معزز قارئین!۔ آج 10 اپریل ہے اور روزنامہ ’’92 نیوز ‘‘ کی دوسری سالگرہ ۔ روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ کا اجراء 10 اپریل 2017ء کو ہُوا تھا۔ اِس سے چار سال قبل ’’نائنٹی ٹو‘‘(92) نیوز چینل کا آغاز ہُوا تو ، یہ بات عام ہُوئی کہ ’’ حروف ابجد ؔکے مطابق ۔ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام ’’محمدؐ ‘‘ کے اعداد "Ninetey Two" ہیں ۔ 10 اپریل 2017ء کے روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ اِسم ؔ محمد ؐ ۔ انقلاب کا ۔ اسمؔ اعظم!‘‘۔ مَیں نے اپنے کالم میں ہر مسلمان کو علامہ اقبالؒ کا یہ پیغام دِیا تھا کہ … قُوتِ عشق سے ، ہر پست کو ، بالا کردے! دہر میں اسمِ محمدؐ سے اُجالا کردے ! روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ اور نیوز چینل کے مالکان ، میاں محمد حنیف اور میاں عبداُلرشید کا تعلق حضرت غوث اُؔلاعظم شیخ عبداُلقادر جیلانی ؒکے سلسلہ ٔ قادریہ ؔسے ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ’’ اُنہوں نے ’’سرورِ کائنات‘‘ حضور پُر نُورﷺاور ’’مولائے کائنات ‘‘ حضرت علیؑ ،ہر مسلک کے اولیائے کرامؒ ، علاّمہ اقبال ؒ اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے افکار و نظریات کو عام کرنے کے لئے پہلے ’’92 نیوز ‘‘ چینل اور پھر روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ کا اجراء کِیا اور اپنے رنگ میں بیان کرنے والے اہل قلم کی بہت اعلیٰ ٹیم بھی بنالی ہے۔ معزز قارئین!۔ نجفؔ ۔ عراق کا ایک شہر ، جہاں حضرت علی مرتضیٰ ؑ کا روضہ شریف ہے۔ اپنی ایک نظم میں علاّمہ اقبالؒ نے کہا کہ … نجفؔ، میرا مدینہ ؔہے، مدینہ ہے میرا کعبہؔ! مَیں بندہ اور کا ہُوں، اُمّتِ شاہ ولایت ہُوں! …O… اپنی ایک دوسری نظم میں علاّمہ اقبالؒ نے کہا کہ … بغضِ اصحابِ ثلاثہ ، نہیں اقبال ؔکو! دِق مگر اِک خارجیؔ آ کے مولاؔئی ہُوا! تحریکِ پاکستان کے نامور کارکن آزاد بن حیدر کی تالیف ’’ آل انڈیا مسلم لیگ (سرسیّد سے قائداعظمؒ تک) ‘‘کے مطابق ’’ متحدہ ہندوستان کی مرکزی قانون ساز اسمبلی کے موسم خزاں کے اجلاس کے موقع پر اجلاس سے فارغ ہو کر قائداعظمؒ نے حاجی سر عبداللہ ہارون، مولانا ظفر علی خان ، مولانا سیّد غلام بھیک نیرنگ، مسٹر محمد نعمان اور حاجی عبداُلستار کو، بتایا تھا کہ ’’ میرے آبائو اجداد لوہانہ ؔراجپوت تھے۔ میرے مُورثِ اعلیٰ حضرت غوث اُلاعظم شیخ عبداُلقادر جیلانی ؒ کے خاندان کے ایک معزز فرد پِیر سیّد عبداُلرزؔاق ؒ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کِیا تھا‘‘۔ قیام پاکستان سے قبل ایک صحافی نے قائداعظمؒ سے پوچھا کہ ’’ آپ شیعہ ہیں یا سُنی؟