’’جی ہاں‘‘ مرشد نے کہا‘نیا کوتوال آ گیا۔چوکس ہے‘خبردار بھی‘لمحے میں آدمی کو جانچ لیتا ہے‘معاملے کو بھانپ لیتا ہے۔تو قبلہ‘فرمائیے‘کہاں براجمان ہیں۔دید کا شوق ہے۔شاگردوں نے کہا۔مرشد نے بتایا‘جامع مسجد کے چوک میں ملے گا‘ایک سقّے کی صورت‘ایک پانی کا کھوڑہ دے گا۔ اب جامع مسجد کے کیا کہیے۔یہ کوئی محض ایک عمارت کا نام تو تھا نہیں‘آدھے سے زیادہ دلّی اسی کے آس پاس تھی۔دائیں جانب لال قلعہ‘سامنے فتح پوری مسجد اور اس کے قریب بھی قدم شریف اور ذرا پہلے چاندنی چوک اور نیچے کی طرف کو جائو تو پہاڑ گنج اور پھر یہیں سے دائیں ہاتھ وہ علاقہ جہاں رام لیلا گرائونڈ ہے۔جامع مسجد کا چوک کیا تھا‘ایک سدا بہار میلے کا مقام تھا۔پھول والوں سے لے کر اہل عرب تک سبھی گھومتے تھے۔کیا شے تھی جو یہاں نہیں ملتی تھی اور کیا نظر شیوہ نبھانے والے اہل نظر سے لے کر ایک سے ایک بولہوس یہاں پہنچا ہوتا تھا۔کباب سے خربوزے تک‘آب شیریں سے چنیا بیگم تک‘سبھی کے دلدادگان کے لئے دل پسند کا سامان تھا۔ایک سے ایک ماہ پارہ تسکین نظر کے لئے دلی پھر سے کھینچا چلا آتا تھا۔ چوکڑی میدان میں پہنچی‘نگاہ گھماتے ذرا دیر نہیں ہوئی تھی کہ ’’کوتوال‘‘ صاحب مل گئے۔سیاہ فام‘مضبوط ہاتھ پائوں‘من بھر کی مشک کمر پر ‘کٹورے ایک ڈوری میں پروئے ہوئے ہاتھ میں۔ایک شاگرد نے بڑھ کر کہا‘چار کٹورے دیجیو۔’’ماشکی‘‘ نے کٹورے دیے‘پانی پی کر ایک شاگرد نے کہا‘میاں سقے‘تمہارا پانی تو کھاری تھا‘دام کس بات کے دیں۔ماشکی کے تیور بدلے‘جسم تن گیا‘جوتا اتارا اور کڑکا‘کم بختو‘مجھے بھی کیا خربوزے والا سمجھ رکھا ہے۔ شاگردوں کو چار عدد پائیاں دے کر بھاگنا پڑا۔قبلہ کے حضور پہنچے‘ماجرا بیان کیا اور کہا‘دلّی کا نظام کیسے سدھرا۔بات سمجھ میں آ گئی۔ تو قاریو!قصّہ یہیں تک ہے‘کبھی موقع ملا تو اسی میدان رشک جہاں میں ایک خربوزہ فروش کا قصّہ بھی سنئے گا۔جو خربوزے نہیں‘دل کی تاشیں بیچا کرتا تھا اور اس دھن شناس کی بھی جسے ایک مرد بزرگ نے دُھئیے(زدئی دھننے والے) کی دھن بتائی تھی اور اس کے معنے بھی تو وہ دھن شناس داد کا ایک لفظ ادا کئے بغیر قید حیات سے آن کی آن میں نجات پا گیا۔ فی الوقت ایک اور ملک کے قصّے کا بیان مقصود ہے کہ نام جس کا بہارستان تھا اور قصّہ گو اسے سرزمین چہار باغ دھنت رنگ بھی کہتے تھے۔اس اقلیم میں خوشیاں بھی تھیں اور غم بھی لیکن مجموعی طور پر کاروان زندگی ھما ہمی سے معمول تھا لیکن پھر اچانک اس کا کوتوال بدل گیا۔کوتوال کیا بدلا‘موسموں کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے۔بادسموم چلنے لگی،موسم کے تھپیڑوں نے باغ ویران کر دیے‘خوشبوئیں روٹھ گئیں‘ تتلیاں کسی اور دیس کواڑ گئیں۔اشرفی کہ سکّہ رائج الوقت تھی‘کوڑی کے بھائو ہو گئی سفید پوش سفید پوشی سے محروم ہو گئے‘نوالے کو ترس گئے‘بچوں کا بچپن بڑھاپے کی گھمبیرتا نے نگل لیا۔