پوچھاجلدی کیا ہے؟ جواب ملا کہ پانچ ماہ ہو گئے نیا پا کستان کب بنے گا؟ کہا کہ نیا پا کستان کسی نئی سر زمین اور نئے لوگوں کے ساتھ تو نہیں بنانا تھا، وہی پرانی جگہ پر صفائی ستھرائی کے بعد کچھ نیا ہو گا۔لیکن بے صبری اتنی ہے کہ کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ کچھ کا خیال ہے کہ نئے پا کستان والوں کے پاس کوئی روڈ میپ ہی نہیں ہے۔سیلیکٹڈوزیر اعظم کا نعرہ لگانے والے ایک صاحب بہت دور کی کوڑی لائے، کہنے لگے کہ جنہوں نے منتخب کرایا ہے انہوں نے روڈ میپ اپنے پاس رکھ لیا ہے اور انہیں بے یار و مدد گار چھوڑ دیا ہے کہ اگرتم اپنے زور پر آئے ہو تو پھر اپنا کچھ کر کے دکھائو، ہم تمہاری کوئی مدد نہیں کریں گے۔گویا حکومت اوراسٹیبلشمنٹ میںپھوٹ پڑ چکی ہے۔جتنے منہ اتنی باتیں۔ اگر تھوڑی دیر کے لئے کرپشن اور احتساب Syndrome کو علیحدہ کر کے دیکھیں تو پھر شاید کچھ تصویر واضح ہو۔ لیکن جو پرانے چشمے اتارنے کو تیار نہیں ہیں انہیں تو اس شدید سردی میںدھند کے علاوہ کچھ نظر نہیں آئے گا اور جن سیاسی قائدین کی زندگی ہی اندھیر ہو چلی ہے انکا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں رہا ہو گا۔ معروضی حالات پر نظر ڈالیں تو پاکستان کے تمام دوست ممالک ہماری مدد کو امڈے چلے آ رہے ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین، ترکی، قطر، ملائیشیا، برطانیہ ، جرمنی اور یورپ کے چھوٹے ممالک جس میں پرتگال بھی شامل ہے پاکستان کی ما لی معاونت اور یہاں سرمایہ کاری کے لئے دل وجان سے تیار ہیں۔ چھ ماہ پہلے تک تو ایسی کوئی باز گشت سنائی نہیں دے رہی تھی‘ سوائے چین کے ان منصوبوں کے جو زیادہ تر پنجاب حکومت کے ایماء پر یہاں شروع کئے گئے جس میں ملتان میٹرو بھی شامل ہے جس کا مقدمہ نیب کے پاس ہے۔ایسی کیا تبدیلی آئی کہ اتنے سارے ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے ایک بہترین ماحول کا ادراک کرنے لگے۔اگرچہ مورگن سٹینلے کے چیف انوسٹمنٹ ایڈوائزر ڈیوڈ ڈارسٹ نے جنوری2015 ء میں کہا تھا کہ پاکستان اگلی تین دہائیوں میں ان نو ممالک میں شامل ہو گا جو ملکر اس خطے میں ترقی کا ایک اور چین بن کر دکھائیں گے۔دنیا کی اس بہت بڑی معاشی ریٹنگ والی کمپنی کے کہنے کو باوجود جولائی 2018 ء تک کوئی ملک پاکستان میں سرمایہ کاری میں اس قدر دلچسپی نہیں رکھتا تھا جتنا ان چند ماہ میں دیکھنے کو نظر آ رہا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے ہاں سیکیورٹی کی صورتحال میں بہت بہتری آ ئی ہے شاید اس وجہ سے دلچسپی بڑھی ہے یہ ایک اہم وجہ ضرور ہے لیکن واحد وجہ نہیں ہے۔یقیناً ہم نے ہزاروں قیمتی جانوں کی قربانیوں کے بعد اس ملک میں امن کی شکل دیکھنا شروع کی ہے لیکن ابھی لمبا سفر باقی ہے۔ اور یہ سفر ایک صورت میں صرف جلدی طے ہو سکتا ہے کہ ہمارے ہاں بین الاقوامی بڑی کمپنیاں ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں سرمایہ کاری کے لئے مائل ہوں۔اور یہی وہ تبدیلی ہے جو پہلے نظر نہیں آ رہی تھی بلکہ ماضی قریب میں اسکادور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا۔بہت سے ملکوں کی طرف سے پاکستان کو ٹورازم کے لئے دنیا کے دس بہترین ممالک میں شامل کر لیا گیا ہے اور ٹریول ایڈوائزری ختم کر دی گئی ہے۔