وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پرانا بلدیاتی نظام ناکام ہوچکا اور اب ہم تاریخ کا بہترین نیا نظام لارہے ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے فیصل آباد میں برآمد کنندگان اور تاجر برادری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے وہ شہریوں کو سہولیات فراہم کرے،بلدیاتی ملکی مسائل کے حل میں بلدیاتی نظام اہم کردار ادا کرتا ہے۔ خدا کرے کہ وزیراعظم کا کہا سچ ہو اچھا اور قابل عمل بلدیاتی نظام سامنے آئے،بلدیات کو بنیادی جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے،دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ بلدیاتی نظام کو سب سے زیادہ نقصان جمہوری ادوار میں ہوا،جبکہ آمرانہ دور میں بلدیاتی الیکشن ہوتے رہے،یہ ٹھیک ہے کہ آمروں نے اپنی ضرورتوں اور اپنی ترجیحات کے تحت بلدیاتی الیکشن کرائے اور ایوب خان کے بی ڈی سسٹم سے لیکر ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے بلدیاتی الیکشن تک بنیادی جمہوریت کا احیاء ہوا، اختلاف کے باوجود یہ بات ماننا پڑے گی کہ جنرل پرویز مشرف دور کا بلدیاتی نظام بہتر تھا اور یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ صوبائی مرکز کے وسائل یونین کونسل سطح تک پہنچے اور منتخب بلدیاتی نمائندوں کو اس قدر اختیارات حاصل ہوئے کہ انگریز دور کی بیوروکریسی کی چیخیں نکل گئیں، مشرف کی رخصتی کے ساتھ ہی بلدیات کی بساط لپیٹ دی گئی، پنجاب میں شہباز شریف نیا بلدیاتی نظام لائے جس کی بناء پر ایک بار پھر تمام وسائل صوبائی سیکرٹریٹ کے پاس چلے گئے اور بیورو کریسی کو ایک بار پھر انگریز دور سے بھی بڑھ کر اختیارات دے دیئے گئے، سندھ گورنمنٹ نے بھی عوامی ضرورتوں کو پامال کرتے ہوئے ایسا بلدیاتی نظام ترتیب دیا جس سے شہری حکومتوں کو اس قدر کمزور کیا گیا کہ وہ محتاج محض بن کر رہ گئیں،صوبہ خیبرپختونخواہ میں عمران خان کی تحریک انصاف بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ بلدیاتی نظام لائی اور آج کی طرح کل بھی لوگوں کو بتایا گیاکہ خیبرپختونخواہ کا بلدیاتی نظام مثالی ہے مگر عملی طور پر عوام کو کچھ فائدہ نہ ہوا، موجودہ بلدیاتی نظام سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اسکے بائی لاز پر کس قدر عمل ہوتا ہے اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد تمام صوبے اپنا اپنا بلدیاتی نظام لانے میں بااختیار ہیں اگر چاروں صوبوں کے درمیان بلدیاتی نظام میں مطابقت پیدا نہیں ہوتی اور صوبے اپنے اپنے نظام پر اسرار کرتے ہیں تو فی الوقت موجودہ بلدیاتی نظام پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں قابل عمل ہو سکتا ہے۔ان دو صوبوں میں عمران خان کی حکومت ہے،جہاں تک بلوچستان کی بات ہے وہاں ہمیشہ مخلوط حکومت بنتی ہے،ابھی میں بلوچستان کے دورے سے واپس آیا ہوں وہاں میں نے سیاسی تجزیہ نگاروں سے بلدیاتی نظام کے بارے میں پوچھا توایک دوست نے کہا کہ یہاں مرکز اور صوبے کا اختیار بھی کمزور ہے تو بلدیات کوکون پوچھے گا،آئین پاکستان کے مطابق بلدیاتی الیکشن مخصوص مدت کے اندر کرانا حکومت کی ذمہ داری ہے مگر افسوس کہ حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہی ہے،سندھ حکومت تواب بھی بلدیاتی الیکشن کرانے پر آمادہ نظر نہیں آتی۔ جیساکہ میں نے پہلے عرض کیا کہ اچھے سے اچھا قانون اور اچھے سے اچھا نظام بھی اس وقت اپنی افادیت کھو دیتا ہے جب اس پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد نہ ہو،یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ وسیب کے لوگ مشرف کے بلدیاتی نظام کو آج بھی یاد کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ وسیب کا صوبہ نہیں ہے،وسیب کے لوگ معمولی سے معمولی فنڈ اور چھوٹے سے چھوٹے اختیارات کو ترستے ہیں،مشرف کے بلدیاتی نظام سے سمندرسے قطرہ سہی وسیب کو کچھ نہ کچھ ملا تھااب بھی ایسے بلدیاتی نظام کی ضرورت ہے جس سے عوام کو ریلیف ملے اور ادارے بااختیار ہوں،اب ہم وزیراعظم کے خطاب کے دوسرے نقات کو دیکھتے ہیں تو قول و فعل کے تضاد کے سوا کچھ نظر نہیں آتا، وزیراعظم کا یہ کہنا کہ سارا پیسہ لاہور پر خرچ ہوگا تو پسماندہ علاقوں میں غربت بڑھے گی حالانکہ اب بھی وسائل لاہور پر خرچ ہو رہے ہیں اور وزیراعظم نے کھربوں روپے مالیت کے لاہور راوی سٹی پراجیکٹ کا اعلان کرکے نواز شریف اور شہباز شریف کی لاہور نوازی کو شرما دیا ہے، وزیراعظم کا یہ کہنا درست نہیں کہ ٹیکسٹائل سیکٹر اس قدر ترقی کر چکا ہے کہ لیبر نہیں مل رہی، وزیراعظم نے لیبر یا افرادی قوت کی بے قدری دیکھنی ہے تو وہ سرائیکی وسیب کا دورہ کریں، ایک ایک گھر میں پانچ پانچ جوان بے روزگار بیٹھے ہیں،اس سے بڑھ کر وسیب کے ساتھ غیر منصفانہ اور امتیازی سلوک کیا ہوگا کہ ٹیکسٹائل کیلئے خام مال کپاس اور افرادی قوت وسیب کے پاس ہے اور ٹیکسٹائل سٹی فیصل آباد کوبنا دیا گیا ہے، عمران خان نے وسیب سے محرومی کے خاتمے میں اور صوبے کے نام پر ووٹ لئے، عمران خان کے اقتدار کو تیسرا سال شروع ہوچکا ہے، سوال یہ ہے کہ وسیب کی محرومی کے خاتمے اور صوبے کے قیام کیلئے کیا اقدامات ہوئے؟ عزر گناہ بد تر از گناہ کی مانند تحریک انصاف کے عمائدین کہتے ہیں کہ ہمارے پاس صوبے کیلئے اسمبلی میں دو تہائی اکثریت نہیں ،وسیب کو ٹیکس فری انڈسٹریل زون یونیورسٹیاں،کیڈٹ کالج اور موٹروے انفراکسٹچر دینے کیلئے کیا اسمبلی سے دوتہائی اکثریت کی ضرورت ہے؟