ارسلان میرا بھتیجا ہے۔ پیدائش سے لے کر او لیول (O Level)تک وہ انگلینڈ میں رہا۔ 2018 میں والدین کے ہمراہ پاکستان آگیا اور لاہور کے ایک کالج میں فرسٹ ائیر میں داخل ہو گیا۔ اس کی اردو مناسب ہے کیونکہ گھر میں اردو ہی بولی جاتی ہے۔ ایک روز بھابی ( ارسلان کی والدہ) نے فون پر مجھے کہا "بھائی جان ارسلان آپ کے پاس آرہا ہے۔ اس کو اردو کا ہوم ورک ملا ہے۔ اسے کروا دیجئے۔" تھوڑی دیر بعد ارسلان میاں تشریف لے آئے۔ کہنے لگے ـ"انکل! اردو کے ٹیچر نے اسائین منٹ دی ہے کہ اس poem کی تشریح لکھ کر لائیں۔ میں نے کہا " لائو دکھائو۔" دیکھا تو وہ فیض کی مشہور غزل تھی : گلوں میں رنگ بھر ے بادِ نو بہار چلے چلے بھی آئو کہ گلشن کا کاروبار چلے۔ "بیٹا یہ poem نہیں غزل ہے۔" میں نے کہا " وہ کیا ہوتی ہے؟" "غزل بھی ایک قسم کی poem ہی ہوتی ہے۔ فی الحال چھوڑو اس بات کو۔ غزل کی تشریح سنو۔ مطلع ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" " مطلع کیا ہوتا ہے؟ وہ جو صاف ہوتا ہے؟ ماما کہا کرتی ہیں آج مطلع صاف ہے" " ماما کو گولی مارو یار۔ اوہ آئی ایم سوری ۔ میرا مطلب ہے ماما کا ذکر چھوڑو۔ غزل کے پہلے شعر کو مطلع کہتے ہیں۔ آخری شعر کو مقطع کہتے ہیں۔" ـ" بیچ والے شعروں کو کیا کہتے ہیں ـ؟" " بیچ والے شعروں کو کچھ نہیں کہتے ـ" " کیوں کچھ نہیں کہتے؟" اُس نے پوچھا " اُن کا کوئی قصور نہیں ہوتانا " " کیا مطلب انکل؟" ـ" کچھ نہیں ۔ ایسے ہی منہ سے نکل گیا۔ مطلعے کا پہلا مصرعہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" " مطلعے میں کتنے مصرعے ہوتے ہیں؟" "تمہاری کتنی ٹانگیں ہیں؟ " میں نے پوچھا "دو" جوا ب ملا "مطلعے کے بھی دو ہی مصرعے ہوتے ہیں" "غزل Human باڈی کے مطابق لکھی جاتی ہے؟" اس نے پوچھا ـ" یار ایک تو تم بولتے بہت ہو۔ سنو زیادہ ، بولو کم" ۔ "ٹھیک ہے ، سنائیں" " تو سنو۔ شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کرتے ہوے کہتا ہے کہ میں آج ایک چمن میں آکر بیٹھا ہوں یعنی ایک گارڈن میں آکر بیٹھا ہوں۔" "انکل یہ محبوب کون ہے؟" " محبوب ایک شخص ہے جس سے شاعر محبت کرتا ہے" " یہ محبوب مرد ہے یا عورت؟ " " یار اس بات کا تو ابھی شاعر کو خود بھی ٹھیک سے پتہ نہیں چل سکا۔ " ـ" شاعر تو مرد ہے نا؟" " ہاں بھئی۔ فیض صاحب سب کو معلوم ہے، مرد تھے۔" " تو پھر انکل یہ محبوب فیض صاحب کی گرل فرینڈ ہو گی۔ لندن میں میری بھی ایک گرل فرینڈ ہے۔" ـ" یار گولی مارو اپنی گرل فرینڈ کو ۔ شعر کا مطلب سمجھو۔" " سمجھائیں۔" " ہاں تو ہوا یوں کہ شاعر اپنے گھر کے قریب ایک چمن میں آکر بیٹھا۔ اُس نے دیکھا کہ چمن میں جتنے بھی پھول ہیں اُن سب کا رنگ اُڑ چکا ہے۔" " سب پھول وائیٹ ہو چکے ہیں؟" اس نے پوچھا " با لکل وائیٹ پیور وائیٹ، شاعر پھولوں کا یہ حال دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے ۔" " انکل اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ! سفید پھول بھی دیکھنے میں بُرے نہیں لگتے۔" " تم سمجھ نہیں رہے یار ! پھولوں کا حلیہ بگڑ گیا ہے۔ مکمل بیڑا غرق ہو گیا ہے۔ یہ دیکھ کر شاعر بے حد اُداس ہو گیا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ پھول پھر سے ہرے بھرے ہو جائیں۔ ان پر پھر سے رنگ چڑ ھ جائے اور یہ پہلے جیسے ہو جائیں۔" " یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ انکل یہ شاعر پاگل ہے؟ " "نہیں بیٹا۔ ایسے نہیں کہتے۔ تمہارے لئے غزل ایک نئی چیز ہے۔ اِس لئے سمجھنے میں دقّت محسوس کر رہے ہو۔ دراصل بات یہ ہے کہ جب شاعر گلشن میں گیا، اُس وقت پھول ترو تازہ اور رنگ برنگے ہی تھے۔ لیکن شاعر کو یہ محسوس ہوا کہ تمام پھول مُرجھا کر بے رنگ ہو چکے ہیں۔ ـ" " کیوں انکل ؟ شاعر کی نظر کمزور تھی ؟ـ" " شاعر کی نظر بالکل ٹھیک تھی۔ وُہ دراصل یہ کہنا چاہتا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے محبوب سے دُور ہو اور دونوں کے درمیان کسی وجہ سے جُدائی حائل ہو جائے تو اُس کو ہر چیز اداس، بے رنگ اور بے کار لگنے لگتی ہے۔" " گلشن میں جانے کی بجائے شاعر کو چاہیے تھا کہ محبوب صاحب کو اُن کے گھر جا کر مل لیتا یا اُنہیں فون کر کے بُلالیتا۔ میں تو لندن میں اپنی گرل فرینڈ کو فون کرتا ہوں تو وہ فورا آجاتی ہے۔ " " دیکھو بیٹا اُس زمانے میں ٹیلی فون اتنا عام نہیں ہوتا تھا۔ PTCL والا ٹیلی فون بھی کسی کسی گھر میں ہوتا تھا۔ موبائل فون تو ایجاد ہی نہیں ہوا تھا۔ تُم ان باتوں کو چھوڑو اور یہ سمجھنے کی کوشش کرو کہ شاعر کیا محسوس کر رہا ہے اور اُس نے شعروں میں کیا کہاہے۔" "اچھا ٹھیک ہے " " ہاں تو شاعر کہتا ہے کہ پھول بے رنگ ہو چکے ہیں اور بہار کے موسم کی ہوا بھی نہیں چل رہی۔ تم یہاں میرے پاس آجائو تاکہ پھولوں میں پھرسے جان پڑ جائے اور بہار کی ہوا چلنے لگے۔ " " انکل آپ تو کہتے ہیں وہ محبوب وہاں نہیں تھا۔ پھر وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ چلے آئو؟ " "ٹھیک ہے شاعر وہاں نہیں تھا۔ شاعر جب کہتا ہے چلے بھی آئو تو دراصل اپنی خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ محبوب یہاں آجائے جس کے بغیر پھول بھی بے رنگ ہیں ، ہوا بھی نہیں چل رہی اور ایک حبس کی کیفیت ہے۔ " " شعر میں تو حبس کا کوئی ذکر نہیں۔ " اس نے کہا ـ" شاعر نے حبَس کا ذکر نہیںکیا۔ یہ میں اپنی طرف سے کہہ رہا ہوں۔ انسان اگر اپنے محبوب سے جُدا ہو جائے تو اِس طرح کی بے چینی محسوس کرتا ہے۔ اسے اردگرد کی ہر شے بے رنگ لگنے لگتی ہے اور وہ شدید قسم کی بوریت محسوس کرتا ہے۔" "آپ کوکیسے پتہ ہے؟ کیا آ پ کا محبوب بھی آپ سے جُدا ہو گیاتھا؟" " دیکھو میں اِس قسم کی بکواس سننے کا عادی نہیں ہوں۔ پڑھنا ہے، پڑھو ورنہ چھٹی کرو۔" " سوری انکل۔ آپ ناراض نہ ہوں۔ چلیے آگے سمجھائیں۔ـ" ـ" ہاں تو شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ یہاں گلشن میں چلے آئو تاکہ پھُول بھی تروتازہ ہو جائیںاور بادِ بہار بھی چلنے لگے۔ " انکل ، آپ اگر ناراض نہ ہوں تو ایک سوال پُوچھ لوں ۔ صرف ایک سوال" " ہاں پُوچھو" " کیا یہ نہیں لگتا کہ شاعر کو اپنے محبوب کی اتنی فکر نہیں ہے، جتنی پھولوں اور ہوا کی ہے ۔میرے خیال میں شاعر اُس گلشن کا مالک ہے یا وہاں مالی ہے۔ وہ محبوب کو صرف اس لیے بلانا چاہتا ہے کہ گلشن کا ماحول ٹھیک ہو جائے۔ " ـ" دیکھو بیٹا۔ میں انگریزی کا ٹیچر ہوں ۔ اُردو پڑھانا اور خاص کر تُم کو اُردو پڑھانا میرے بس کی بات نہیں۔ تم اپنی ماما سے کہوکہ تمہارے لئے کسی اُردو کے ٹیوٹر کا بندوبست کریں۔" ـ" او کے انکل اوکے۔ آپ ٹینشن نہ لیں۔ میں کر لوں گا کُچھ !" " اوکے ۔ تھینک یُو۔ "