ایک عام آدمی کیسے زندگی گزارتا ہے؟ پیدا ہوتا ہے‘ بڑا ہوتا ہے‘ شادی بیاہ کرتا‘ بچے پیدا کرتا‘ انہیں پوستا پالتا اور پھر ایک زندگی گزارتے گزارتے دنیا سے گزر جاتا ہے۔ مٹی میں دفن ہو کر مٹی ہو جاتا ہے۔ کیا خدا نے اسی آدمی کو زمین پر اپنا نائب اور خلیفہ بنایا تھا؟ کیا اسی کو اپنی وہ صفات بخشی تھیں کہ جن سے وہ دنیا کا نقشہ بدل دے یا نائب اور خلیفہ جنہیں بنایا انہوں نے دنیا کو تبدیل کیا۔ تو پھر یہ آدمی جو عام سا ہے جیسے عام سے جانور ہوتے ہیں‘ یہ عام آدمی ویسا ہی ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر احترام آدمیت کا مستحق یہ عام آدمی تو نہیں ہو سکتا۔ احترام و عزت کے مستحق وہ ہیں جو دنیا کو بدلتے ہیں اور عام آدمی کے لیے دنیا کی زندگی کو سہل اور آسودہ بناتے ہیں۔ ساری ایجادات‘ سائنس اور ٹیکنالوجی سے پیدا شدہ ہیں اور سہولتوں اور آسائشوں سے فائدہ عام آدمی ہی کو پہنچتا ہے جب تک دنیا میں بادشاہی کا نظام رہا‘ عام آدمی بے حیثیت تھا‘ اس کا تذکرہ تاریخوں میں نہیں ملتا۔ تاریخ میں تذکرہ بادشاہوں کا ملتا ہے۔ عام آدمی اہرام مصر بناتا رہا‘ تاج محل تعمیر کرتا رہا‘ دیوار چین اٹھاتا رہا۔ لیکن تاریخ میں فراعنۂ مصر اور شاہجہاں بادشاہ اور چینی حکمرانوں کا تذکرہ آتا ہے۔ اس عام آدمی کا کہیں ذکر نہیں آتا جس نے یہ سارے کارنامے انجام دیئے۔ کیوں؟ اس لیے کہ خیال وجود پر مقدم ہے۔ اہرام مصر‘ تاج محل اور دیوار چین کی تعمیر کا خیال جن حکمرانوں کے ذہنوں میں آیا‘ وہ خیال ہی ان عجائبات کو وجود میں لانے کا محرک بنا۔ اصل اہمیت خیال کی ہے۔ خیال نہ ہو تو کوئی ایجاد وجود میں نہ آسکے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وجود سے پہلے وجود کا خیال ہے‘ تصور ہے جو تخیل میں صورت پذیر ہوتا ہے اور تب جا کے وہ خیال حقیقت بنتا ہے۔ اس کائنات کے خلق کرنے سے پہلے اس کا تصور کیا گیااور تصور کی تکمیل کے بعد اس کائنات کی تخلیق صورت پذیر ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو اپنے ذہن کو کام میں لاتے ہیں‘ ان کی قدر و قیمت جسمانی کام کرنے والوں سے زیادہ سمجھی جاتی ہے۔ خدا نے ذہن اور تخیل سے کام کرنے والوں ہی کو اپنا نائب اور خلیفہ بنایا اور اس لیے بنایا کہ وہ ان لوگوں کی خدمت کریں جو جسم سے اپنی روٹی روزگار کماتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں خدا نے عام آدمی کے لیے سائنس دان‘ ماہر تعمیرات یعنی انجینئر‘ ہوش مند حکمران اور صوفی و ولی پیدا کئے تاکہ عام آدمی کی جسمانی اور روحانی ضروریات پوری کرسکیں اور ایسا ہی ہوا لیکن اس نے حکمرانی کا فریضہ انسانوں ہی پر چھوڑ دیا کہ وہ جیسا طرز حکمرانی چاہیں اختیار کریں۔ آسمانی صحائف میں بے شک ایسے نبیوں کا تذکرہ ملتا ہے جو بادشاہ اور حکمران بھی تھے۔ لیکن ان کی بادشاہی کی حیثیت ضمنی تھی‘ ان کی اصل حیثیت اصل پہچان نبی کی تھی۔ اس لیے آسمانی صحائف میں ان کے طرز حکمرانی کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی لیکن ان کی نبوت اور رسالت اور ان کے واقعات کو اس طرح بیان کیا گیا کہ انہیں جمع کر کے ’’قصص الانبیائ‘‘ جیسی کتابیں تالیف کی گئیں‘ کوئی کتاب ان نبیوں کی بادشاہت کی بابت الگ سے مرتب نہیں کی گئی تفاصیل دستیاب ہی نہیں۔ جہاں تک معاملہ اسلام کا ہے‘ نبی کریم ؐ کی بھی دو حیثیتیں تھیں۔ رسول بھی تھے اور پہلی اسلامی ریاست کے سربراہ بھی لیکن ریاست کے بانی کی حیثیت میں بھی وہ رسول ہی رہے۔ انہوں نے بادشاہوں سے خط و کتابت کی تو دعوت اسلام کے لیے، جنگیں لڑیں بھی تو غلبہ دین کے لیے۔ انہوں نے بھی طرز حکمرانی کے بارے میں اپنے بعد آنے والوں کو کوئی ہدایت نہیں دی۔ یہاں تک کہ اپنا کوئی جانشین بھی مقرر نہیں کیا۔ کچھ اشارے احادیث میں ملتے ہیں لیکن امت میں اس پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ آپؐ کے بعد جو خلفا آئے انہوں نے جانشینی کے لیے کوئی یکساں طریقہ کار نہیں اپنایا۔ ہر خلیفہ نے جانشینی کے لیے الگ طریقہ مقرر کیا۔ یہاں تک کہ خلافت ملوکیت میں بدل گئی اور صدیوں تک دنیائے اسلام میں ملوکیت ہی کو فروغ ملتا رہا۔ کہیں خلافت آئی بھی تو وہ رسمی خلافت تھی اور ملوکیت کی بدلی ہوئی شکل تھی۔ دنیائے اسلام میں بتدریج جو تبدیلی آنی شروع ہوئی اور جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے وہ مغرب کی دین ہے۔ مغرب نے ایک طویل تاریخی جدوجہد کے بعد جمہوریت کا جدید نظام متعارف کرایا جس کا ابتدائی خاکہ یونان میں اور تفصیلی خاکہ اسلام کے دور خلافت میں پیش کیا گیا۔ جمہوریت کیا ہے؟ عام آدمی کی اہمیت اس کی رائے کی اہمیت اس کے مسائل کی اہمیت اور اس اہمیت کو حقیقت بنانے کے لیے ایک نظام کا خاکہ جس میں انتخابات‘ پارلیمنٹ‘ انتظامیہ‘ عدلیہ اور میڈیا کو مرکزی اہمیت حیثیت حاصل ہے۔ یہ تجربہ ایک مختصر عرصے کے لیے کامیاب رہا لیکن آہستہ آہستہ کملا گیا۔ جدید جمہوری نظام میں بھی عام آدمی کی نجات نہیں۔ اس نظام کو بھی سرمایہ داروں اور کچھ ملکوں میں جاگیرداروں نے ہائی جیک کرلیا۔ اپنے ملک کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ آج جدید جمہوریت نظام ناکامی سے دوچار ہے۔ اس پر بھی اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ ناکامی اور اس کے اسباب گنوانا بیکار ہے لیکن دنیا اس جمہوری نظام کو اس لیے سینے سے لگائے ہے کہ اس کے سامنے دوسرا کوئی آپشن نہیں۔ کوئی دوسرا نظام ایسا ہے ہی نہیں جو اس نظام کی جگہ لے سکے۔ اشتراکیت سے دنیا کو کچھ امید بندھی تھی لیکن یہ تجربہ روس اور چین میں ناکام ہوا اور وہاں بھی سرمایہ داری نے اپنے ڈیرے جما لیے۔ اب دنیا کو ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جس میں جمہوریت کی خوبیاں اور فائدے بھی ہوں اور اس کے نقائص و نقصانات بھی نہ ہو۔ یہ نظام کون وضع کرے گا؟ کہاں سے آئے گا؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب دینے کی ذمہ داری ماہرین سیاسیات اور دانش وروں کی ہے جن کی ہمارے ملک میں کوئی کمی نہیں۔ یہ اہل علم اور دانش ور ہمارے ٹی وی چینلوں پر پابندی سے آتے رہتے ہیں‘ اخبارات میں لکھتے رہتے ہیں۔ وہ اس پر غور کریں اور اپنی رائے پیش کریں۔ باہمی مکالمے اور گفتگو ہی سے ہم ایسے متبادل نظام کا خاکہ واضح کرسکتے ہیں۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں اس پر سوچ رہا ہوں۔ اس نظام کے خدوخال واضح ہو سکے تو ضرور پیش کروں گا۔