اٹھائی گیروں‘جیب تراشوں‘ ٹھگوں‘ چوروں ڈکیتوں کی بن آئی‘نظم و نسق ہوا ہوا‘سامان زیست کہ بغیر اس کے زندگی کو چارہ نہیں‘ہاتھوں کی پہنچ سے دور ہوا‘گرانی اور کمیابی نے اچھے اچھے کو پیغمبری دن دکھائے‘بھانڈ میراثیوں نے تمغے پائے‘روش ہائے چمن پر عنکبوت حلقہ زن ہوئے‘آھوئوں کی جگہ سیار دوڑنے لگے‘بام و در پر بوم نوبت بجانے لگے اور محرومی کی زنجیریں بدن پوش ہوئیں۔فریاد و نالہ کی لے ہر کوچے سے بلند ہوئی اور صدا بصحرا ہوئی۔عمال سلطنت غریبوں کا تمسخر اڑاتے اور نائو نوش میں غرق رہتے۔خلق خدا کی جان پر بن آئی‘لاکھ دہائی دی‘کسی کے کانوں تک نہ پہنچی۔غرض معروض یہ ہے کہ کوئی تو بتائے کہ وقت کا مرشد کہاں بستا ہے کہ جائیں اور جا کر پوچھیں کہ حضرت‘نیا کوتوال کس دیس سے آیا‘کیسا ہے‘کہاں چوکی جماتا ہے‘پتہ بتائو تو جا کر دیدار کریں اور ہو سکے تو مرشد سے پوچھ لینا کہ حضرت‘یہ نیا کوتوال کب تک رہے گا اور یہ بھی بتا دینا‘رعایا پوچھ رہی ہے کہ حضرت‘اس طرح کے جینے کو کہاں سے جگر آوے۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ ہم نے کوشش کی ہے کہ غریب پر کم سے کم بوجھ ڈالیں‘ ان کا یہ فرمانا بالکل درست ہے۔ آج ہی ان کے خطاب سے ذرا پہلے نیپرا نے سال بھر کے لیے بجلی کے نرخ ایک روپے 72 پیسے بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ حکومت چاہتی تو زیادہ بوجھ ڈالتے ہوئے نرخ دو روپے یونٹ بڑھا دیتی لیکن اس نے 28 پیسے کا ریلیف دیا اور یوں کم سے کم بوجھ ڈالا جس کی وجہ سے غریب ایک بار پھر غریب پرور حکومت کی غریب نوازی کی داد دینے پر مجبور ہیں۔ وہ تین سال سے داد بھی دے رہے ہیں اور دعائیں بھی۔ عمران خان صاحب خدا کے لیے اتنی غریب نوازی نہ کریں۔ غریب دعائیں دے دے کر تھک گئے ہیں اب انہیں کچھ آرام کا موقع دیں اور خود بھی آرام فرمائیں۔ ہمیں پتہ ہے غریبوں کو ریلیف دینے اور ان پر کم سے کم بوجھ ڈالنے کے لیے آپ دن رات اور رات دن کام کر رہے ہیں۔ تھک جائیے گا۔ آپ تھک گئے تو غریبوں کو ریلیف کون دے گا۔ ٭٭٭٭٭ خبر ہے کہ پندرہ دن میں گندم کے نرخ چار سو روپے من بڑھ گئے یعنی دو سوروپے فی ہفتہ یقینا یہ اضافہ بھی غریبوں پر کم سے کم بوجھ ڈالنے کے لیے کیا ہوگا ورنہ نرخ پانچ سو روپے من بڑھ جاتے اور یہ بات ہمیں نہیں بھولنی چاہیے کہ خطے میں سب سے سستی گندم اب بھی ہمارے ہاں ہے اور یہ سوال ہمیں کبھی نہیں کرنا چاہیے کہ حضور کون سا خط۔ خبر میں ہے کہ اس معاملے کا ذمہ دار محکمہ خوراک ہے یعنی وزیراعظم نے کم سے کم بوجھ ڈالنے کی جو ذمہ داری اٹھالی ہے محکمہ خوراک بھی اس میں حصے دار ہو گیا ہے۔ ٭٭٭٭٭ پنڈورا لیکس آ گئے۔ کچھ سال پہلے پانامہ لیکس آئے تھے جس میں ساڑھے چار سو شاید نام تھے کسی ایک کے خلاف بھی کارروائی نہیں ہوئی اور جس کا نام نہیں تھا اس کے خلاف ریاستی سطح پر تاریخی ایکشن ہو گیا جس کا نام پانامہ لیکس میں نہیں تھا۔ اس کا نام نوازشریف تھا۔ نئے لیکس میں ہزار سے کچھ کم نام ہیں اور ہزار سے کچھ زیادہ فیصد یقین ہے کہ ان میں سے کسی کے خلاف کچھ نہیں ہو گا اور جو کچھ ہوگا اس کے خلاف ہو گا جس کا نام نہیں ہے اور جس کا نام نہیں ہے اس کا نام نوازشریف ہے۔ انتظار فرمائیے کب نوازشریف کے خلاف جے ٹی آئی بنتی ہے اور کب اس پر نگران کا تقرر ہوتا ہے۔