وفاق اور سندھ میں پانی تقسیم کا جھگڑا اب پنجاب کو لپیٹ میں لیتا نظر آرہا ہے ۔سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ وفاق اور پنجاب نے صوبہ سندھ کے حصے کا پانی روکا ہے۔دوسری طرف وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے سندھ کے الزامات پر صوبے میں بااثر حکومتی زمینداروں کا پانی چوری میں ملوث ہونا بتایا ۔ان کی رائے میں سندھ کو اپنے حصے کا پانی مل رہا ہے لیکن اپنے لوگوں کا جرم چھپانے کے لئے وفاق اور پنجاب پر الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ پاکستان چار صوبوں اور وفاقی انتظام والے علاقوں پر مشتمل ریاست ہے۔فاٹا کے نام سے وفاق کے زیر انتظام علاقوں کو کے پی کے کا حصہ بنا دیا گیا ہے،پنجاب اور بلوچستان کے بعض دور دراز علاقوں کو ہنوزقبائلی علاقے کا درجہ حاصل ہے۔وفاق کی تمام اکائیوں کے مابین جس طرح مالی وسائل کی تقسیم کے نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ پر اتفاق قائم ہوا اسی طرح پانی کی تقسیم کا ایک فارمولہ موجود ہے جس پر عملدرآمد کی ذمہ داری ارسا کو تفویض ہوئی ۔ اس سال ارسا نے ملک میں 10 فی صد تک پانی کی کمی کی پیش گوئی کی تھی لیکن دریاوں کے بہاو میں غیر متوقع کمی رہی اور مجموعی طور پر یہ کمی 25 فیصد تک پہنچ گئی۔ پانی کی کمی کو صوبوں کے مابین 1991 کے واٹر اکارڈ کے تحت طے شدہ فارمولے کے مطابق تقسیم کیا جاتا ہے لیکن رواں خریف میں پنجاب کو اپنے 2 کروڑ 10 لاکھ 71 ہزار ایکڑ پر محیط کمانڈ ایریا کے لئے مجموعی طور پر 22فی صد کمی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ سندھ کواپنے ایک کروڑ 20 لاکھ 78 ہزار ایکڑ کمانڈ ایریا کے لئے محض 17 فی صد کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ سندھ میں اِس وقت 39% پانی کا ضیاع رپورٹ کیا جا رہا ہے جبکہ پنجاب کے انڈس زون میں پانی کے ضیاع کی بجائے 2% اضافی پانی دریاؤں میں رپورٹ ہو رہا ہے۔سند ھ کے اس غیر معمولی پانی کے ضیاع کی وجہ سے صوبوں کو پانی کی مزید کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ارسا کی ٹیم کی جانب سے متعدد بار سند ھ کے بیراجوں کی انسپیکشن کی گئی اور مشاہدہ کیا گیاکہ ہر مرتبہ سندھ کی طرف سے رپورٹ کردہ ڈیٹا اور ارسا کی ٹیم کیاکٹھا کئے ڈیٹا میں واضح میں فرق ہے۔ مثلاً 2019 کی رپورٹ کے مطابق گدو بیراج پہ 27589 کیوسک (14.25%)پانی کم رپورٹ کیا گیا۔جبکہ نارا کینال میں 21486کیوسک پانی لیا جا رہا تھااور صرف 15100 کیوسک رپورٹ کیا جا رہا تھاجو کہ 29.7%کم تھا۔ دریاوں میں پانی کا بہاو کم ہونے کی وجہ سے ڈیموں میں موجود پانی سے صوبوں کو پانی مہیا کیا گیا جس کی وجہ سے منگلا اپنے پلان سے70 فٹ نیچے ہے۔ اور اس وقت منگلا ڈیم پانی کے طے شدہ حجم کے اعتبار سے 83فیصدکمی کا شکار ہے۔18 مئی کو ارسا نے فیصلہ کیا تھا کہ سندھ کے مطالبات کو پورا کرنے کے لئے منگلا ڈیم سے 8000کیوسک اضافی پانی چھوڑا جائے جوکہ ارسا کی منصوبہ بندی اورآئندہ فصل کے لئے منگلا ڈیم کی بھرائی کے طے شدہ طریقہ کار کے سراسر منافی تھا کیونکہ پانی میں کمی کی صورت حال کا از سرنو جائزہ لینے کی بجائے جوکہ 25-30 فی صد تک ہوسکتی ہے ارسا نے سندھ کو پنجند کے ذریعے منگلا ڈیم سے اضافی پانی دینے کا فیصلہ کیا جوکہ پنجاب میں خریف کی بوائی کے لئے انتہائی دگرگوں صورت حال پیدا کردے گا۔ پنجاب میں آنے والا ربیع کا گندم سیزن بری طرح متاثر ہوسکتا ہے۔ یاد رہے کہ جہلم چناب زون کی ایک کروڑ 30 لاکھ ایکڑ زرخیز اراضی کی نہروں کو پانی کی فراہمی کا بڑا ذریعہ منگلا ڈیم ہی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کی محض جہلم چناب زون کا رقبہ سندھ کے مجموعی کمانڈ ایریا سے زیادہ ہے۔ پچھلے سال انہی دنوں مجموعی طور پر تربیلہ اور منگلا ڈیم میں 6.205ملین ایکڑ فٹ پانی کا ذخیرہ موجود تھا جبکہ اس وقت مجموعی طور پر تربیلہ اور منگلا ڈیم میں 0.641 ملین ایکڑ فٹ پانی کا ذخیرہ موجود ہے جو کہ گذشتہ سال سے 90فیصد کم ہے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے موجودہ صورت حال میں پنجاب کو تونسہ کی نہروں کی ضروریات پوری کرنے نہیں دیا گیا اور اسے ان نہروں میں 68 سے 52فی صد کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اگرچہ پنجاب کوپورا حق ہے کہ وہ چشمہ جہلم زون کی آبپاشی کے لئے اپنے حصے میں سے کسی بھی نہر سے پانی لے سکتا ہے لیکن اسے چشمہ جہلم لنک کینال اور تونسہ پنجند لنک کینال سے پانی نہیں لینے دیا گیا اور نتیجے میں لوئر رنگ پور نہر کی تقریبا سوا لاکھ ایکڑ اراضی کو پانی نہیں دیا جاسکا۔پانی کی اس سنگین کمی کے باوجود سندھ نے اب تک کوٹری سے نیچے0.053 ملین ایکڑ فٹ (کیوسک 26720)پانی سمندر میں چھوڑا ہے۔اگر اس صورت حال کا خاطر خواہ حل نہ نکالا گیا تو پنجاب کے کسا نوں کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا ۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومتکی جانب سے الزامات محض ایک سیاسی انتشار پھیلانے کی کوشش نظر آتے ہیں ، ریاست کی توانائی غیر ضروری جھگڑے میں ضائع کی جارہی ہے ۔اس سے صوبائی تعصب پھیل سکتا ہے ، دہشت گردی، فرقہ واریت اور معاشی بد حالی سے لڑ کر پاکستان تعمیر نو کے عمل سے گزر رہا ہے ،بیراجوں پر غیر جانبدار مبصرین کی تعیناتی کی تجویز مسترد کر کے سندھ حکومت کا موقف پہلے ہی مشکوک ہو چکا ہے۔چند سیاسی افراد کی پانی چوری کو چھپا نے کے لئے اداروں اور وفاق کی قربانیوں کو داو پر لگانا اور قومی یکجہتی پر وار کرناکسی طور قابل قبول نہیں۔