعیت طلبہ کا صالح نوجوان منزلوں پہ منزل مارتا امریکہ میں پاکستان کا سفیر لگ جائے خواہ اس دوران اس نے اڑان کے کتنے ہی زاویئے بدلے ہوں تو ہم جیسے خطا کاروں کو رشک تو آتا ہے۔ ایسا نابغہ کوئی کوئی ہوتا ہے جو کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دے۔لوگ موقع پرست ہوتے ہیں، موقع شناس ہوتے ہیں موصوف موقع ساز شخصیت ہیں۔اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن سے جنرل ضیا کے پرشوق حامی ہونے اور بعد ازاں نواز شریف کی انتخابی مہم چلانے سے ترجمان بننے پھر ہوا کا رخ بدلتے ہی بے نظیر کے ترجمان بننے سے واشنگٹن میں پاکستان کا ایسا سفیر ہونا کہ وہ طنزا پاکستان میں واشنگٹن کے سفیر کہلائے جائیں، ان ہی کا خاصہ ہے۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔مسئلہ لیکن اس وقت ہوتا ہے جب آپ پاکستان کے اہم ترین سفارتی عہدے پہ فائز رہے ہوں، ملکی سفارتی رازوں کے امین ہوں اور میمو گیٹ جیسے سنگین جرم میں ملوث ہوجائیں اور جب آپ اس جرم پہ نادم ہونے کی بجائے اس ملک کی نظریاتی اساس پہ باقاعدہ اور منظم حملوں کا ارادہ باندھ لیں اور اس پہ عمل پیرا بھی ہوجائیں۔نہیں عزت ما ب سابق سفیر صاحب۔ اس کی نہیں ہورہی۔ واشنگٹن میں کارنیگی انڈوومنٹ اور ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کا قابل قدر حصہ ہونے پہ مجھے حسین حقانی پہ فخر ہوسکتا تھا۔ بوسٹن یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ہونے پہ مجھے ان پہ رشک آنا چاہئے اور یونیورسٹی آف شکاگو کے انسٹیٹیوٹ آف پالیٹکس کا ریزیڈنٹ فیلو ہونا میرا بھی خواب ہے لیکن کس قیمت پر؟جب میں ایک مشکوک سی تنظیم ساوتھ ایشیز اگینسٹ ٹیررازم ایند فار ہیومن رائٹس کے ایک خفیہ قسم کے فورم پہ نظریہ پاکستان کے خلاف تقریر کر کے باہر آئوں اور واشنگٹن میں میرے ہم وطن مجھے تم غدار ہو کہہ کر نفرت سے آوازے کسیں تو کیا اس قیمت پہ؟ہرگز نہیں! میں نے اس تنظیم جس کا مخفف ساتھ ((SAATHہے ، حسین حقانی کی گزشتہ سال کی تقریر سنی اور اس سال کی بھی۔ اس تنظیم کے روح رواں موصوف خود ہیں اور ساتھ ہی امریکی نژاد پاکستانی صحافی سید محمد تقی جو اکثر پاکستانی افواج کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں ۔ایک پاکستانی انگریزی اخبار میں باقاعدگی سے لکھتے ہیں جس کا گروپ پاکستان آرمی کے خلاف اکثر مورچہ بند رہتا ہے۔ ماروی سرمد بھی آپ کو یہیںملیں گی اور نہایت متنازعہ برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن بھی یہیں موجود ہیں ۔ کل ملا کر یہ ایسے افراد کا منظم گروہ ہے جو نظریہ پاکستان، افواج پاکستان اور پاکستان کی سالمیت کے حوالے سے کسی نہ کسی طرح متنازعہ ہیں ۔حسین حقانی ’’ساتھ‘‘ میں اپنے گزشتہ سال کی تقریر دل پذیر کا نچوڑ کچھ یوں ہے کہ یہ ان لوگوں کا فورم ہے جو سمجھتے ہیں کہ پاکستان کونظریاتی ریاست بنا کرنہیں چلایا جاسکتا۔ پاکستان ایک بار اپنے نظریے یعنی اسلام سے دستبردار ہوجائے تو ملک سے غربت اور جہالت مٹ جائے۔ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی، کم شرح نمو، نظام تعلیم کا انحطاط سب اسی نظریاتی پاکستان کے شاخسانے ہیں۔ فوج کے خلاف بولتے ہوئے گو وہ محتاط رہے اور اپنے گزشتہ خطاب میں دی گئی کنویں اور ایک جانور والی مثال کی وضاحت بھی کی کہ وہ فوج کے خلاف نہیں تھی ، بلکہ ان کا اشارہ کرپشن اور بوسیدہ سیاسی نظام کی طرف تھا، جس کا جناب حقانی ہر دور میں حصہ رہے۔مسئلہ کشمیر کے متعلق ان کا قول زریں تھا کہ وہ ہمارے بچوں کی تعلیم سے زیادہ بڑا مسئلہ نہیں۔پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات اہم ہیں یا ایک چھوٹا سا علاقائی مسئلہ اہم ہے؟ پاکستان میں اقلیتوں کی حالت زار پہ آنسو بہاتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مذہبی رسومات ادا کرنے کی آزادی حاصل نہیں۔ ساتھ ہی وہ آئین پاکستان پہ حملہ آور ہوگئے جس کی رو سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے اور غیرت دلانے کی کوشش کی کہ دنیا میں اور کوئی آئین ہوگا جس میں کسی کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہو؟یہ تو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے خلاف ہے۔غالبا موصوف کی لابنگ ہی تھی کہ گزشتہ دنوں امریکہ نے پاکستان پہ اقلیتوں کی مذہبی آزادی کے حوالے سے پابندیاں لگانے کی کوشش کی۔جب بات فوج کی آئے تو وہ زیادہ ہی ترنگ میں آجاتے ہیں۔ فرمایا کہ بلوچ پشتون،مہاجر سندھی قومیتیوں کے ساتھ ناروا سلوک ہورہا ہے اور انہیں غائب کیا جارہا ہے۔ مزید یہ کہ اگر دہشتگردوں (جمات الدعوۃ وغیرہ) کو قومی دھارے میں لایا جاسکتا ہے تو کرپٹ جماعتوں کو قومی دھارے سے علیحدہ کیوں کیا جارہا ہے؟ایسا بے مثل موازنہ اور بے نظیر دلیل کی سے ہی متوقع تھی۔ یہ لیکن سمجھنا چاہئے کہ احتساب کی تکلیف کتنی دور تک محسوس کی جارہی ہے یعنی واشنگٹن تک۔ لندن میں منعقد ’’ساتھ‘‘ کے اس اجلاس میں جو قرارداد منظور کی گئی وہ ان ہی نکات پہ مشتمل تھی جس میں پاکستان کو لبرل سیکولر ریاست بنانے اور اس کی نظریاتی اساس اسلام کی بجائے تکثیریت اور قومیتوں پہ مشتمل وفاق پہ رکھنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ ساتھ ہی بلا شک وشبہ پاکستان پہ پڑوسی ممالک میں مسلح دہشت گردی کا مرتکب قرار دیا گیا۔اس تنظیم کے اجلاس اور اس کی منظور شدہ قرارداد کی سب سے زیادہ خوشی بھارتی میڈیا کو ہوئی جس نے پاکستان کے باغی لبرلوں اورسیکولروں کو اس جرأت رندانہ پہ خو ب داد و تحسین سے نوازا۔اس بار واشنگٹن میں حسین حقانی نے ایک بار پھر ان ہی نکات کی تکرار کی البتہ اس بار ان کا ہدف بالخصوص تحریک انصاف کی موجودہ حکومت رہی جو تاریخ کی بدترین انتخابی دھاندلی اور پولیٹیکل انجینئرنگ کے نتیجے میں وجود میں آئی اور جو فوج کی سرپرستی میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کررہی ہے۔حیرت انگیز طور پہ ان ہی الفاظ کے ساتھ یہی باتیں حسین حقانی کے سابق باس زرداری صاحب اپنی پریس کانفرنس میں کرچکے ہیں اور عمران خان کے مخالفین کرتے رہے ہیں۔معلوم ہوتا ہے پاکستان میں پہلی بار سول ملٹری تعلقات کا توازن کچھ قوتوں کو ہضم نہیں ہورہا۔ عمران خان کے پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانے کا بار بار اعلان کچھ لوگوں کو سخت ناگوار لگتا ہے لیکن پاکستان کی نظریاتی اساس پہ حملہ آور ہونے کی ہمت حسین حقانی کے سوا کسی کو نہیںہوئی لیکن کسی نے اس بندہ گستاخ کو منہ بند رکھنے کا مشورہ بھی نہیں دیا۔