‘‘۔ تو، آپؒ نے جواب دِیا کہ ’’شعیہ نہ سُنی ، مَیں تو ایک عام مسلمان ہُوں لیکن ہم سب مسلمان مل کر امیر اُلمومنین حضرت علی مرتضیٰ ؑ کا یوم ولادت اور یوم شہادت مل کر مناتے ہیں ۔یاد رہے کہ ’’ قائداعظمؒ کے والد صاحب محترم جناح پونجا ؒ نے اپنے بیٹے کا نام محمد علی جناحؒ رکھا اور اپنی ایک بیٹی کا نام فاطمہ ؒ۔ اِس لحاظ سے مَیں تو ، جناب جناح پونجاؒ کو بھی مولاؔئی ہی سمجھتا ہُوں اور حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کو بھی ‘‘ ۔ معزز قارئین!۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان قائم ہُوا تو ، گورنر جنرل آف پاکستان کا منصب سنبھالتے ہی قائداعظمؒ نے اپنی ساری جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا تھا ۔ اِس سے قبل ملّت اسلامیہ کے ایک اور بڑے قائد ، جمہوریہ تُرکیہ کے بانی غازی مصطفی کمال پاشا ؒ نے بھی صدر جمہوریہ تُرکیہ کا منصب سنبھال کر اپنی ساری جائیداد قوم کے نام کردِی تھی لیکن’’ عُلمائے سُو ‘‘اِن دونوں قائدین کے خلاف کُفر کے فتوے جاری کر کے رُسوائی مول لے لی تھی( بلکہ مفت حاصل کرلی تھی) ۔ پنجاب کے فارسی اور پنجابی کے صوفی شاعر حضرت سلطان باہوؒ(جنوری 1630 ء ۔ مارچ 1691ء ) نے یزید بن معاویہ کے دَور میں سانحہ کربلا ؔ پر تبصرہ کرتے ہُوئے کہا تھا کہ … جے کر ، دین علم وِچ ، ہوندا! اٹّھاراں ہزار جے، عالم آہا! اوہ اگے حسین ؑ دے، مَردے ہُو! جو کُجھ ملاحظہ سَروَر دا کر دے! تاں خیمے، تمبُو، کیوں سَڑ دے ہُو! پَر صادق دِین تِنباں دے باہُو! جو سرِ قُربانی، کر دے ہُو!! یعنی۔ ’’دینِ اسلام اگر عِلم میں ہوتا (تو میدانِ کربلا میں اہلِ بیت ؑ) کے سَروں کو نیزوں پر کیوں چڑھایا جاتا؟ (اُس وقت یزیدی سلطنت کے اندر) 18 ہزار عالم تھے۔ (انہوں نے یزیدیت کے خلاف بغاوت کر کے) حضرت حسین ؑ پر اپنی جانیں قربان کیوں نہ کر دیں؟۔ اگر وہ عُلماء حق پرست ہوتے تو وہ آلِ رسولؐ کے خیموں کو آگ کی نذر کیوں ہونے دیتے؟ اور اگر اُس وقت مسلمان کہلانے والے لوگ حضورؐ کی تابعداری اور اطاعت کرنے والے ہوتے تو وہ اہلِ بیت ؑ کا پانی کیوں بند کر دیتے؟ اے باہُو! جو لوگ سچے لوگوں کے لئے قربانی دے سکیں، وہی دِین کی حفاظت کرنے والے اور سچّے ہیں‘‘۔ قائداعظمؒ 11 ستمبر 1948ء میں خالق حقیقی سے جا مِلے تھے ۔ اُنہیں خلیفۂ اِسلام دوم حضرت عُمر فاروق ؓ کے دَور کی حقیقی ، اسلامی ، جمہوری اور فلاحی مملکت بنانے کا موقع نہیں ملا۔ اُن دِنوں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف وزیراعظم پاکستان تھے اور اُن کی عطاء ؔسے ، سیّد ؔ ممنون حسین ، صدر پاکستان، جب مَیں نے اپنے10 اپریل 2017ء کے کالم میں لکھا کہ ’’ قا ئداعظمؒ کے بعد ’’ جمہوریت ، سوشلزم اور اِسلام کے نام پر ‘‘ حکمران اپنے جیسے سابق حکمرانوں سے ’’یاری‘‘ نباہتے ، اب بھی نباہ رہے ہیں ، پھر جرائم کاروں کو سزا کیسے مِلے؟۔ حضرت غوثِ اعظم شیخ عبد اُلقادر جیلانی ؒ(1166ء ۔ 1077ئ) نے شاید ہمارے پاکستان کے بارے میں پیشگی کہہ دِیا تھا کہ … چُوں سُلطان‘یارِ دُزدے‘بشارت دے‘تو رازاں را! نہ دستے و پائے ، می برند ، نَے زنداں و نَے دارست! یعنی۔ ’’جان لینا چاہیے کہ جب سُلطان ( کوئی بھی حکمران) چوروں کا یار بن جائے تو چوروں کو نوِید سُنا دیں کہ اب نہ تو ، کسی کے ہاتھ پائوں کٹیں گے ، نہ کسی کو زنداں میں ڈالا جائے اور نہ ہی کسی کو پھانسی دی جائے گی‘‘۔ معزز قارئین!۔ قیام پاکستان سے قبل ہماراخاندان مشرقی پنجاب کی سکھ ریاست نابھہؔ میں آباد تھا ۔ میرے والد صاحب تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان ’’ آل انڈیا مسلم لیگ ‘‘ کے نیشنل گارڈز کو سِکھوں کو لڑائی کے لئے ’’ لٹھ بازی‘‘ سِکھاتے تھے ۔ نابھہ ؔشہر میں اُن کے ایک دوست تھے سیّد دبیر حسین گیلانی جو، نابھہ ؔکے مسلمانوں کو سِکھوں کے حملوں سے بچاتے بچاتے خُود شہید ہوگئے۔ اُن کے ساتھ میرے چچا رانا فتح محمد چوہان اور پھوپھا چودھری محمد صدیق بھٹی اور دوسرے رشتہ دار بھی شامل تھے ۔ سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات سیّد انور محمود گیلانی سے میری 1973ء میں واقفیت اور 1992ء میں دوستی ہوگئی تھی۔پھر وہ انفارمیشن گروپ میں میرے محسن اعلیٰ ثابت ہُوئے۔ مجھے سیّد انور محمود ، میرے مُنہ بولے تایا جیؔ سیّد دبیر حسین گیلانی کا دوسرا رُوپ نظر آئے۔ مجھے روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ کا راستہ سیّد انور محمود گیلانی نے دِکھایا جہاں جنابِ مجید نظامی کے ’’ نوائے وقت‘‘ کے سابق ڈپٹی ایڈیٹر ، میرے دوست برادرِ عزیز سیّد ارشاد احمد عارف گیلانی اور روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ کے دوسرے برادرانِ محترم و عزیز نے مجھے "Welcome" کِیا ۔ مَیں اپنے والد صاحب کی طرح ’’ لٹھ باز‘‘ نہیں ہُوں البتہ ’’ قلم باز ‘‘ ضرور ہُوں اور قائداعظمؒ ، اُن کے ساتھیوں اور کارکنوں کے خلاف عُلمائے سُو ؔاور اُن کی باقیات پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے کا فن جانتا ہُوں ۔10 اپریل 2018ء کے میرے کالم کا عنوا ن تھا ’’ نائنٹی ٹو۔ نائنٹی ٹو‘‘ ۔ مَیں نے لکھا تھا کہ۔ ’’ ھُو‘‘ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ مطلق کی طرف اشارہ ہے اور ’’اللہ ھُو ۔اللہ ھُو ‘‘۔ حق پرستوں کا نعرہ ۔ میرے آج کے کالم کا عنوان بھی یہی ہے۔