سیکولر ‘ لبرل اور سود پرست جمہوری دانشوروں کا ایک طریق کار ہے جسے وہ اس وقت سے نبھا رہے ہیں جب سے 1947ء کی چودہ اگست کو پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک ایسی ریاست کے طور پر وجود میں آیا تھا جو اسلام کے نام پر بنی تھی۔ انہیں کسی اور مذہب کی بنیاد پر وجود میں آنے والی ریاست سے کوئی نفرت نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ عیسائیت کی بنیاد پر انڈونیشیا سے الگ ہونے والے خطے مشرقی تیمور کی بھی مخالفت کرتے۔ انہیں 9جولائی 2011ء کو عیسائیت کے نام پر سوڈان سے آزاد ہونے والے ملک جنوبی سوڈان سے بھی نفرت ہوتی۔ دنیا بھر کا سیکولر‘ لبرل اور یہاں تک کہ انسانی حقوق کا علمبردار اکثریتی طور پر صرف اور صرف ایک مذہب سے نفرت کرتا ہے اور وہ ہے اسلام اور اسے صرف ایک ملک کا وجود زہر لگتا ہے اور وہ ہے پاکستان۔ اللہ کے نام پر بننے والے اس ملک کو ناکام ثابت کر کے ۔گالی دے کر‘ اسے زوال پذیر بتا کر وہ اپنے اندر اسلام سے نفرت اور بغض کی آگ کو ٹھنڈا کرتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے یہ بزدل لوگ جب اسلام اورپیغمبر خدا ﷺ کو کچھ کہنا چاہتے ہیں اور کہہ نہیں پاتے تو مولوی کو نشانہ بنا کر دل کا غبار نکال لیتے ہیں۔ پاکستان کو نیچا دکھانے کے لئے میرے ملک کی اسلامی شناخت سے بغض رکھنے والا یہ دانشور طبقہ گزشتہ 47سال سے بنگلہ دیش کی کامیابیوں کی کہانیاں سنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ ایک اسلامی شناخت والے ملک سے آزاد ہو کر بنگلہ دیشی کس قدر اطمینان اور سکون کی زندگی گزار رہے۔ ان دانشوروں کے پاس اپنے اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے دنیا کا سب سے بڑا دھوکہ یعنی معاشی ترقی کے اعداد و شمار ہیں جن کو وہ استعمال کرتا ہے۔ یہ اعداد و شمار ایسے ہیں جیسے ایک آدمی کی تنخواہ پچاس لاکھ ماہانہ ہے جبکہ ننانوے لوگ دس ہزار روپے ماہانہ کماتے ہیں۔ یوں پورے ملک کی اوسط ماہانہ تنخواہ 64,850روپے بن جاتی ہے اور ملک کتنا خوشحال دکھائی دیتاہے۔ جس بنگلہ دیش کو یہ ’’فاریکس ریزو‘‘ اور ’’ٹریڈ بیلنینن‘‘ جیسے الفاظ بول کر خوشحال ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ دنیا کے نقشے پر 1971ء کے بعد سے ایک ایسے ملک کے طور پر سامنے آیا اور آج بھی ہے جہاں سے بھارت جیسے مفلوک الحال‘ غربت کے مارے اور دنیا کی سب سے بڑی جھونپڑ پٹی جیسے ملک میں نہ صرف ایک کروڑ کے لگ بھگ بنگلہ دیشی معمولی نوکریاں کرنے کے لئے غیر قانونی طریقے سے داخل ہوتے ہیں بلکہ لاکھوں بنگالی بچیاں بھارت سمگل کی جاتی ہیں۔ بنگلہ دیش انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ سکیورٹی سٹڈیز نے صرف چھ ماہ قبل یعنی جولائی 2018ء میں ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق گزشتہ دس سالوں میں ہر سال پچاس ہزار بچیاں جو بارہ سال سے تیس سال تک کی عمروں کی تھیں وہ بھارت سمگل کی گئیں۔ اس وقت تین لاکھ بنگالی بچیاں جو سولہ سال سے کم عمر ہیں ،بھارت کے جسم فروشی کے بازاروں میں دھندہ کرنے پر مجبور کر دی گئی ہیں۔ اسی طرح کے اعداد وشمار ایک مشہور این جی او جسٹس اینڈ کیئر نے بھی شائع کئے ہیں۔ مغربی بنگال کے بارڈر پر واقع تین علاقے میتہ بازار‘ کل ٹالی اور کانگ ہیں جہاں بنگلہ دیشی بچیوں کی منڈیاں آج بھی لگتی ہیں۔ چھوٹے سے علاقے میتہ بازار میں چار سو بنگلہ دیشی لڑکیوں پر مشتمل جسم فروشی کا بازار موجود ہے۔ کول ٹالی کے پاس ایک علاقے مادھو سودھان پور میں ہر دوسرے گھر میں ایک بنگلہ دیشی لڑکی ملے گی جسے کلکتہ کے بازار حسن سے خرید کر لایا گیا ہے۔ بنگلہ دیش اور بھارت کی سرحد کے ساتھ حسن آباد اور بشیرہٹ کا سرحدی مقام پورے بھارت بلکہ دنیا بھر میں بنگالی عورتوں کی سمگلنگ کے لئے مشہور ہیں۔ خلیج بنگال میں گرتے ہوئے ندی نالوں اور سمندری جنگلات کی وجہ سے یہ علاقے اس خاردار تار سے محفوظ ہیں جو بھارت اور بنگلہ دیش نے دو ہزار کلو میٹر بارڈر پر لگائی ہے اور جو اس وقت دنیا کی سب سے خونی خار دار تار بن چکی ہے۔ وہ غریب بنگلہ دیشی جو بھارت جا کر چند ہزار روپے رزق کمانا چاہتے ہیں اور دلالوں کو پیسے نہیں دے سکتے‘ وہ اِدھر اُدھر بارڈر سکیورٹی فورسز والوں کی نظروں سے بچ کر بلند و بالا خاردار تار کو پھلانگنے کی کوشش کرتے ہیں اور روز کسی نہ کسی بنگلہ دیشی کی خون آلود لاش وہاں لٹک رہی ہوتی ہے جسے بھارتی فوجیوں نے گولی کا نشانہ بنایا ہوتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کم سن بچے ہوتے ہیں جو پکڑے جائیں تو بدترین تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔اس غیر قانونی بارڈر کراسنگ کے بارے میں بنگلہ دیش کی بارڈر پولیس نے یکم جنوری 2000ء سے 31مئی 2018ء تک کی اٹھارہ سالہ رپورٹ شائع کی۔ ان کے نزدیک بھارتی سکیورٹی فورسز نے سرحد عبور کرنے والوں میں سے 1136افراد کو گولی مار کر قتل کر دیا،1065شدید زخمی ہوئے‘1360اغوا کر لئے گئے‘15عورتوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی‘111لاپتہ ہیں‘157سے نقدی اور سامان چھین لیا گیا اور 354کو واپس بنگلہ دیش دھکیل دیا گیا۔ یہ کہانی اس مشرقی پاکستان کی ہے جس کے بارے میں 1971ء سے پہلے میرے ملک کا لبرل سیکولر دانشور یہ کہا کرتا تھا کہ یہ تقسیم ہی غلط تھی۔ بھلا مذہب کے نام پر کوئی ملک ایک ہزار میل کی دوری پر ایک ساتھ رہ سکتا ہے۔ ایک پوری مہم کے تحت ایک بنگالی تہذیب ‘ کلچر‘ موسیقی‘ شاعری اور زمین و فضا کی کہانی بیان کی گئی۔ نفرتوں کی فصل بوئی گئی اور بھارتی فوج کی مدد سے بنگلہ دیش بنا دیا گیا۔ مگر یہ کیا‘ بنگلہ دیش علیحدہ ملک کیوں‘ وہ بنگالی تہذیب و نسل کہاں چلی گئی۔ کلکتہ کا بنگالی ہندو تھا وہ بنگالی رہا لیکن ڈھاکہ کا بنگالی بنگلہ دیشی کہلایا کیونکہ وہ مسلمان تھا۔ تقسیم صرف مذہب کے نام پر ہوئی لیکن کوئی ماننے کو نہیں تیار۔ اس دو قومی نظریے پر مہر تصدیق اس وقت لگی جب دو دن پہلے بھارت کی لوک سبھا میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے شہریت کا ایک ترمیمی بل پیش کیا ہے کہ بھارت پڑوسی ممالک پاکستان‘ بنگلہ دیش اور افغانستان میں مذہبی تفریق سے تنگ آ کر بھاگنے والے ہندو‘ سکھ‘ چین‘ پارسیوں ‘ بودھ اور مسیحیوں کو شہریت دے گا۔ بل میں نیپال اور سری لنکا کی مسلمان اقلیت کو شامل نہیں کیا گیا۔ بلکہ مسلمان کا نام ہی اس فہرست سے خارج ہے۔ ان میں وہ کروڑوں غیر ملکی بنگلہ دیشی تارکین وطن بھی ہیں جن کی آج پورے بھارت میں جانچ پڑتال ہو رہی ہے۔ اس جانچ پڑتال کے تحت آسام میں چالیس لاکھ ایسے بنگلہ دیشی سامنے آئے ہیں جن کے بھارتی شہریت کے کاغذات کو جعلی قرار دے دیا گیا ہے اور وہ غریب الدیار بنگالی اس بنگلہ دیش میں بھی واپس نہیں جانا چاہتے جسے میرا سیکولر‘ لبرل‘ سود پرست جمہوری دانشور ایک خوشحال اور معاشی طور پر مستحکم بنگلہ دیش کہہ کر پکارتا ہے۔ اس سب کے باوجود یہ دانشور بلوچستان‘ سندھ اور خیبر پختونخواہ میں نعرہ لگاتا ہے کہ ہم نے بنگلہ دیش سے کچھ نہیں سیکھا۔ دربدر بکتی ہوئی بنگلہ دیشی لڑکیوںسے پوچھو‘ بھارت میں پہچان سے عاری ڈیڑھ کروڑ بنگلہ دیشیوںسے جا کر پوچھو‘ تم نے 1971ء کے سانحے سے کچھ سیکھا ہے تو پھر پتہ چلے گا۔2007ء میں کلکتہ میں ایک پاکستانی سول سوسائٹی کی خاتون نے بازار حسن میں بنگلہ دیش سے لائی گئی ایک بدنصیب خاتون سے پوچھا تھا‘ تم پاکستان سے علیحدہ ہو کر خوش ہو‘ تو اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہا تھا‘ میری جگہ اس سات فٹ ضرب سات فٹ کے کمرے میں گاہکوں کے انتظار میں کھڑے ہو کر دیکھو پتہ چل جائے گا۔