نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہ بات دوچار روز پہلے شیخ رشید نے بتائی تھی کہ کل سے عمران کی سیاست کا آغاز ہو گا تو اب تک جو کچھ ہو رہا تھا کیا وہ سیاست نہ تھی یا وہ کس بات کو سیاست کہہ رہے ہیں۔ مجھے تو اس کا اندازہ جن باتوں سے ہو رہا ہے۔ وہ تو کوئی خوشگوار نہیں ہیں۔ سب سے نمایاں بات تو رانا ثناء اللہ کا دھر لیا جانا ہے۔ میں نے عرض کیا میں رانا ثناء اللہ کا مقدمہ لے کر نہیں بیٹھا۔ میں تو اس سوچ میں گم ہوں کہ یہ سیاست کون سی ہے جو شروع ہو رہی ہے۔ اس کا پورا نقشہ ان دو چار دنوں ہی میں نظر آنے لگا ہے۔ سب جیل جائیں گے۔ وزراء کرام کب سے اس بات کی رٹ لگا رہے ہیں۔ اب اس میں تیزی پیدا کی جا رہی ہے۔ پنجاب میں ن لیگ کے سب اہم لیڈر ہٹ لسٹ پر ہیں۔ پارٹی توڑی جا رہی ہے۔ اسے بعض لوگ نیا چھانگا مانگا کا نام دے رہے ہیں۔ یاد ہے‘ اس چھانگا مانگا کی زد کس ادارے پر پڑی تھی۔ اب معاملہ ذرا مختلف ہے۔ یہ جوڑ توڑ آسان نہیں ہوتی۔ ممبران اسمبلی کو توڑنا عمران خاں کے بس میں نہیں۔ جہانگیر ترین کے بھی نہیں ۔یہ لوگ صرف پیسہ دیکھ کرنہیں جاتے۔ بلکہ کسی اور طرف سے اشارے کے منتظر ہوتے ہیں۔ کیا وہ کھیل شروع ہو گیا ہے۔ اس میں پریشانی ہو گی تو ق لیگ کو ہو گی کہ پھر حکومت سازی میں ان کی اہمیت پنجاب کی حد تک تو بالکل نہ رہے گی۔ سندھ میں بھی اشارے دیے جا رہے ہیں کہ گورنر سندھ جادوگر آدمی ہیں۔ انہیں بس ایک اشارہ کرنے کی دیر ہے۔ نہ تو یہ گورنروں کا کام ہے نہ گورنر عمران اسماعیل کے یہ بس کی بات ہے۔ پھر آخر کیا کیا جا رہاہے؟۔ کون کرے گا یہ سب کام۔ سندھ میں پہلے بھی جوڑ توڑ سے حکومتیں بنتی رہی ہیں۔ کبھی وہاں کے منتخب نمائندوں کو حکومت کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ فارمولا تیسرا سیدھا ہے‘ کوئی مشکل نہیں۔ مگر اس سے حاصل کیا۔ کسی نے دلیل دی کہ چار سال تک سندھ کو ان لوگوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ دست بستہ عرض ہے کہ پھر کیا وفاق کو ان لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑا جا سکتا ہے۔ جو ہر چیز تباہ کر رہے ہیں۔ یہاں دوسرا سوال اٹھایا جاتا ہے کہ عمران نہیں تو پھر کون؟ سوال معقول ہے‘ مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم بند گلی میں آ پھنسے ہیں۔ فوج کے سربراہ کو درست طور پر سمجھاتے ہیں کہ اگر کوئی یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی جگہ وہ آ سکتے ہیں تو یہ بھول جائیں۔ اس لئے بہت سے لوگ بڑے اعتماد سے کہتے ہیں پاکستان میں مارشل لاء کا کوئی امکان نہیں ہے مگر یہ حکومت بھی تو چلتی دکھائی نہیں دیتی۔ ان کے مطالبے بڑھتے جا رہے ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ کو توڑ دو‘ سندھ میں پیپلز پارٹی کا صفایا کر دو۔ دونوں جگہ بلکہ ہر جگہ ہمیں مکمل بالادستی دی جائے۔ ہر مخالف کو جیل جانا چاہیے کہ گویا یہ ہمارا مینڈیٹ ہے۔ یہ کوئی نہیں بتاتا کہ جیلیں بھرنے سے کیا معیشت ٹھیک ہو جائے گی۔یہ راگ اب پرانا ہو چکا کہ معیشت کی خرابی کی وجہ پرانے حکمران تھے‘ ہم ان کے قرضے اتارنے کے لئے قرض لے رہے ہیں۔ آج کل اسحق ڈار کی ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں انہوں ے معیشت کی صورت حال کا نقشہ کھینچا ہے اور اس بات پر اصرار کیا ہے کہ روپے کو بے قدر کر کے ہمیں دلدل میں پھنسا دیا گیا ہے یہ عالمی ادارے ایسے ہی کرتے ہیں۔ انہوں نے اسے Devaluation driven disasterکا نام دیا یعنی ایک ایسی تباہی جو کرنسی کی قدر کم کر کے پیدا کی جاتی ہے۔ بہت تفصیلی گفتگو ہے ملائشیا ترکی اور وینزو ویلا کی مثالیں دی ہیں۔ ایک صاحب ہوا کرتے تھے جارج سوروس(Sores)جو دنیا بھر کی معیشت کو اپنے فنڈز کے عالمی ادارے سے کنٹرول کرتے تھے۔ ایک آدھ کتابیں بھی ان کی مشہور ہوئی تھیں۔ سرمایے کی کیمسٹری وغیرہ۔ ملائشیا کے بحران کے پیچھے اس کا ہاتھ تھا۔ اب طیب اردوان نے دیکھا کہ ترکی کو اس کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو اسے سوروس وائرس کا نام دیا۔ معیشت کی حالت اتنی دگرگوں ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار فوج نے اس معاملے میں دخل اندازی ضروری سمجھی ہے۔ پہلی بار ہمارے آرمی چیف کو اس ادارے میں بیٹھنا پڑا جو معیشت کی بہتری کے لئے بنایا گیا۔ وردی میں آرمی چیف کے سویلین کا رول ادا کیا تو ہے جیسے ایوب خان وزیر دفاع بن گئے تھے۔ امریکہ سے معاہدوں پر انہوں نے ہی دستخط کئے مگر فوج روایتی طور پر تو معیشت کو سویلین سیاست دانوں یا ٹیکنو کریٹ کی صوابدید پر چھوڑ دیتی ہے حتیٰ کہ ملک میں فوجی آمریت ہی کیوں نہ ہو‘ پھر بھی یہ کام کوئی سویلین ہی کرتا ہے۔ صورت حال اتنی خراب ہو گئی تو فوج کو اس کام کے لئے بھی اپنی خدمات پیش کرنا پڑیں۔ کچھ اور اشارے بھی ملتے ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے سکیورٹی ادارے ملک کی عمومی صورت حال سے پریشان ہیں‘ مگر وہ براہ راست آ کر جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنا نہیں چاہتے۔ مارشل لاء ملکی مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔ بلکہ یہ خود ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہماری فوج ان خطوط پر نہیں سوچ رہی‘مگر اس بارے میں تو یقیناانہیں بھی تشویش نہیں ہو گی کہ نظام مملکت چل نہیں رہا۔ کوئی اور سیاسی قوت ملک میں ان کی نظر میں ہے نہیں جو متبادل بن سکے اور عوام نئے آپشن تلاش کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ قوم نے تو نئے پاکستان کا آپشن بھی آزما کر دیکھ لیا ہے۔ حالات بدتر ہوئے ہیں اور کوئی بہتری نہیں آئی۔ اس پس منظر میں آمرانہ سیاست کا آغاز کرنا موجودہ حکومت کو مہنگا پڑے گا۔ بار بار مصر کی مثال دی جاتی ہے۔ معاف کیجئے ایسا نہیں ہونے والا۔ ایک بات ڈرتے ڈرتے اور عرض کروں ‘ مشہور بات ہے کہ no taxation without Relaxation۔ٹیکس لگانے کا حق صرف عوام کے منتخب نمائندوں کو ہے۔ اس وقت ہمارے ٹیکس نظام پر جو تین افراد براجمان ہیں‘ وہ تینوں آئی ایم ایف کے ہوں نہ ہوں عوام کے منتخب کردہ نہیں۔ حفیظ شیخ‘ شبر زیدی‘ علی باقر رضوی‘وزارت خزانہ ایف بی آر اور سٹیٹ بنک تینوں کس کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اس لئے ایسی تجاویز آ رہی ہیں اور ایسے اقدام ہو رہے ہیں جن کا عوام کی فلاح و بہبود سے کوئی تعلق نہیں یہ پالیسیاں جاری رہیں تو آئندہ ڈیڑھ دو سال تک ملکی معیشت کے سنبھلنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ ایسے میں آپ نئی سیاست کے تجربے کرنا چاہتے ہیں۔ یہ نئے نہیں‘ پرانے حربے ہیں۔ برسوں کے آزمودہ جن سے کبھی کچھ حاصل نہیں ہوا۔