برادرم ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے اپنے والد گرامی مولانا گلزار احمد مظاہری کے سوانح حیات اور خود نوشت ڈائری پر مشتمل کتاب مرتب کی ’’زندگانی ۔جیل کہانی‘‘قابل مطالعہ کتاب ہے جس میں صرف مولانا گلزار احمد مظاہری کے حالات زندگی مذہبی خدمات‘ سیاسی جدوجہد اور خطیبانہ فتوحات کا احاطہ نہیںکیا گیا بلکہ یہ 1950ء ‘1960ء ‘ 1970ء کے عشرے میں برپا ہونے والی تحریکوں کا آنکھوں دیکھا حال اور نامور سیاسی و مذہبی شخصیات کا نامہ اعمال بھی ہے۔ مولانا مظاہری سے میری نیاز مندی رہی اور تادم آخر انہوں نے راقم اور برادر عزیز صاحبزادہ خورشید گیلانی مرحوم سے محبت و شفقت برتی‘ ورق گردانی کے دوران حضرت مظاہری کی مذہبی خدمات‘ اپنے مشن سے گہری وابستگی‘ جیل یاترا اور مالی و جسمانی صعوبتوں کا باردگر احساس ہوا‘ اچھرہ کا وہ گھر یاد آیا جہاں حاضری پر مولانا کے پرتکلف دسترخوان اور متنوع گفتگو سے لطف اندوز ہوتے‘ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تو ان دنوں سعودی عرب میں عربوں کو انگریزی سکھانے پڑھانے میں مشغول تھے مگر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ اور سعید احمد پراچہ اکثر ان ملاقاتوں کا حصہ ہوتے۔ کتاب کا صحیح لطف تو پڑھ کر ہی اٹھایا جا سکتا ہے۔مگر مولانا کی ڈائری میں بلوچی گاندھی اور محمود خان اچکزئی کے والد گرامی خان عبدالصمد خان اچکزئی کا تذکرہ جابجا بکھرا پڑا ہے جسے قارئین پڑھ کر محظوظ ہوں گے۔لکھتے ہیں ’’آج خان عبدالصمد اچکزئی کو سیالکوٹ جیل سے لائل پور جیل منتقل کیا گیا۔ سپرنٹنڈنٹ بتا رہے تھے کہ آپ لوگوں کے حوالہ سے اخبارات اور اسمبلی میں لائل پور جیل کی سختیوں کی بات ہوئی تو حکومت نے سخت جیل سمجھ کر اچکزئی کو یہاں بھیج دیا۔ ہم نے اچکزئی صاحب کو کھانا بھیجا بہت خوش ہوئے اور شکریہ ادا کیا۔‘‘ ’’خان عبدالصمد اچکزئی کے کمرے میں گئے۔ ہر شے سلیقے سے رکھی ہوئی ہے۔ کہنے لگے جماعت اسلامی نے پختونستان کی مخالفت کر کے ہمیں اپنا مخالف بنا لیا ہے۔ اسلام کب زبانوں اور علاقوں کی مخالفت کرتا ہے۔ ہم نے وضاحت کی انہوں نے تسلیم نہیں کی۔ میں نے کہا کبھی تو آپ ہندوستان میں متحدہ قومیت کی بات کرتے تھے اور ہندو مسلم تقسیم کو بھی تسلیم نہ کرتے تھے۔ اب آپ اتنے محدود ہو گئے ہیں کہ پٹھان سے آگے سوچتے ہی نہیں۔ ان سے اس دلیل کا جواب نہیں بن پایا۔ ایک دفعہ جوش سے کہنے لگے ہمیں ایسا اسلام نہیں چاہیے جس میں یہ نہ ہو وہ نہ ہو۔ پھر خود ہی وضاحت کی کہ ہمیں حقیقی اسلام چاہیے۔ کہنے لگے علاقائی روایات کی بڑی اہمیت ہے۔ شاہ اسماعیل شہید اور سید احمد بریلوی کو پٹھانوں نے اسلام کی وجہ سے بادشاہ بنا لیا لیکن انہوں نے پٹھانوں کی رسوم و رواج میں مداخلت کی۔ ایک پٹھان عورت کا نکاح ایک مولوی کے ساتھ کر دیا جس سے لوگ ان کے خلاف ہو گئے‘ میں نے کہا کہ جب ڈاکٹر خان صاحب نے اپنی بیٹی کا نکاح ایک غیر مسلم کے ساتھ کر دیا اس وقت تو پختون روایات کا سوال نہیں اٹھا۔ کہنے لگے وہ تو اہل کتاب کے ساتھ کیا تھا۔ نمبردار اور دونوں مشقتیوں کو آج سورہ یونس کے آخری رکوع سے درس دیا اور انہیں کہا کہ حضرت حسینؓ سے محبت کا تقاضا ہے کہ ان کے نانا اور نانا کے دین کے ساتھ بھی محبت ہو۔ ان کے نقش قدم پر چلنے کا عزم اور ارادہ بھی ہونا چاہیے۔ تقریباً 40منٹ کی اس تقریر کا قیدیوں پر اچھا اثر معلوم ہوتا ہے۔‘‘ ’’آج رات عبدالصمد خان اچکزئی کا کھانا ہماری طرف تھا۔ رات 9بجے تک بیٹھے رہے۔ خوب باتیں ہوئیں‘ دلچسپ آدمی ہیں کہتے تھے کہ امام ابو حنیفہ ؒ بھی پشتون تھے اور پشتو عربی سے پرانی زبان ہے۔ امام ابو حنیفہؒ نے عربی کے علاوہ اپنی زبان میں نماز ادا کرنے کی سہولت دی ہے۔ کہنے لگے کہ شیخ عبداللہ کی خان عبدالغفار سے ملاقات تو نہ ہو سکی البتہ خان عبدالولی خان سے راولپنڈی میں ملاقات ہو گئی۔ مجھے بھی سیالکوٹ جیل سے لائل پور جیل میں شیخ عبداللہ کے دورۂ سیالکوٹ کی وجہ سے تبدیل کیا گیا‘ گزشتہ روز ان کے بچے محمود اچکزئی وغیرہ ملنے کے لئے آئے تو خان صاحب نے کہا کہ میں نے بچوں سے پشتو میں گفتگو کرنی ہے۔ اس لئے پشتو جاننے والا سی آئی ڈی کا آدمی لے آئو۔ چنانچہ اس وجہ سے ان کی ملاقات ایک دن مؤخر ہو گئی۔‘‘ ’’خان عبدالصمد اچکزئی عجیب و غریب خیالات کا ملغوبہ ہیں۔ معجزات پر بات ہوئی تو وہ معجزے کی مادی توجیہہ کرتے رہے۔ ان کے خیالات پر گاندھی‘ سرسید ‘ غلام احمد پرویز اور مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکاروں کے نظریات حاوی ہیں۔ پختونستان کیوں؟ کیسے؟ کس لئے؟ پر سوال کیا تو ان کا کہنا تھا یہ کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں۔ پختونوں کا اپنا خطہ ہونا چاہیے اس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔ آج ان سے خوب مناظرہ ہوا۔ میں نے کہا کہ آپ بات بات پر اسلام کو طلاق رجعی دیتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں اگر یہ اسلام میں ہے تو ہمارا اسلام کو سلام۔ اگر یہ اسلام میں ہے تو ہم باز آئے وغیرہ۔ میں نے کہا کہ یہ انداز درست نہیں۔ آپ اسلام کو مجبوراً تسلیم نہ کریں بلکہ اس کا مطالعہ کریں اور جو بات سمجھ نہ آئے اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ کہنے لگے اچھرے والا اسلام کہتا ہے کہ اگر حدیث قرآن کی مخالف بھی ہو تو حدیث کو قبول کریں گے۔ میں نے کہا یہ بات صریحاً بے بنیاد اور جھوٹ ہے۔ قرآن پاک سے متصادم حدیث کوئی صحیح حدیث ہے ہی نہیں اور قرآن پاک اعلیٰ و ارفع ہے۔ حدیث مبارکہ اس کی تشریح و توضیح ہے۔ کہنے لگے مجھے یہ بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ جنت میں مجھ سے میری بیوی چھین لی جائے گی۔ ہم نے کہا کہ اگر میاں بیوی دونوں نیک ہوں گے تو دونوں جنت میں اکٹھے ہوں گے۔ اسی طرح فوت ہونے کے بعد تو وہ آپ کی بیوی نہیں رہی۔‘‘ ’’خان صاحب سے آج علمِ غیب بھی زیر بحث آیا۔ اسی طرح وصیت اور وراثت کا مسئلہ بھی۔ ان کے نزدیک شریعت کا کوئی متعین طریقہ نہیں۔ زمانے کے مطابق انسان خود متعین کر سکتے ہیں۔ سو مجبوری‘شراب ‘ماحول کا چلن‘ بے پردگی جائز‘ نمازیں دو تین جیسے چاہیں پڑھیں۔ مقامی زبانوں میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔ کہنے لگے کہ مسلمان دو چیزوں کو مصلحتاً مان لیتے تو سب ہندو مسلمان ایک ہو جاتے۔ ایک یہ کہ گائے کی قربانی چھوڑ دیتے دوسرا کزن میرج ترک کر دیتے‘ اپنے بارے میں بتانے لگے کہ میں خود نماز روزے کا پابند ہوں۔‘‘ ’’گورنر صاحب نے نظر بندیوں کے لئے ایک نظرثانی بورڈ حسب سابق بنا دیا ہے۔ نئے ہوم سیکرٹری انور عادل اور ایک جج پر مشتمل یہ بورڈ ہے۔ گفتگو ہوئی کہ اس بے مقصد کام کے لئے ہمیں لاہور جانا چاہیے یا انکار کر دیں۔ فیصلہ یہی ہوا کہ خود لے جائیں تو ہم انکار کیسے کریں۔ اگر ہم سے رائے مانگیں تو ہم یہی کہیں گے کہ اپنی قیادت اور وکلاء سے مشورے کے بعد جواب دیں گے۔ خان صاحب آج لطائف سنانے کے موڈ میں تھے بتانے لگے کہ ایک خان اپنا کیس ہندو وکیل کے پاس لے گیا۔ منشی کو فیس دے رہا تھا کہ ہندو وکیل کی ہوا سرک گئی۔ تو خان نے اس سے فیس واپس لے لی کہ جسے اپنی ہوا پر کنٹرول نہیں وہ میرا کیس کیا لڑے گا۔ ہم نے کہا کہ خان صاحب آپ لوگ تو اب اپنی ہوا(سوئی گیس) کے بھی پیسے لے رہے ہیں کہنے لگے کہ آپ لوگ ہمارے پختونستان کی مخالفت نہ کرو پھر بے شک اپنا اسلام پھیلاتے رہو۔‘‘