وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مقامی حکومتوں کا نیا نظام انقلاب برپا کرے گا۔ حکومت نے رواں برس اپریل میں پنجاب اسمبلی سے نئے بلدیاتی نظام کا مسودہ قانون منظور کرواتے وقت ایک سال کے اندر انتخابات کروانے کا اعلان کرتے ہوئے لوکل گورنمٹ کے منتخب اراکین کو کام کرنے سے روک دیا جس وجہ سے کچھ حلقوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ حکومت بلدیاتی اداروں کو فعال کرنے میں سنجیدہ نہیں اور اختیارات اور وسائل اپنے منشور کے برعکس صوبائی حکومت کے ذریعے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اس تاثر کو اس لیے بھی یکسر مسترد کرنا ممکن نہ تھا کیونکہ سابق جمہوری حکومتوں نے اپنے ادوار میں بلدیاتی اداروں کو مختلف حیلے بہانوں سے مفلوج کئے رکھا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں اگر سپریم کورٹ کے حکم پر بادل نخواستہ انتخابات کروانے پر مجبور ہوئی بھی تو انتخابات کے بعد عام انتخابات تک بلدیاتی اداروں کے قوانین ہی نہ بن سکے تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اس نے نہ صرف نئے بلدیاتی نظام اور اثاثہ جات کی منتقلی پر کام شروع کر دیا ہے بلکہ پنجاب میں 14سال سے بلدیاتی اداروں میں خالی اسامیوں پر بھرتی کا عمل بھی شروع گیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو وزیر اعظم کا بیان کہ نئے بلدیاتی نظام سے صوبے میں انقلاب برپا ہو گا اخلاص پر مبنی محسوس ہوتا ہے ۔ امید کی جا سکتی ہے کہ حکومت مقررہ وقت پر بلدیاتی انتخابات کروا کر وسائل اور اختیارات مقامی نمائندوں کو منتقل کر کے حقیقی ترقی کا نیا باب رقم کرے گی۔