وزیراعظم نے ایک روزہ دورہ لاہور کے دوران مہنگائی کا ایک بار پھرسخت نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ عوام کو ریلیف کی فراہمی میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کروں گا۔ گندم اور اشیائے ضروریہ کی خریداری کو منصوبہ بندی کے تحت یقینی بنایا جائے تا کہ مہنگائی نہ ہو۔ عوام کے لیے ہونے والی مہنگائی کی وجہ سے مجھے سب سے زیادہ تکلیف محسوس ہوتی ہے۔وزیراعظم کے بار بار نوٹس لینے کے با وجود ملک میں مسلسل ساتویں ہفتے بھی مہنگائی میں اضافہ ہوا۔یہ وزیر اعظم کا گیارہواں نوٹس تھا، جس کے بعدگزشتہ ایک ہفتے میں چینی، آٹا،مرغی،انڈے اور ٹماٹر سمیت پچیس اشیائے ضروریہ مزید مہنگی ہوگئیں۔ادارہ شماریات کی ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق حالیہ ہفتے مہنگائی 0.45فیصد مزید ا ضافہ ہوا۔ برائلر مرغی 26 روپے کلو، انڈے 9 روپے درجن جبکہ چینی کی قیمت میں 2 روپے 9 پیسے کلو کا اضافہ ہوا۔ ٹماٹر 4 روپے،دال ماش 2 روپے فی کلو ،20 کلوآٹے کا تھیلا 4 روپے جبکہ ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر 41روپے مہنگا ہوا۔ یہی نہیں،گوشت،چاول،گھی،تازہ دودھ اور دہی کی قیمتوں میں بھی ا ضافہ ہوا۔اس وقت جس مسئلے نے ملک میں عذاب پیدا کر رکھا ہے وہ مہنگائی ہے،حکومت لاکھ دعوے،وعدے کرے، تحقیقاتی کمیشن بنائے،حقیقت یہ ہے کہ حکومت ابھی تک مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے،وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا ہے کہ مہنگائی کی وجہ ڈالر کی قیمت بڑھنا بھی ہے،ڈالر بڑھنے سے پٹرول،بجلی، گھی،دالیں سب مہنگے ہوئے۔عین گندم کی کٹائی کے وقت بارشیں ہو گئیں جس کی وجہ سے گندم کی پیداوار کم ہوئی،یہ وجہ ایک طرف لیکن عوام کو سستی چیزیں فراہم کرنا حکومت کی پہلی ترجیح ہونی چاہئے عوام بجلی اور گیس کے بڑھتے بلوں سے بھی سخت پریشان ہیں۔حکومت کے سوا دو سالہ دور میں کھانے پینے کی اشیاء 40سے50فیصد مہنگی ہو ئی ہیں،جو غریب لوگوں کیلئے انتہائی مشکل ہے،پرائس کنٹرول نہ کرنے میں صوبائی حکومتیں بھی ذمہ دار ہیں،ڈیمانڈ اور سپلائی پر وفاق اور صوبوں کے غلط اندازوں سے آٹا اور چینی کو مہنگی ہونے سے نہیں رو کا جا سکا،پہلے در آمد کرنے کا فیصلہ دیر سے ہوا،جب عالمی مارکیٹ میں چیزیں سستی تھیں، اس وقت چینی،گندم در آمد نہیں کی گئی لیکن جب قیمتیں بڑھ گئیں پھر در آمد کا فیصلہ کیا، اس سے عوام کو ریلیف نہیں مل سکا۔۔مارکیٹوں میں آٹے کی قلت کی وجہ سے دکاندار من چاہی قیمتیں وصول کررہے ہیں مگر انتظامیہ کی کارروائی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔مہنگائی گداگری اور غربت میں اضافے کا بھی دوسرا نام ہے۔ لوگ مہنگائی کے سبب پیٹ کاٹ کاٹ کر جینے پر مجبور ہیں۔ بیشتر گھرانے ایسے ہیں،جہاں مہینے کا اکٹھا سامان لانے کا رواج دن بدن ختم ہوتا جا رہا ہے۔بے روزگاری اور غربت کے بڑھنے سے امن و امان کا خراب ہونا فطری امر ہے۔ جب عام آدمی کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں ہو گا، اس کے ذہن پر منفی خیالات کا قبضہ ہو گا، سامنے اندھیرا نظر آئے گا، تو اس کے اعصاب جواب دے جائیں گے اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی قانون توڑے گا۔ جب عام آدمی اپنے اہل خانہ کی ضروریات پوری نہیں کر سکے گا، کھانے پینے کی چیزیں اس کی پہنچ سے باہر ہو جائیں گی، تو اس کے پاس چھینا جھپٹی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ ان حالات میں نوجوان طبقے کے سب سے زیادہ متاثر ہونے کے امکانات ہیں۔ نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہو گی تو کوئی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ حکومت کو بڑے چیلنجز کا سامنا ضرور ہے۔ تمام مسائل اپنی جگہ لیکن سب سے بڑا مسئلہ بہرحال عام آدمی کے کچن کا ہے۔ اشیائے خورونوش کی مناسب قیمتوں پر فراہمی کو یقینی بنانا حکومتی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ اس اہم مسئلے کے حل کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ معیشت کی بحالی اہم ہے، لٹیروں کو سزائیں دینا بھی اہم ہے، مافیا کو لٹکانا اہم لیکن ان سب کاموں سے زیادہ اہم عام آدمی کے مسائل حل کرنا ہے۔ عوامی طاقت کے بغیر حکومت اندرونی و بیرونی دشمنوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی،عوامی حمایت کے بغیر حکومت داخلی و خارجی معاملات کو بہتر نہیں بنا سکتی،جب تک عام آدمی کی حمایت حاصل نہیں ہو گی،عام آدمی کے مسائل حل نہیں ہونگے،عام آدمی کی زندگی آسان نہیں ہو گی،امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانا یا امن و امان کو برقرار رکھنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد میں عوام کو جو شعور دیا ہے،اس کی وجہ سے اب عوام بہت سمجھدار اور باشعور ہو چکے ہیں۔ اب نہ تو عوام کی توجہ تقسیم کی جا سکتی ہے،نہ عوام کی توجہ مسائل سے ہٹائی جا سکتی ہے،نہ اب عوام ناانصافی برداشت کرتے ہیں،نہ ہی نظر انداز کیے جانے پر خاموش رہتے ہیں۔عوام سوشل میڈیا کے ذریعے سب کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ یہ تبدیلی تمام فیصلہ سازوں کے لیے ایک سبق بھی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیمار معیشت، غربت اور بیروزگاری موجودہ حکومت کو ورثے میں ملنے والے تحفے ہیں۔کوئی انکار کرے، حقیقت سے منہ موڑے، غلط بیانی کرتا رہے، عوام کے سامنے حقائق کو مسخ کرے، توڑ مروڑ کر پیش کرے جو بھی کرتا رہے، لیکن یہ حقیقت تو نہیں بدل سکتی کہ عمران خان کو تباہ حال معیشت ملی۔وزیر اعظم دوہری مشکل میں ہیں ایک طرف تو کسان ہیں جو بجلی گیس کے نرخ بڑھنے سے پریشان ہیں اگر حکومت کسان کو خوشحال کرنا چاہتی ہے تو انہیں مناسب اسپورٹ پرائس دینی ہو گی اگر کسان کو سہولت دی جاتی ہے تو شہری صارفین کو چیزیں مہنگی ملیں گی،اگر کسان کو گندم اور گنا میں فائدہ نہیں ہو گا تو وہ ان دونوں فصلوں کی پیداوار کم کر دے گا،پیدا وار کم ہو گی تو پھر مہنگائی بڑھے گی،اس لحاظ سے حکومت مشکل میں ہے کہ کسان کو خوش کرنا ہے یا عام شہری کو۔نیا پاکستان نئے اور انقلابی فیصلوں کا منتظر ہے،عوام کی نظریں ایوان وزیراعظم پر ہیں،عوام کی نظریں عمران خان پر ہیں۔ امید ہے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ بالخصوص اشیا خورونوش کے معاملے پر عوام کے ساتھ انصاف کریں گے۔اب بھی وقت ہے کہ عام آدمی کے حقیقی مسائل کے حل کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں کو قابو میں رکھا جائے،تمام ضروری اشیاکی بغیر رکاوٹ فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ایک آزاد اور خود مختار ادارہ قائم کیا جائے،جو ہر قسم کے سیاسی اثرورسوخ سے آزاد ہو، ایسا ادارہ جو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے۔مہنگائی کے ساتھ ساتھ ملک میں کچھ اچھے کام بھی ہو رہے ہیں،جیسا کہ مختلف شعبوں میں بہتری کے لیے خاصا کام ہو رہا ہے اس کے مثبت اثرات بھی جلد عوام تک پہنچیں گے۔ بیمار معیشت کا علاج بھی کیا جا رہا ہے اس میں کچھ وقت ضرور لگے گا لیکن بہتری ہو گی۔بہتری کی اُمید پر عوام زندہ ہیں مگر بہتری کے آثار نظر آنے چاہئیں کہ امیدیں برقرار رہیں اور لوگ مایوسی بے یقینی اور اضطراب کا شکار نہ ہوں۔ مایوسی، بے یقینی ایسے اضطراب کو جنم دیتی ہے جو بالآخر سیاسی عدم استحکام کا باعث بنتا ہے۔