دنیائے کرکٹ کی دو بڑی ٹیمیں آسٹریلیا اور سائوتھ افریقہ یہاں آ کر کھیلنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔سب سے بڑھ کر امریکہ بہادر کے رویّے میں تبدیلی ہے جوڈو مور کی رٹ لگا رہے تھے وہ اب ہماری خطے میں امن کی کوشوں کو نہ صرف سراہتے ہیں بلکہ اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جو افغانستان اور خطے میں امن لانے کے لئے کلیدی کام کر رہا ہے اور اس میں کامیابی اسی کی مدد سے حاصل ہو سکتی ہے۔اس حوالے سے موجودہ حکومت نے جس طرح سے تمام سٹیک ہولڈرز کو افغانستان میں امن کی بحالی کے لئے یکجا کیا ہے اسکی تعریف ضرور ہونے چاہئے۔ کیونکہ جہاں اس میں سعودی عرب، امریکہ، افغانستان جیسے ہمخیال شامل ہیں وہیں اس میں امریکہ کے رویے سے شاکی اور متاثر ممالک ایران، روس، قطر اورچین بھی ہیں۔جس انداز میں موجودہ حکومت نے ان ممالک کے درمیان ایک مشترکہ ایجنڈا ترتیب دینے کی کوشش کی ہے اور انکے ایکدوسرے کے حوالے سے تحفظات کو دور کرنے کی کاوش کی ہے وہ انتہائی غیر معمولی عمل ہے۔ایک سال پہلے امریکہ کے صدر پاکستان کے بارے میں جو کہہ رہے تھے، آج ان کا نظریہ بہت حد تک تبدیل ہو چکا ہے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ تو کھل کر پاکستان کی مدد کی معترف ہے۔اس سے پہلے دو دفعہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا۔پہلی دفعہ جب مری میں طالبان سے مذاکرات شروع ہونے والے تھے تو طالبان کے امیر ملّا عمر کی موت کی خبر افشاء کر دی گئی جو دو سال پہلے فوت ہو چکے تھے لیکن بوجوہ اسکا اعلان نہیں ہوا تھا۔ دوسری دفعہ جب معاملات آگے بڑھنے لگے تو ملّا اختر منصور کو بلوچستان میں ایران کے بارڈر کے قریب ڈرون سے نشانہ بنا کر ختم کر دیا گیا اور ایک دفعہ پھر یہ مذاکرات تلپٹ ہو گئے۔ اس بار جب یہ مذاکرات آگے بڑھتے نظر آ رہے ہیں تو کسی طرف سے اس قسم کی شرارت دیکھنے میں نہیں آرہی جو اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز اس معاملے میں سنجیدہ ہیں اور پاکستان پر اعتماد کیا جا رہا ہے۔ اس ساری صورتحال کا اگر بغور جائزہ لیں تو معاملات تیزی سے بہتری کی طرف گامزن نظر آتے ہیں۔ بھلے وہ معاشی محاذ ہو یا بین الاقومی قوتوں کے تحفظات ہوں جو دور ہوتے جا رہے ہیں۔جہاں تک ملک کے اندر صورتحال ہے تو اس میں جو عملی رکاوٹیں ہیں ان میں سب سے مشکل وہ رویہ ہے جو ہماری افسر شاہی نے گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنایا ہوا ہے۔ وہ خود کا سرکار کا نوکر سمجھنے کی بجائے خود سرکار بنے ہوئے ہیں اور تمام عوام کو رعایا سمجھتے ہیں۔ انکی پشت پناہی ایسی مقتدرسیاسی یا غیر سیاسی شخصیات کرتی رہی ہیں جنکوصرف اپنے اقتدار کو قائم رکھنے اور عوام پر اپنا دبدبہ بڑھانے سے غرض تھی اور افسر شاہی سے موزوں کوئی ہتھیار نہیں، کیونکہ بر صغیر کا تقسیم سے پہلے کا یہ کامیاب نسخہ تھا۔اس رویّے کو تبدیل کرنا سب سے مشکل کام ہے اور امید رکھنی چاہئے کہ جب ہم 2019 ء کو رخصت کر رہے ہوں گے اس محاذ پر بھی خاطر خواہ تبدیلی نظر آئے گی اور نئے سال کے آنے سے پہلے نئے پاکستان کے آثار نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ جلدی کس بات کی ہے۔